ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ؒ بیسویں صدی کی ایک نابغہ
روز گار شخصیت تھی ۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان،
سیاستدان اور تحریکِ پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اگرچہ شاعری ان کی وجہ شہرت
بنی تاہم انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے برصغیر کے
مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ اُن کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی ۔
شاعری میں بنیادی رُجحان تصوف، احیائے ملتِ اسلامیہ اور فروغِ عظمتِ انسان
تھا۔ان کا کلام ہمہ جہت موضوعات اور خیالات پر مبنی ہے۔اس میں انسان،
معاشرہ اور کائنات سبھی شامل ہیں۔انہوں نے انسان کی داخلی کیفیات ، خارجی
اثرات، نفسیات سمیت مدنیات، فطرتِ حیات اور آفاقی خیالات کو شاعرانہ رنگ و
آہنگ میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے فطرت سے بھی کلام کیا اور اس کے خالق سے
بھی ہم کلام ہوئے۔اپنے ہم وطنوں میں ولولہ تازہ پیدا کیا ،مسلمانوں میں
انقلابی روح پھونکی اور بنی نوع ِ انسان کو خود شناسی کا پیام دیا۔ان کی
زندہ شاعری نے زندگی کی نئی اور تابناک راہوں کا تعیّن کیا جس پر چل کر
انسان عظمت کی بلندیاں سر کر سکتا ہے ۔
علامہ اقبالؒ نے دنیا کے مختلف خطوں کے دانشوروں اور صاحبانِ علم شخصیات کے
نظریات کا بھی بنظرِ غائر مطالعہ کیا، انہیں سمجھا اور زیرِ بحث لائے۔بنی
نوع ِ انسان پر اثر انداز ہونے والی شخصیات کے نظریات پر اپنے مفکرانہ اور
شاعرانہ انداز میں روشنی ڈالی اور ان نظریات کے حسن وقبح پر عالمانہ بحث
کی۔ جیسے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پیامِ
مشرق میں ’’حکیم آئن سٹائن‘‘ کے نام سے ایک پوری نظم موجود ہے جس کے آخری
دوشعر یہ ہیں:
در نہادش تا روشید و سوز ساز و مرگ و زیست!
اہرمن از سوز اوز ساز او را جبریل و حور!
من چہ گویم از مقام آں حکیم نکتہ سنج
کردہ زردشتے زنسل موسیٰ و ہارون ظہور!
(تاریکی اور روشنی ،سوز اورساز، موت اور زندگی اس کی نہاد میں پوشیدہ ہیں۔
شیطان اس کے جلال اور جبریل و حور اس کے جمال سے ہے۔ میں اس دانا سائنس دان
کے مقام و مرتبے کا کیا کہوں ایک زردشت نے موسیٰ ؑ اور ہارون کی نسل میں
ظہور کیا ہے۔)
اسی طرح کارل ماکس، گوئٹے، ارسطو، ابن ِ خلدون، رازی، رومی ، نطشے، آئن
سٹائن، بائرن،پٹوفی، ہیگل، مزدک سمیت علم وہنر کے کتنے ہی تابندہ چراغ تھے
جن سے اقبالؒ نے نہ صرف اکتسابِ فیض کیا بلکہ ان کے نظریات و خیالات کو
اپنے اشعار میں پر وکر بنی نوع انسان تک پہنچایا، گویا اقبالؒ ایک بین
الاقوامی شاعر، فلسفی اور پیامبر ِ حقیقت اور دانائے راز تھے۔علم و فکر کے
رازکو انہوں نے طشت از بام کرکے عوام الناس کی بیداری اور آگاہی کے لیے
استعمال کیا۔ وہ فرماتے ہیں:
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِِ رازِ درونِ مے خانہ
یگانہ روز گار علما ، سائنسدان اور مفکرین کے نظریات کو اقبالؒ نے نہ صرف
سراہا بلکہ اس جذبے اور انداز کے ساتھ پیش کیا کہ خود ان حکما کا استدلال
اتنے گہرے نقوش قاری پر مرتب نہیں کرتا جتنا علامہ اقبالؒ کے اشعار نے
کیا۔تاہم ان تمام حکما سے علامہ ؒنے اپنے نظریات کو خلط ملط نہیں ہونے دیا،
بلکہ ایک صاحبِ فکراورصاحبِ بصیرت شخص کی حیثیت سے اپنی سوچ اور اپنا
جداگانہ انداز قائم رکھا۔ ویسے بھی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی فکر
اور فلسفہ تہذیبِ مشرق کا عکاس ہے جو عمومی طور پر مغربی سوچ و فکر سے
