حسد

ایمان اور فریال دونوں یونیورسٹی سے گھر واپس جا رہی ہوتی ہیں۔ کہ راستے میں ایمان کو ایک بلی نظر آتی ہے ۔جو کہ بہت زیادہ زخمی ہوتی ہے ۔ایمان اسے سڑک پر اس طرح پڑا ہوا دیکھ کر بہت زیادہ پریشان ہو جاتی ہے اس کا دل اندر سے تڑپنے لگتا ہے ۔آخر کار وہ اپنے دل کی بات کو کہہ دیتی ہے ۔وه فر یال کو کہتی ہے تم یہاں پرركو میں ابھی آتی ہوں ۔یہ کہہ کر ایمان فریال کو سڑک کے کنارے کھڑا کر کے سڑک کراس کرتی ہے ۔اسی دوران وہاں سے ایک امیر زادہ ایک نوجوان گاڑی سے نکلتا ہے ۔ جس کی گاڑی کے آگے ایمان کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور اسے روکنے کا اشارہ کرتی ہے ۔وه نوجوان بہت ہی حسین اور با اخلاق ہوتا ہے ۔وه اپنی گاڑی سے باہر نکلتا ہے ۔اور باہر آکر معلوم کرتا ہے کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایمان اسے کیوں روک رہی تھی ۔ دراصل اس کی گاڑی کے آگے ایک بلی کا بچہ جو کہ بہت زخمی حالت میں تکلیف کی وجہ سے چل نہیں سکتا ہے ۔ ایمان نے اسے بچانے کے لیے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تاکہ وہ بچ جاۓ ۔

اس امیر زادہ کا نام ارمان ہوتا ہے ۔ایمان ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوتی جو کسی امیرزادے یا حسین لڑکے کو دیکھ کر ان کی طرف مائل ہو جائیں ۔ایمان ایک نہایت ہی سلجھی ہوئی سمجھدارخوبصورت لڑکی ہوتی ہے۔ ایمان کا تعلق شریف گھرانے سے ہوتا ہے ۔ایمان بلی کے بچے کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتی ہے ۔اور ارمان اس کی سادگی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔وہ ایک یونیورسٹی سے پڑھنے والی طالب علم ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے لباس سے بالکل ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یونیورسٹی پڑھنے جاتی ہے کیونکہ آج کل لڑکیاں یونیورسٹی میں اسلامی لباس کو پہن کر نہیں جاتی ہیں بلکہ جینس پہن کر باہر نکلتی ہیں ۔لیکن ایمان اپنی قومی لباس کو پہن کر ہی تعلیم حاصل کرنے جاتی اور کبھی اپنی حدود سے باہر نہ نکلتی ۔ایمان بلی کو ليكر جاتی ہے تو فریال اسے بہت سناتی ہے۔ کہ تم یہاں پر جانوروں کا خیال رکھو ۔ آج کل انسان انسان کا نہیں تم عجیب لڑکی ہو ۔پاگل لڑکی ۔یہ سن کر ایمان کہتی ہے سوری یار تمہیں یہاں اتنی دیر کھڑا کیا ہونا پڑا ۔اتنے میں ایمان کا بھائی آفان ایمان کو لینے آجاتا ہے ۔ایمان فریال کو کہتی ہے تم بھی آجاؤ بھیا تمھيں بھی ڈراپ کر دینگے ۔

