چراغ تلے اندھیرا

 افغانستان کے اندر غیر ملکی سامراج کے خاتمے کا استقبال اس لیے نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ یہ کارِ خیر طالبان کے ہاتھوں انجام پایا ۔ آخری مرحلے میں بھی اگر کوئی رشیددوستم اس کو ہتھیا لیتا تو اسے سر پر اٹھا لیا جاتا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے دنیا بھر کے مغرب نواز دانشور پریشان ہیں اور طرح طرح کے خدشات اور اندیشوں کا اظہار کررہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم پریشانی خواتین کے حقوق کو لے کر ہے۔ اس گریہ وزاری میں وطن عزیز کا میڈیا دنیا میں اول نمبر پر ہے ۔ اس معاملے نے سیکولر میڈیا اور سنگھ پریوار کے درمیان کا فرق بھی مٹا دیا ہے مثلاً دینک بھاسکر میں ایک خبر چھپی جس کا عنوان تھا گجرات میں بھی طالبان ۔ یہ چونکانے والی خبر تھی کہ مودی جی کے گجرات میں طالبان کا کیا کام ؟ لیکن اس خبر کو بڑے اہتمام سے ویڈیوز اور تصاویر کے ساتھ شائع کیاگیاتھا تاکہ ہر کوئی اس کی جانب متوجہ ہوجائے ۔

د اہود ضلع کی اس خبر کے ساتھ منسلک ویڈیو میں ایک بے رحم شخص کسی خاتون کو ڈنڈے سے سر عام پیٹتا نظر آتا ہے۔ بھبور سماج کی اس ۵۰ سالہ خاتون کا قصور صرف یہ بتایا گیا کہ وہ دشمن سمجھے جانے والے ولوئی سماج کی خواتین سے بات کرتی تھی ۔ اس پر ناراض ہوکر دیتا بھائی ولوئی، پنکج بھائی ولوئی، پروبھائی ولوئی اور رمن بھائی ولوئی نے اسے بیچ سڑک پر اس قدر مارا کہ وہ بیچاری بے ہوش ہوگئی ۔ مذکورہ ویڈیو کی بنیاد پران چار درندہ صفت انسانوں کو گرفتار کرلیا گیا جن کا طالبان تو دور مسلمانوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود اخبار لکھتا ہے گجرات میں خاتون کے ساتھ ویسی مارپیٹ جیسے بدنام ِ زمانہ طالبان کرتے ہیں اور یہ اضافہ بھی کرتا ہے کہ ’ یہ لوگ بھی طالبان سے کم نہیں ہیں‘۔ اس خبر کو لکھنے والے بھول گئے کہ گجرات کے اندر طالبان کے عالمِ وجود میں آنے سے بہت پہلے ۲۰۰۲ کے فرقہ وارانہ فسادات میں مادر رحم سے بچے کو ترشول سے نکالا جاچکا ہے۔

میڈیا کی اس فتنہ انگیزی سے قطع نظر جس دن کابل میں طالبان نے اقتدار سنبھالا اسی دن اتفاق سے ہندوستان کے اندر آزادی کی ۷۵ ویں سالگرہ منائی جارہی تھی ۔ اسی کے ساتھ دارالخلافہ دہلی سے متصل اتر پردیش کے ا ندر مہوبہ میں ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ وقوع پذیر ہوا جس کو پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے ۔ ویسے یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یوپی میں فی الحال ڈبل انجن سرکار ہے یعنی یک نہ شد دو شد کی طرح مودی اور یوگی دونوں مل کر صوبے کا انتظام و انصرام چلا رہے ہیں۔ وہاں ایک خاتون سے یہ غلطی ہوگئی کہ اس نے چھیڑخانی کرنے والےبارسوخ شخص کی شکایت پولس میں درج کرادی ۔ اس جرأت پر مدعا الیہ کے بوکھلائے ہوئے والدین نے متاثرہ خاتون کو زندہ جلا دیا۔ اس طرح ایک 30 سالہ خاتون نے دو دن بعد جھانسی میڈیکل کالج کےاسپتال میں دم توڑ دیا ۔ کلپہاڑ تھانہ انچارج مہندر پرتاپ سنگھ کے مطابق ناراض ملزم کے والدین نے اس خاتون پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دی۔ ملزم کی ماں زیر حراست اور باپ ویپن یادو فرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان پر اوٹ پٹانگ الزام لگانے سے ان مظالم پر پردہ پڑ جائے گا ۔

