روبینہ شاہین (لاہور)
بی ایس آنرز کے فارم جمع کروانے کی آج آخری تاریخ تھی۔ بے شمار رش لگا ہوا
تھا۔ دھکم پیل میں عابدہ نے بڑی مشکل سے جگہ بنائی اور کھڑکی کی طرف فارم
بڑھا دیا۔ ایک اور ہاتھ زور لگاتے ہوئے عابدہ کے بازو کو دھکا دینے لگا۔
’’برائے مہربانی! سر پہلے میرا فارم جمع کریں، میں کافی دیر سے انتظار میں
ہوں۔‘‘ ایک شوخ و چنچل آواز عابدہ کے کانوں کے پاس چیختی ہوئی ٹکرانے لگی۔
’’یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ ذرا دیکھ کر، میرا بازو دب رہا ہے۔‘‘ عابدہ نے بھی
تقریباً چیختے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نہایت دبلی پتلی سی لڑکی جینز
کی پینٹ پہنے پنک ٹاپ کے ساتھ گلے میں اسکارف ڈالے بالوں کو بے نیازی سے
ہاتھوں کے ساتھ سیٹ کرتے ہوئے چیخ رہی تھی۔ ’’ایسا کریں آپ ہی میرا فارم
جمع کروا دیں۔‘‘ عابدہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور اس کا فارم پکڑ کر اپنے
فارم کے ساتھ ہی جمع کروانے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ فارغ ہو کر لائن سے باہر
آ گئی اور رسید اس لڑکی کی طرف بڑھا۔ ’’آپ کا بہت شکریہ! آپ نے میرے ساتھ
تعاون کیا۔ میرا نام ستارہ ہے اور آپ کا؟‘‘ وہ بے تکلفی سے بولے جا رہی
تھی۔ ’’جی میرا نام عابدہ ہے اور بی ایس آنرز میں ایڈمیشن لینے آئی ہوں۔‘‘
عابدہ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔‘‘ ستارہ
نے شوخ و چنچل آواز میں جواب دیا۔ دراصل آج مجھے ایک کزن کی منگنی پر جانا
تھا، بازار سے شاپنگ بھی کرنی تھی اور اتنی لمبی لائن یہاں تو میرے دو
گھنٹے اور لگ جاتے۔ آپ نے ہیلپ کی شکریا۔ آپ سے آئندہ بھی ملاقات ہوتی رہے
گی۔ اﷲ حافظ!‘‘
ستارہ انداز دلرباعی کے ساتھ اﷲ حافظ کہہ کر چلی گئی۔ عابدہ کے ذہن میں یہ
ملاقات ایک بہت گہرا اثر ڈال گئی۔ یونیورسٹی کی کلاسز اسٹارٹ ہوئیں۔
اکنامکس کی کلاس میں ستارہ عابدہ کی کلاس فیلو بن گئی۔ کچھ ہی دنوں میں
دوستی پکی ہونے لگی۔ ستارہ ایک امیر گھر کی آزاد خیال لڑکی تھی۔ ماں باپ نے
لاڈ پیار میں بہت آزادی دی ہوئی تھی۔ گاڑی خود چلاتی تھی۔ مرضی کے کپڑے
پہنتی تھی۔ مرضی سے آتی جاتی تھی اور اس بات پر بھی پُر اعتماد تھی کہ
والدین ستارہ پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ خود کو بہت پُر اعتماد اور ہوشیار
سمجھنے والی ستارہ ہواؤں میں اڑتی رہتی تھی۔ اس کے خواب آزاد زندگی، ماڈلنگ
کرنا، ساری دنیا کی سیر کرنا، اس کو زندگی میں کسی کی روک ٹوک نہیں چاہیے
تھی۔
جبکہ عابدہ ایک معزز اور مڈل کلاس گھر سے تعلق رکھتی تھی۔ ماں باپ سادہ اور
عزت دار لوگ تھے۔ عابدہ کی اعلیٰ نمبرنگ کی وجہ سے انہوں نے عابدہ کو
یونیورسٹی جانے کی اجازت دی تھی اور بہت سے وعدوں کے ساتھ کہ وہ وہاں پر
کوئی ایسا ویسا دوست نہیں بنائے گی جس سے اس کی والدین اور بہن بھائیوں پر
اثرات مرتب ہوں۔ عابدہ عبایا پہتی تھی اور ایک نہایت ذہین اور لائق طلبہ
تھی۔ ایف ایس سی میں ہائی فرسٹ کلاس نمبروں میں ٹاپ کیا تھا۔ مختلف مزاج
اور مختلف کلاس کے باوجود عابدہ اور ستارہ میں اچھی دوستی قائم ہونے لگی۔