روزانہ کی طرح آج بھی ایمان نماز ،قرآن پڑھنے کے بعد اپنی والده کے ساتھ کچھ دیر باتیں کرتی ہے ۔پودوں کو پانی دیتی ہے اور یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوجاتی ہے ۔وہاں پہنچ کر اسکا سامنا سجل سے ہوتا ہے ۔ جو کے نہایت ہی مغرور لڑکی ہوتی ہے ۔اسے اپنی خوبصورتی ،اپنی دولت غرض ہر چیز پر بہت گھمنڈ ہوتا ہے ۔آج تو اسے ایمان کو ذلیل کرنے کا موقع مل گیا تها۔ایمان غلطی سے اس سے ٹکرا گئی ۔اور اسکے کے لیے ایمان نے معذرت بھی کرلی تھی ۔ لیکن چونکہ ایمان ایک طرف تو زہین ہوتی ہے اور دوسری طرف اسکا اخلاق بہت اچھا ہوتا ہے ۔اس لیے سب اس کی بہت عزت کرتے ہیں ۔ سجل کہتی ہے تم نے مجھے جان بوجھ کر دھکا دیا تھا ۔لہذا اب سزا بھی میں ہی دونگی ۔تمہیں سب کے سامنے میرے پيروں میں گر کر معافی مانگنی ہوگی ۔اتنے میں پوری یونی اکر وہاں ہجوم بنا لیتی ہے ۔سجل نے ایمان کو ابھی تک سمجھا ہی نہ تھا ۔وہاں موجود ہر شخص یہ جانتا تھا کہ سجل جب کسی کو بے عزت کرنے کا سوچ لے تو کر کے رہتی ہے ۔لیکن دوسری طرف سب یہ سوچ رہے تھے کے ایمان بہت معصوم ہے معافی مانگ لے گی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ایمان دھیمے لہجے میں کہتی ہے ۔میں نے کہا نہ سوری بس بات ختم اور بات رہی کہ میں نے جان بوجھ کر دھکّا دیا تو یہ تمہاری چھوٹی سوچ ہے ۔یہ کہہ کر ایمان وہاں سے چلی جاتی ہے ۔

آج کلاس میں سر حمّاد آتے ہیں ۔جو کے کیمسٹری پڑھاتے ہیں ۔تو ان کی نظر ایمان پر پڑتی ہے جو آج ذرا پریشان ہوتی ہے ۔سر کہتے کیا ہوا ایمان بیٹا آج پریشان ہیں ؟ اتنے میں ایمان کے ساتھ بیٹھی فریال کہتی ہے جی سر اپکی ہی کی بیٹی کی وجہ سے ابھی فریال کچھ اور کہنے ہی لگتی ہے کہ ایمان کہتی ہے۔ نو سر ایسی کوئی بات نہیں ۔سر آئ ایم فائن ۔ اس کے بعد سر اپنا لیکچر شروع کر دیتے ہیں ۔اور فریال کہتی ہے بتانے دیتی نہ انہیں بھی معلوم ہو کہ ان لاڈلی بیٹی سڑیل میرا مطلب سجل نے یونی کو اپنا گھر سمجھ کر رکھا ہے اور ہمیں نوکر ۔ایمان فریال کی بات کو کاٹتے ہوے کہتی پڑھائی پر فوکس کرو لڑکی ۔