مہوبہ کی مظلومہ نے جس دن دم توڑا اسی دن راجدھانی دہلی کے اندر ایک اور بھی زیادہ چونکانے والا واقعہ سامنے آیا۔ وہاں پر عدالت عظمیٰ کے سامنے ایک مرد اور خاتون نے خود سوزی کرلی ۔ اس ہیبت ناک سانحہ پر قومی میڈیا نے اس لیے آنکھیں موند لیں کیون کہ اسے افغانستان میں خواتین کی حالت زار بیان کرنے سے فرصت نہیں تھی مجبوراً خواتین کے قومی کمیشن کو اس کا از خود نوٹس لینا پڑا ۔ سپریم کورٹ کے گیٹ نمبر ڈی کے سامنے ہونے والی مبینہ خود سوزی کی اطلاع ملتے ہی اس علاقہ کو پولیس نے اپنے حصار میں لے لیا ہے اور دونوں افراد کو جھلسی ہوئی حالت میں رام منوہر لوہیا اسپتال کے اندرداخل کردیا گیا۔ اس کے باوجود گوناگوں وجوہات کی بناء پر میڈیا ندارد تھا ۔ وہ تو خیر ملزم کا تعلق بی ایس پی سے نہ ہوتا اور خواتین کے قومی کمیشن نے اس کی جانب متوجہ ہوکر دہلی کے پولیس کمشنر سے رپورٹ نہیں طلب کی ہوتی تو معاملہ خاموشی سے رفع دفع ہوجاتا ۔ یہ شتر مرغ کا رویہ خواتین کے حوالے سے مظالم کے خاتمے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

اس معاملہ کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ خود سوزی کرنے والی خاتون پر جنسی حملے میں بہوجن سماج پارٹی کا ایک رکن پالیمان اتل رائے جون ۲۰۱۹ سے گرفتار ہے۔ جمہوری نظام کا نگینہ اتل رائے مودی لہر کے باوجود وارانسی کے قریب گھوسی حلقۂ انتخاب سے ۲ لاکھ ۲۰ ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوا تھا ۔ اتل رائے کے بھائی پون کمار نے متاثرہ کے خلاف پولس میں یہ شکایت درج کرائی کہ ۲۰۱۵ میں چھیڑ خانی کا جو کیس درج کرایا گیا تھا اس کی مارک شیٹ کے اندر جو عمر درج کی گئی تھی وہ ۲۰۱۹ کے اندر عصمت دری کے معاملے میں جمع کی گئی مارک شیٹ سے مختلف ہے یعنی دونوں میں ۴ ماہ کا فرق ہے ۔ یہ تو انتظامیہ کا قصور ہے الگ الگ تاریخ پیدائش غلط لکھ دی اس کی بنیاد پر مذکورہ دستاویز کو جعلی قرار دے کر اس کے خلاف جعلسازی کا مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ طلب کیے جانے پر وہ خاتون حاضر نہیں ہوئی تو وارانسی کی ایک مقامی عدالت نے غیر ضمانتی وارنٹ جاری کردیا۔ ۲؍ اگست کو عدلیہ کی اس بےحسی کے سبب مقننہ اور انتظامیہ سے مایوس مظلوم خاتون نے خودسوزی کا انتہائی اقدام کردیا۔ اس تناظر میں موجودہ نظام کو نجات کی واحد سبیل سمجھنے والے شریعت اسلامی کے مخالفین اپنے گریبان میں جھانک کر اپنامعروضی جائزہ لینا چاہیے اور پتہ لگانا چاہیےکہ ان کے نظام زحمت میں یہ کیوں ہوا؟ ورنہ دوسروں کا گھر جلنے کے ماتم میں خودان اپنا گھر جل کر خاکستر ہو جائے گا۔ اپنےبخود ساختہ نظریات کے زعم گرفتار کی اسلام دشمنوں کی جھنجھلاہٹ پر شکیب جلالی کے یہ شعر صادق آتا ہے ؎
شکیبؔ، اس طرح کچھ قفس راس آیا
کہ گلشن جلانے کو جی چاہتا ہے

خودسوزی کی داستان خون کے آنسو رالنے والی ہے۔ اس مظلوم خاتون اور اس کے ساتھی ستیم نے پہلے تو اپنے آپ کو فیس بک پر لائیو کیا اور پھرموجودہ پولس افسران اور نظام عدل کے خلاف احتجاجاً یہ اقدام کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کے بعد جب یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو انتظامیہ کو ہوش آیا ۔ اس معاملے تفصیل یہ ہے کہ مظلومہ کے مطابق ۷ ؍ مارچ ۲۰۱۸ کو رکن پارلیمان اتل رائے نے اسے اپنی اہلیہ سے ملاقات کے بہانے گھر بلواکر اس کی عصمت دری کی اور اس کی ویڈیو بھی تیار کرلی ۔ ظاہر ہے ایسا بلیک میل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ یکم مئی ۲۰۱۹ کو اس خاتون نے وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب وارانسی کے لنکا تھانے میں اپنی آبرو ریزی کامقدمہ درج کرایا اور اس کے نتیجے میں رکن پارلیمان کی گرفتاری عمل میں آئی لیکن معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا الٹا مدعی کو پھنسانے کی کوشش ہونے لگی جس سے مایوس ہوکر یہ اسے یہ اقدام کرنا پڑا ۔ اب خواتین کا کمیشن بیدار ہوا ہے۔ اس نے مظلومہ کے علاج کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی اور یوپی کمشنر کوپولس خاطی افسران کے خلاف تفتیش کے بھی احکامات صا در کیے ہیں لیکن پولس والے اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف کیا خاک تفتیش کریں گے۔ کمیشن نےزندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا خاتون کے تحفظ کا بھی حکم دیا ہے ۔ کاش کہ یہ تحفظ پہلے فراہم کیا جاتا اور اس کی داد رسی کی جاتی تو نہ یہ سانحہ رونما ہوتا اور نہ پوری قوم شرمسار ہوتی ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.