جُداہے ۔کیونکہ مشرق مغرب کے درمیان جو فاصلے اور بُعد ہیں، وہ علامہؒ سے
بہتر کوئی نہیں سمجھتا تھا۔وہ فرماتے ہیں :
کھول آنکھ ، زمین دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
علامہ ؒکے فکر ونظر میں بوعلی اور رازی کا انداز اور رومی کا سوز و ساز ان
کے کلام کو الہامی بنادیتا ہے۔علامہ اقبالؒ رومی جیسے مردِ عارف کے مداح
تھے جس کی فکر میں سوز ہے۔ وہ انہیں پیر رومی کہتے تھے اور خود کو مریدِ
ہندی ۔انہوں نے بو علی کو عقل و دانش اور رومیؒ کو عشق و مستی کا استعارہ
قرار دیا۔ رومی سے اس صوفیانہ عقیدت کو علامہؒ نے اپنے کئی اشعار میں بیان
کیا ہے۔:
بُو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
(ترجمہ: بو علی سینا اونٹنی کے غبار میں گم ہو گیا اور رُومی نے اس کے
کجاوہ کا پردہ پکڑ لیا )
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گرد د چو سوز ا ز دل گرفت
(ترجمہ : حق میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ حکمت ہے ، فلسفہ ہے ۔ مگر جب وہ دل
سے سوز حاصل کرتا ہے تو شعر بن جاتا ہے )
رومی ؒکے سوزِ فکر اور ان سے عقیدت کا اظہار علامہؒ نے اس قدر کیا ہے کہ
رومی کی فکر کا چرچا خصوصاََ برصغیر کے اہل علم و ہنرمیں مزیدعام ہو گیا ۔
یوں رومی کی فکر عام کرنے میں علامہؒ نے نمایاں کردار اد اکیا ہے جو بذاتِ
خود فکرو فن کی بہت بڑی خدمت ہے ۔اس کا اعتراف علامہ کے ہم عصر عالم دین
مولانا محمد علی جوہرنے بھی کیا اور فرمایا کہ بھلا ہو اقبالؒ کا جس نے
رومی کی فکر پورے ہندوستان میں عام کر دی ہے ۔
علامہ اقبالؒ کے مطالعہ کی وسعت اور غور وفکر کی عمق دانائی ا ور حکمت کے
ایسے گوہر ِ نایاب ڈھونڈ لاتی ہے جو رہتی دنیا تک اہلِ نظر کی روح ودل کو
گرماتے رہیں گے۔:
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
اقبالؒ نے اپنے شاعری اور فلسفے کے ذریعے مشرق و مغرب کی حکمت و دانائی کو
یکجا کرکے حقیقتِ حیات تک رسائی آسان بنادی ہے جو انسان کو تختِ معراج تک
پہنچا سکتی ہے۔تاہم یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اقبال زندگی کی حقیقت سے
آگا ہ ہونے کے باوجود وجدان پر زیادہ یقین رکھتے ہیں کیونکہ بنیادی طور پر
وہ ایک صوفی ہی تھے۔اقبال غالباً دنیا کے واحد فلسفی ہیں جو شعر کو ذریعہ
اظہار بناکر فن اور فکر کو یکجا کردیتے ہیں۔لیکن انہیں شعر اور فلسفے کے
فرق کا ادراک تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ آپس میں مدغم ہوکر کہیں بھی تضادپیدا
نہیں کرتے۔ اسی طرح آیاتِ قرآنی بھی ان کے اشعار کی زینت بن کر ان کے نظریہ
حیات کو مزید تقویت عطا کرتی ہیں۔کتاب اﷲ کی آیات کو اشعار میں استعمال
کرنا ایک نہایت دقیق کام ہے لیکن یہ کام علامہؒ نے نہایت مہارت اور خوبی سے
کیا ہے۔اقبالؒ کی عقل اور دانائی فکر انسانی تک
محدود نہیں بلکہ اس کے مآخذ قرآن و سنت بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام
اور پیغام واضح ہے اور ابہام سے پاک ہے۔علامہؒ اقبال کے صوفی منش والد نور
محمد کی اپنے ہونہار فرزند کو نصیحت تھی کہ قرآن کی ایسے تلاوت کرو جیسے
تمھارے اُوپر نازل ہو رہا ہے ۔اقبال ؒ نے والد کی یہ نصیحت گرہ سے باندھ لی
اور ساری عمر قرآن کو سینے سے لگا کر رکھا ۔ اس کی تلاوت کی تو ایسے جیسے
دِل میں اُتار رہے ہوں ۔ لہذا فرماتے ہیں:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے ، نہ راضی، نہ صاحبِ کشّاف
(Email: [email protected])
|