دوسرے سمسٹر میں سب سے اچھے مارکس ایمان کے آتے ہیں ۔سب اسے مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں ۔اور سجل وہاں سے اپنا غصہ فریال پر نکالتی ہوئی جاتی ہے۔ کیونکہ آج پھر سجل ایمان سے پیچھے رہ جاتی ہے ۔ اور فریال کو کافی زور سے دھکّا دیتی ہے ۔فریال سجل کو جواب دینا چاہتی ہے۔ لیکن ایمان اسے کہتی ہے چھوڑ دو اپنا موڈ خراب نہ کرو ۔یہ کہہ کر فریال کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے ۔لیکن فریال اور اپنا بدلہ نہ لے ہو ہی نہيں سکتا ۔ ہاتھ تو ایمان نے پکڑ لیا ۔ لیکن زبان تو قابو نہیں کر سکتی ایمان فریال بلند آواز میں کہتی ہے ۔ دوستوں آپ کو پتہ ہے سب نے کہا کیا ؟ فریال کہتی ہے " جو کچھ نہیں کر سکتے وه کیا کرتے ہیں ؟ سب کہتے ہیں "محنت" ۔فریال کہتی بلکل درست جواب فریال کا رخ اب سجل کی طرف تها اور سجل کی جانب دیکھ کر کہا میں تو سمجھی تھی آپ سب کا جواب" حسد "ہوگا ۔ پھر فریال کہتی ہے حضرت ادریس علیہ السلام کا قول ہے " کسی سے حسد نہ کرو بلکہ خود محنت کرکے حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔
"
آج صبح کا بدلہ اب بھی پورا نہ ہوا تھا فریال مزید کہتی ہے ۔ "حسد سانپ کے زہر سے بھی زیاده خطرناک ہے "۔مجھے سانپ سے نہیں حاسد سے ڈر لگتا ہے ۔ابھی بھی اس کا اشارہ سجل کی جانب ہوتا ہے ۔ایمان کے لاکھ روکنے کے باوجود وه نہ رکی ۔اتنے میں سب کہنے لگے صبر کرو ہم ابھی سانپ ليكر آتے ہیں اور سب قھقے مار کر ہنسنے لگتے ہیں۔ یاسر عمار کو کہتا جا ذرا مالی سے کہو اگر کوئی سانپ نظر آے تو بتانا عمار کہتا ہے اچھا فریال حاسد سے کیوں اتنا ڈرتی ہو ۔ فریال کہتی ہے "سانپ اپنے زہر سے نہیں مرتا ۔لیکن حاسد کو حسد ختم کردیتا ہے " ۔یہ بات سن کر دو منٹ کے لیے سب خاموش ہوجاتے ہیں اور اس بات سے سجل بھی کسی سوچ میں گھم ہوجاتی ہے اور اتنے میں ارمان جو کہ سجل کا بھائی ہوتا ہے ۔سجل کو ڈ ھوندتے ہوے وہاں آجاتا ہے اور اس کی نظر ایمان پر پڑتی ہے ۔اور وه دل میں کہتا یار یہ لڑکی میری نیندیں حرام کرکے چلی گئی جب سے دیکھا ہے اسی کو سوچتا ہوں ۔مجھے تو معلوم ہی نہ تها یہ محترمہ بھی یہاں پڑھتی ہیں ۔ ابھی فریال کچھ اور بولنے ہی چاہتی ہے کہ ایمان کہتی ہے آج فریال نے بہت اچھی اچھی باتیں کی۔ لیکن اس کی کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو آپ کی یہ بہن آپ سے معافی مانگتی ہے ۔بس آخر میں اتنا ضرور کہونگی کہ اگر زندگی کو جینا چاہتے ہو اور خوش رہنا چاھتے ہو تو شکر ادا کرو اللّه کا کہ اس نے آپ کو سب کچھ دیا ۔ حسد سے آپ کا اپنا نقصان ہے ۔" حسد کرنے والا شخص اللّه کی تقسیم سے اختلاف کرتا ہے" ۔ جو ہے اس کا شکر ادا کریں ۔کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کھانے، پینے ،رہنے ،کے لئے کچھ نہیں انہیں دیکھ کر کر کچھ سبق سیکھیں ۔ اور زندگی میں تبدیلی لائی کیوں کہ وقت کسی کا نہیں اگر آج آپ کا وقت اچھا ہے توکل برا وقت بھی آسکتا ہے ۔ایمان کی یہ بات سن کر سب سجل اندر سے پوری کی پوری ہل جاتی ہے اور اس کی باتوں کا اثر سے سجل کے اوپر ہونے لگتا ہے۔ یہ باتیں سن کر ارمان جو کہ پہلی ہی نظر میں ایمان کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ وہ اس کی محبت میں اور زیادہ دیوانہ ہوجاتا ہے ۔اتنا کہہ کر کر ایمان کلاس کا رخ کرتی ہے وه ابھی راستے سے گزرنے لگتی ہے کہ یہ آگے کھڑی سجل اس کے آگے آ جاتی ہے اور اپنے ہاتھ اٹھانے لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں ۔ اور شرمندگی بھی ہوتی ہیں۔ جو کہ ایمان سمجھ جاتی ہے ۔کہ سجل کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور اب یہ ا س سے معافی مانگنا چاہتی ہے۔ لہذا وہ بھی ہاتھ جوڑ نے ہی لگتی ہے معافی مانگنے کے لیے کی ایمان اسے گلے لگا لیتی ہے اور اس کہتی ہے ہمارا مقصد تمھيں دکھی کرنا بلکل نہیں تھا ۔ارمان بھی کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے کہ اس کی ضدی بہن جس پر آج تک کسی کی بات کا اثر نہ ہوا تها۔ اس پر ایمان کی باتوں کا اثر ہوگیا اور وہ آج بہت زیادہ خوش تھا اور وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگتا ہے ۔ پھر وہاں آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا ہے ۔کہ کیا ہوا آج میری بہن پریشان لگ رہی ہیں؟ ابھی ارمان نے یہ الفاظ کہے ہوتے ہیں کہ سجل اپنے بھائی سے گلے لگ جاتی ہے اور رونے لگتی اور کہنے لگتی ہے کہ بھیا میں بہت بری ہوں۔ میں بہت نا شکری ہوں ، اللہ تعالی مجھے معاف نہیں کریں گے۔ تو ارمان کہتا ہے گڑیا اللہ سے معافی مانگو اللہ تعالی بڑا غفور و رحیم ہے۔ وہ معاف فرما دے گا۔ اور انس کی یہ باتیں سن کر ایمان ان دونوں کو حیرت سے دیکھتی ہے ۔ اور دل ہی دل میں کہتی ہے کہ بہن بھائیوں میں کتنا فرق ہے ۔ایمان نے پہلی دفعہ ارمان کو قریب سے دیکھا ہوتا ہے ۔ابھی بات ہوئی رہی ہوتی ہیں کہ اچانک ارمان کے موبائل کی بیل بجتی ہے اور وہ کال اٹھانے کے بعد وہ کافی پریشان معلوم ہوتا ہے ۔ایمان کے معلوم کرنے کے بعد وه بتاتا ہے ۔کہ ان کی والدہ کی طبیعت خراب ہے ۔توانہیں ا بھی جانا ہوگا۔ سجل پریشان ہو جاتی ہے تو ایمان کہتی ہے کہ پریشان نہ ہوں اللہ سے مدد طالب کرو ۔ اور اللہ کا شکر ادا کرو جو ہوگا اچھا ہو گا اس کے بعد وه ان کے ساتھ ہسپتال بھی چلی جاتی ہے ۔

