نبیلہ شہزاد (لاہور)
نوشین مسلسل دو گھنٹے سے بازار میں خریداری میں مصروف تھی۔ گرمی بھی اپنے
جوبن پر تھی۔ پچھلے دن کی بارش نے آگ اگلتے سورج کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ یہ
تو بھلا ہو اگست کے مہینے کا اور وہ بھی 13 اگست کا دن، سڑکوں کے کنارے ہوں
یا دکانوں کے باہر لگے ٹھیلے۔ ہر طرف جھومتے لہراتے جھنڈے جھنڈیاں ہی نظر آ
رہیں تھیں۔ نوشین جب نظر بھر کر سبز رنگ کو دیکھ لیتی تو آنکھوں میں گرمی
کی حدت کے بجائے سبزے کی ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی۔ اس بار یومِ آزادی منانے
کے لیے نوشین کا میکہ اور سسرال اس کے گھر میں ہی مدعو تھا۔ سب کے ساتھ مل
بیٹھنے کا تصور خوش تو کرتا تھا لیکن اس کے درمیان مشقت کا ایک پہاڑ بھی
حائل تھا۔ گروسری کی خریداری ابھی کرنی تھی، ابھی تو کپڑے جوتے ہی پورے کر
رہی تھی۔ نوشین نے اپنی دس سالہ بیٹی آئزہ کے لیے سبز فراک سفید پاجامہ اور
سفید ہی ڈوپٹہ خریدا۔ آٹھ سالہ بیٹے کے لیے سفید پینٹ اور سبز شرٹ، جبکہ
شوہر کے لیے صرف سبز شرٹ ہی خریدی۔ اپنے لیے سبز کرتا خریدا۔ سفید شلوار
اور سبز ڈوپٹہ گھر میں ہی موجود تھا۔ پھر بعد میں ایک سوپر سٹور سے سبزی،
گوشت، مصالحہ جات اور دوسری چیزیں خریدیں۔ شوہر، عمر تو بس استعمارہ کے طور
پر ساتھ تھا۔ کئی بار کہا، ’’میں گاڑی میں بیٹھتا ہوں، آپ جا کر خرید
لیں‘‘۔
نوشین سامان اٹھائے ہانپتی کانپتی گھر میں داخل ہوئی۔ بچے خوشی خوشی ماں کی
طرف لپکے ماں کے ہاتھ سے اپنے کپڑوں کا شاپر ہی پکڑ سکے اور باقی ساز و
سامان سے بے نیاز اپنے کپڑے دیکھنے میں مگن ہو گئے۔
14 اگست کا دن اپنے ساتھ خوشی کی بہار لے کر آیا۔ آج تو صبح صبح ہی گھر میں
ہل چل مچ گئی۔ بچے بار بار امی سے جشنِ آزادی والے کپڑے پہننے کی اجازت
مانگ رہے تھے اور امی کی ایک ہی تکرار کہ مہمانوں کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے
پہنیں گے۔ نوشین اپنی ساس کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ وہ دونوں ساس بہو
مہمانوں کی آمد سے پہلے گھریلو کام کاج سے فارغ ہو جانا چاہتی تھیں۔ آمدِ
ضیوف کا وقت تقریباً دوپہر کے ایک بجے تھا۔ ہلکے ہلکے بادلوں نے آسمان کو
ڈھانپ رکھا تھا۔ ہوا کے ہلکے سے ہلکورے کے ساتھ ہی کاغذ کی بنی جھنڈیاں خوب
پھڑپھڑاتیں۔خوبصورت و پر سکون فضائی منظر کے ساتھ باورچی خانے سے آتیں
انواع و اقسام کے پکوانوں کی خوشبوئیں ناک کے نتھوں کے ذریعے دماغ میں گھس
رہیں تھیں۔ چکن جیلفریزی، بریانی، مٹن قورمہ، چپلی کباب کے ساتھ ساتھ موسم
کی مناسبت سے کڑی پکوڑا بھی بن چکا تھا۔ میٹھے میں فروٹ ڈیزرٹ اور فرنی
تھی، جو رات کو ہی بنا کر فرج میں رکھ لی تھی۔
سارے گھر والے سبز سفید کپڑوں میں ملبوس ہو گئے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔
سں ب سے پہلے آنے والی مہمان جو کہ اس محفل کی بزرگ خاتون اور مہمانِ خصوصی
بھی تھیں، عمر کی نانی اور نوشین کی نانی ساس بیگم ذکیہ خاتون تھیں، جو کہ
نئی نسل کے عادات و اطوار سے ہٹ کر وقت کی پابند، مقررہ وقت سے بھی دس منٹ
پہلے پوتے کو ساتھ لیے پہنچ گئیں۔ آج ایسے لگ رہا تھا، جیسے اس دنیا میں دو
ہی رنگ پیدا کیے گئے ہیں یعنی سبز اور سفید۔ میزبانوں کے ساتھ ساتھ زیادہ
تر مہمانوں نے بھی یہی رنگ زیب تن کر رکھے تھے۔ کھانا پیش کیا گیا سب
مہمانوں نے جی بھر کر کھایا اور دل کھول کر تعریفیں بھی کیں۔ گھر میں ہی
جشنِ آزادی کے موضوع پر پروگرام بھی رکھا تھا۔ سب کو پہلے سے اطلاع بھی دے