ستارہ عابدہ سے نوٹس میں مدد لیتی اور عابدہ ستارہ کی شخصیت اور باتوں سے
محظوظ ہوتی رہتی۔ ستارہ ایک بے باک لڑکی تھی۔ ’’دیکھو ستارہ‘ کوشش کیا کرو
کہ ایرے غیرے لوگوں سے دوستی نہ کیا کرو۔ پتہ ہے کہ یونیورسٹی میں چرچے
ہونے لگ جاتے ہیں۔
عابدہ نے ستارہ کی بڑھتی ہوئی بے باکیاں دیکھتے اور سنتے ہوئے اسے سمجھانے
کی کوشش کی۔ ’’اوہ عابدہ جی! یہ بیک ورڈ باتیں چھوڑ دو۔ آج کی دنیا 60، 70
کی دنیا میں ہے اور اس دور کی سننے کی کوشش بھی فضول ہے۔ آج کی دنیا فاسٹ
ہے۔ میری پیاری دوست! پر لگاؤ اور اڑتے جاؤ میڈیا کا دور ہے۔ راتوں رات
ترقیاں۔‘‘ ستارہ نے خوابوں کے پر لگا کر جست مارنے کے انداز میں عابدہ کو
بتانے لگی۔ میرے خواب بہت بلند ہیں۔ اڑتے جاؤ۔ اڑتے جاؤ۔ ابھی مجھے بہت آگے
جانا ہے۔ بہت آگے میڈیا میں نام پیدا کرنا ہے۔ ماڈلنگ کرنی ہے۔ یہ چادر اور
چار دیواری میرے بس کی باتیں نہیں ہیں۔ ستارہ دور ہواؤں میں کہیں گھور رہی
تھی، مسکرا رہی تھی۔ جیسے ہواؤں اور فضاؤں میں اسے اپنا روشن مستقبل دکھائی
دے رہا تھا۔ ستارہ کبھی انکل اور آنٹی کے متعلق بھی سوچا ہے۔ ان پر کیا
گزرے گی۔ عابدہ نے دوبارہ بڑی بہن کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
’’عابدہ‘ یہ آزادی اماں اور بابا دونوں کی طرف سے دی گئی ہے۔ آگے میری
زندگی ہے جیسے چاہوں گزاروں۔ وہ لوگ تو اپنے دور کے مزے لے چکے ہیں۔ ویسے
تم ان کی فکر نہ کرو۔ انہیں میں خود ہی دیکھ لوں گی۔‘‘ ستارہ نے عابدہ کو
مطمئن کرنے کے انداز میں سمجھایا۔ ستارہ کا چکر یونیورسٹی کے ایک امیر لیکن
آوارہ لڑکے سے چل رہا تھا۔ عابدہ کو فکر تھی کہ کہیں وہ کوئی غلط ہاتھوں
میں نہ پھنس جائے لیکن اس وقت ستارہ کچھ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ آزادی
کا بخار اس کے ہر روئیں میں دوڑ رہا تھا۔ شاید یونیورسٹی کو لیا ہی ان
نظروں سے جاتا ہے۔ خیر ایک سال گزر گیا۔ ستارہ کا زوہیب سے بریک اپ ہو گیا۔
شاید وجہ کوئی سنگین ہو گئی ہو۔ ستارہ بہت ڈسٹرب ہوئی۔ ایک ہفتہ چھٹی پر
رہی۔ اس کے بعد دوبارہ یونیورسٹی جوائن کر لی۔ ’’کیا بات ہے، آج بڑی خوش
نظر آ رہی ہو۔‘‘ عابدہ نے ایک مدت بعد ستارہ کو مسکراتے ہوتے دیکھا تو
حیرانی سے پوچھا۔ ’’اوہ! کچھ نہیں ایسے ہی۔ بس سوچ لیا ہے۔ زندگی میں کبھی
کسی کے متعلق نہیں سوچنا بس اڑتے جانا ہے۔‘‘
آج پھر وہی رنگینی ستارہ کے چہرے پر عیاں تھی۔ عابدہ سمجھ گئی کہ ستارہ کی
چال پھر الٹی ہو گئی ہے۔ وہ پھر کسی چکر میں ہے۔ وقت پر لگا کر اڑتا گیا۔
یونیورسٹی کے چار سال چار کیلنڈروں پر بھی گزر گئے۔ ’’عابدہ ایک بات تو
بتاؤ۔ ستارہ نے کتابوں جہکی ہوئی عابدہ کو بڑے غور سے دیکھا اور مخاطب کرتے
ہوئے کہا: ’’ہاں ہاں پوچھو‘ کیا پوچھنا چاہتی ہو۔ عابدہ نے نظریں اٹھا کر
سارہ کو مخاطب کیا۔ اتنی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کرو گی۔ ’’آگے
زندگی کا کیا پلان ہے۔‘‘ ستارہ نے سوالیہ نظروں سے عابدہ کو دیکھا۔ ’’کچھ
نہیں۔ ’’ستارہ میں نے کیا کرنا ہے۔ وہی جو امی ابا کہیں گے۔ شاید کہ میری
شادی کا پلان کر رہے ہیں۔ پھر گھر بسائیں گے اور پھر آگے جو اﷲ کو منظور۔‘‘
