|
|
نو سال قبل جب انگلینڈ کے اس جوڑے کے گھر پر ایک پریوں
جیسی بیٹی پیدا ہوئي تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی۔ گلابی رنگوں
والی اس فرشتوں جیسی بچی کے والدین اس خوشی کے پلوں میں اس بات سے نا آشنا
تھے کہ آنے والا وقت ان کی اس پھول جیسی بیٹی کو کتنا تڑپائے گا- |
|
برطانوی فوج سے تعلق رکھنے والے کرس براننیگن اور ان کی
اہلیہ اس بچی کو پا کر بہت خوش تھے اور انہوں نے اس کا نام ہستی تجویز کیا
تھا۔ ہستی بالکل عام بچوں کی طرح تھی۔ سال پر سال گزرتے گۓ اس تمام وقت میں
ہستی بالکل نارمل بچوں کی طرح ہی تھی۔ |
|
بیٹیاں ویسے بھی باپ کے زيادہ قریب ہوتی ہیں کرس کے لیے
بھی ہستی اس کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ ہستی کی عمر جب سات سال کی ہوئی تو اس
کو شدید قسم کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ وہ اچانک اضطراری کیفیت کا شکار ہو
کر بے چین ہو جاتی۔ اس کی اس حالت نے کرس اور ان کی اہلیہ کو سخت پریشان کر
دیا اور انہوں نے ہستی کو جب ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹروں نے مکمل معائنے کے
بعد اس جوڑے پر یہ روح فرسا انکشاف کیا کہ ان کی بیٹی ایک نادر جینیاتی
بیماری کا شکار ہے جس کا نام کورنلیا ڈی لانگ سنڈروم ہے- |
|
|
|
اس بیماری کے سبب بچے کے جسم کے مختلف حصے کی نمو سست ہو
جاتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کی نشونما کے ساتھ ساتھ جسم کی ہڈيوں کی نشو نما
بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ بیماری پیدائشی طور پر ہوتی ہے مگر ہستی میں اس
بیماری کے آثار سات سال کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوئے- |
|
یہ بیماری تیس ہزار میں سے کسی ایک بچے میں ہوتی ہے اور
اس کے حوالے سے بہت کم تحقیقات موجود ہیں اکثر اس مرض میں مبتلا بچے اس
بیماری سے تشخیص سے قبل ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ |
|
ڈاکٹروں نے جب کرس کو ہستی کی بیماری کے بارے میں بتایا تو ساتھ میں ہی
انہوں نے یہ بھی کرس کو بتادیا کہ ناکافی تحقیق کے سبب اس بیماری کا علاج
اب تک دریافت نہیں ہو سکا۔ اور اس کی تحقیق کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے
جس کے بعد ہی ہستی کے علاج کی کوئی صورت نکل سکے گی۔ |
|
بیٹی کی محبت کے ہاتھوں مجبور اس باپ نے ماہرین کو یہ یقین دلایا کہ وہ
تحقیقات کا آغاز کریں تاکہ ہستی اور اس بیماری میں مبتلا اس جیسے دوسرے
بچوں کے علاج کے لیے تحقیق ہو سکے۔ گزشتہ سال انہوں نے اس حوالے سے ہوپ فار
ہستی کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس میں وہ ننگے پاؤں برطانیہ کے مختلف
علاقوں میں پیدل چلے اور انہوں نے ہستی کے علاج کے لیے مختلف لوگوں سے رقم
جمع کی پانچ سو میل پیدل چلنے کی صورت میں انہوں نے جو فنڈ جمع کیا- وہ رقم
انہوں نے امریکی ریاست مین میں جیکسن لیبارٹری کو عطیہ کر دی جہاں اس نادر
بیماری کے اسباب و علاج پر تحقیقات جاری ہے- |
|
|
|
مگر ڈاکٹروں کے مطابق ہستی کے مرض کی شدت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا
رہا ہے اور بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے حالات مزید بھی بگڑ سکتے ہیں جب
کہ تحقیق کے لیے کل 25 لاکھ پاؤنڈ کی ضرورت ہے جب کہ کرس اب تک صرف نو لاکھ
پاونڈ ہی جمع کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے- |
|
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میجر کرس نے ایک بار پھر ننگے پاؤں
ہستی کے لیے پیسے مانگنے کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بار ان کی
منزل 1200 میل کے فاصلے پر فلوریڈا ہے۔ ننگے پاؤں کاندھوں پر 25 کلو وزنی
بیگ ڈالے میجر کرس ایک بار پھر ہوپ فار ہستی کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں- |
|
راستے کی صعوبتوں کا کرس کو ادراک ہے مگر بیٹی کی محبت اور اس کی راحت کے
لیے وہ سب کچھ ہی برداشت کرنے کو تیار ہیں اور اس بات کے خواہشمند اور پر
امید ہیں کہ وہ 25 لاکھ پاؤنڈ کی خطیر رقم جمع کرنے میں کامیاب ہو کر ہستی
اور اس جیسے دوسرے بچوں کی جان بچانے کے لیے کی جانے والی تحقیق کے لیے فنڈ
جمع کر لیں گے- |