رکھی تھی کہ سب تیاری کے ساتھ آئیں۔ پروگرام کا آغاز نوشین کے بارہ سالہ
بھتیجے حبیب الرحمن (جو حفظ قرآن کا طالب علم تھا) نے تلاوت قرآن مجید سے
کیا۔ عمر کی بھانجی سعدیہ نے نعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کی۔ پھر دوسرے
بچوں نے ملی نغمے گائے اور چھوٹی چھوٹی تقریریں کیں۔ آخر میں عمر نے مائک
اپنے ہاتھ میں لیا اور سب بچوں کی تعریف کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی اور
بچوں کو چھوٹی چھوٹی پیکنگ میں چھوٹے چھوٹے انعامات بھی دیئے۔ پھر پر جوش
انداز میں کہنے لگا، ’’اب میں مائک دینے جا رہا ہوں، ایک ایسی ہستی کو جو
تعمیر پاکستان کی چشم دید گواہ ہیں۔ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے حصولِ وطن کی
خاطر لوگوں کا خون پانی کی طرح بہتے دیکھا۔ میری پیاری نانی جان جن کی اپنی
عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی۔‘‘
عمر نے مائک بوڑھی و نخیف نانی جان ذکیہ خاتون کے جھریوں زدہ ہاتھوں میں
تھما دیا اور ساتھ ہی سب بچوں و بڑوں کو تاکید کی کہ نانی کی قیمتی باتیں
خاموشی سے سنیں۔ ذکیہ خاتون نے مائک پکڑ کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
کئی سال پیچھے کی یادوں میں گم ہو گئیں۔ آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی، خاموش
چہرے کا کرب اپنی داستان سنانے لگا۔ آخیر اپنی ہمت مجتمع کر کے گلو گیر
آواز میں ذکیہ خاتون بولیں۔
’’میرے بچو! مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تم اپنی آزادی کے دن کو یاد
رکھتے ہو اور اسے خوشی سے مناتے ہو۔ میرا سوال ہے، کیا تمہارے وطن کا تم سے
تقاضہ صرف یہی ایک دن منانے کا ہے کہ تم رنگ برنگے کپڑے پہن کر مل بیٹھ جاؤ
یا پھر چند ملی نغموں اور تقریروں سے اپنی ذمہ داری پوری کر لو؟ دیکھو ہم
نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی اور اس آزادی کی قیمت جان و مال
اور عزتیں سب کچھ گنوا کر ادا کی، لیکن افسوس! ہمارے لوگوں نے رسم و رواج
ہندوؤں کے اور رہن سہن انگریزوں کا اپنا لیا۔ لا الہ الااﷲ کے نام پر حاصل
کیے جانے والا خطہ سود، حرام خوری، رشوت بیزاری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، دو
نمبری و چوری چکاری سے اٹا پڑا ہے۔ میرے بچو! میں یومِ آزادی منانے کے خلاف
نہیں یہ دن مناؤ ضرور مناؤ، لیکن تفریح کے لیے نہیں بلکہ اس کے لیے دی گئی
قربانیوں کو یاد کر کے اس کے حصول کے مقاصد کو ذہن نشین کر کے اسے خوب سے
خوب تر بنانے کے لیے اپنے اندر نیا جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے مناؤ۔ یہ
تو مذہب کے نام پر حاصل کردہ وطن ہے۔ اس کا نام روشن کرنا اور اس کی خدمت
کرنا ہماری عبادت ہے۔ آپ سب لوگ بھی عزم کریں کہ ناپاک لوگوں کی پھیلائی
آلائشوں سے اپنے وطن کو پاک کر کے اسے معطر و گلزار بنانا ہے اور اسکا آغاز
ہم نے اپنی ذات سے کرنا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہی ہم سلامت ہیں۔‘‘
ذکیہ خاتون کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتی تھیں، لیکن ماضی کے کرب نے قوت
گویائی کو کمزور کر دیا۔ ذکیہ خاتون کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسوؤں نے اس
الم کی تشریح بیان کر دی تھی۔ آخر میں سب نے وطن کی سلامتی کے لیے خوب خوب
دعائیں کیں۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔ وطن کی اہمیت اور جشنِ آزادی کا تقاضہ
سب کی سمجھ میں آچکا تھا۔
|