عابدہ نے ایک تابع دار بچی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا: ’’یہ کیا بات ہوئی۔
بھلا کوئی جاب، کوئی مرضی کی شادی، کوئی باہر کا پلان۔‘‘
ستارہ کے اپنے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں ستارہ نہ میں ایسی
کلاس سے تعلق رکھتی ہوں اور نہ ہی میرے خیالات ایسے ہیں اور ویسے بھی میرے
والدین کو مجھ پر بہت بھروسہ ہے اور میں ان کے بھروسے کو قائم رکھنا چاہتی
ہوں۔ یہ تمہاری زندگی ہے تم انجوائے کرو۔‘‘ عابدہ نے مسکراتے ہوئے ستارہ کو
جواب دیا۔ ’’اونہہ بیک ورڈ لڑکی زندگی تو ہوتی ہی انجوائے کے لیے ہے۔
یونیورسٹی کے بعد عابدہ بیگم کو پتہ چلے گا کہ ستارہ کا ستارہ کہاں کہاں
چمکا۔ مسکراتے ہوئے ستارہ نے اسکارف ٹھیک کیا اور گیٹ کی طرف چلی گئی۔
یونیورسٹی چھوڑنے کے ایک سال بعد عابدہ کی شادی خالہ زاد شہریار سے ہو گئی
جو ایک بہت اچھے ڈاکٹر بھی تھے۔ عابدہ اسلام آباد چلی گئی۔ ستارہ ایک آزاد
زندگی گزارنے لگی۔ مختلف تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے وہ ایک اعلیٰ درجے کی
مادل بن گئی۔ ایک مہنگی ماڈل ستارہ واقعی ایک ستارہ بن کر چمکنے لگی۔ کبھی
کبھی عابدہ سے فون پر رابطہ ہو جاتا۔ کبھی میسجز پر بات ہو جاتی۔ ستارہ کے
والدین بہت آزاد خیال تو نہیں تھے لیکن ستارہ کو ان کے خیالات کی پروا بھی
کہاں تھی۔ ستارہ کے والد ہاشم صاحب نے بیٹی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی،
لیکن شاید وہ سمجھانے کی اس حد سے باہر نکل چکی تھی۔ وہ اب کسی کی بات سننے
کی روا دار بھی نہیں تھی۔ آزادی کا مطلب شاید بچے اسی طرح استعمال کرتے
ہیں۔ ہر سوچ کی آزادی، ہر فعل کی آزادی، ہر کام کی آزادی، ہر وقت کی آزادی
کہ زندگی بے راہ روی پر نکل جاتی ہے اور واپسی کے تمام دروازے بند کر دیتی
ہے۔
دو سال اسی طرح گزر گئے۔ ستارہ اپنے راستوں کی عادی ہو گئی اور گزرے راستوں
کو بھول گئی۔ ایک دن میڈیا پر خبر چلی کہ ستارہ کا قتل ہو گیا ہے۔ وہ دن سب
کے لیے قیامت کا دن تھا۔ عابدہ نے فوراً لاہور کی طرف رخت سفر باندھا جو
بھی تھا وہ اس کی 4 سال بہت اچھی دوست رہ چکی تھی۔ جیسے ہی وہ ستارہ کے گھر
پہنچی ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ جوان بیٹی کی لاش دیکھ کر ہاشم صاحب کو ہارٹ
اٹیک آ گیا۔ والدہ پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ ستارہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔
لاڈ پیار نے شاید آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی جو اولاد کی بے راہ روی بھی
نظر نہیں آئی۔ آزادی کے نام پر جو سلسلہ چلا، وہ ایک خاندان کی تباہی کی
شکل میں سامنے آیا۔ عابدہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس کی آنکھوں کے
سامنے وہ ہنستی مسکراتی ستارہ گھومے جا رہی تھی۔ کاش وہ اس کو سمجھا سکتی
کہ ستارہ یہ آزادی کا نہیں بلکہ بربادی کا راستہ ہے۔ اس میں تباہی کے علاوہ
کچھ بھی نہیں لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے جو ہونا ہوتا ہے، وہ ہو
کے رہتا ہے۔
|