ایمان ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان کو تسلیاں دیتی ہے اور وہاں جاکر سجل اور اس کی والدہ کا بہت خیال رکھتی ہے ۔سجل اور ارمان کی والدہ صحتیاب ہوکر گھر آ جاتی ہیں دو دن بعد ایمان ان کی عیادت کے لیے آتی ہے ۔ اس کے بعد ارمان اپنی والده سے ہے کہتا ہے مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔اگر فری ہیں ؟ ادھر ان کی والدہ کہتی ہیں کہ انہیں بھی ایک بات کرنی ہے ۔ارمان کہتا ہے پہلے آپ بتائیں کہ آپ کو کیا بات کرنی ہے ۔

ارمان کی والدہ کہتی ہیں ۔کہ میں نے تمہارے لیے لڑکی پسند کرلی ہے یہ سن کر ارمان تھوڑا پریشان ہو جاتا ہے۔ تو اس کے والدہ کہتی ہیں کہ تمہیں کوئی پسند ہے تو مجھے بتا دو۔وه کہتا ہی نہیں موم آپ کو جو صحیح لگے کر لیں ۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ تمہارے زبان تمہارے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں ۔ کہ کیا بات ہےبیٹا ۔ایمان کے بارے میں کیا خیال ہے میں نے تمہارے لئے ایک لڑکی پسند کی ہو وہی جو تمہارے ساتھ آئے تھی ۔ایمان کا نام سن کر ارمان نے کہا کہ میرے ساتھ کون ؟ایمان ؟ کون ایمان تو ارمان کی والدہ کہتی ہے کہ ایمان جو اس دن ہوسپٹل میں آئے تھی شاید سجل کی دوست تھی وہ لڑکی مجھے بہت پسند آئی بہت زیادہ خوبصورت بھی ہے باشعور بھی ہے ،خیال رکھنے والی ہے بڑوں کی عزت کرنے والی ہے ۔بیٹا تم بتاؤ کیا تمہیں پسند ہے ۔ یہ بات سن کر ارمان تو کا تو جیسے خواب پورا ہوگیا ہو وه خو شی سے جھوم اؤٹھا ۔ اور اس نے اپنی ماں کو گلے لگا لیا ۔ مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں ہے جو آپ کو پسند ہے وہی میری پسند ہے ۔آئی لو یو موم آپ دنیا کی سب سے اچھی ماں ہیں ۔

ایک ہفتے بعد آخری سمسٹر چل رہا ہوتا ہے۔ اور امتحانات کے بعد سجل اور سجل کی امی ایمان کے گھر آتی ہیں ۔ ایمان ان کا استقبال کرتی ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں آئی ہیں ۔ اور ان کے جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وه اپنے بھائی کے لیے ایمان کا رشتہ مانگنے آئے تھے ۔تو وہ بہت خوش ہوتی ہے کیوں کہ کہیں نہ کہیں وہ بھی ارمان کو پہلے سے ہی پسند کرتی تھی ۔ اور آج اسے اس کی محبت مل جاتی ہے اور وہ اللہ تعالی کا بہت زیادہ شکر ادا کرتی ہے کہ اسے آج سب کچھ مل جاتا ہے اور وه کہتی ہے " شکریہ اللّه تو نے سب کچھ دے دیا "
 

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 23 Articles with 25203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.