دنیا پرست لوگ خیر وشر کی تفریق کےقائل نہیں ہوتے ۔ ان کے
نزدیک عارضی فائدہ دلانے والی ہر شئے حق اور مادی نقصان کی حامل ساری چیزیں
باطل ہوتی ہیں۔ مابعد جدیدیت کےنام سے منسوب مغربی نظریۂ حیات تمام دائمی
و آفاقی اقدار کا انکار کرکے’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘ کے
طرز فکر کی وکالت کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے اخلاقی سطح پر انسان خود غرض ،
معاشی زندگی میں موقع پرست اور سیاسی میدان میں ابن الوقت ہوجاتا ہے ۔ چہار
دانگِ عالم میں اس کے مظاہر نمایاں ہیں ۔ قرآنی ہدایت اس طرز فکر کی تردید
کرتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی
چاہیے‘‘۔ اس آیت میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ خیر و شر یکساں نہیں
ہے۔ ان متضاد اوصاف کا فرق اگر آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو انسان خیر کے
بجائے اسی شدو مد سے شر کاطلبگار ہو جاتا ہے ۔ فی زمانہ اس کے نظارے عام
ہیں ۔ مذکورہ آیت کے دوسرے حصے میں اس طرز حیات کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ
:’’ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے‘‘۔ جلدازجلد اوربیش از بیش فائدہ
اٹھا لینے کی خواہش بنی نوع انسان کو احسنِ تقویم کے مقامِ بلند سے گرا کر
اسفل السافلین کی کھائی میں پہنچا دیتی ہے۔ اس سے بچنے کی واحد سبیل دنیا
پرستی کے مقابلے خدا کی بندگی ہے۔
اس حقیقت کی وضاحت میں قرآن حکیم گردشِ لیل و نہار جیسے عام مشاہدہ کی
مثال پیش کرتا ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے: ’’دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو
نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو
روشن کر دیا ‘‘۔ یعنی ان میں سے ایک نورانی اور دوسرا بے نور ہے اس لیے
دونوں کو یکساں کہنا سراسر نادانی ہے۔ ان میں فرق اس لیے ر کھا گیا :’’تاکہ
تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو ‘‘۔
یہاں پر بتائے جانے والےدو فوائد میں سے ایک دن کے وقت روزی روٹی کی تلاش
اور دوسرا ماہ و سال کا حساب کتاب ہے۔ ان کی اپنی انفرادیت کی بابت
فرمایا:’’اِسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کر کے رکھا ہے‘‘۔ قرآن
حکیم میں دیگر مقامات پر گردش ِ لیل و نہارکے مزید فوائد بتائے گئے مثلاً :
’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت،
اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا‘‘۔ یہاں پر رات کو لباس کی بلیغ تشبیہ دی
گئی جو تحفظ اور خوشنمائی کے ساتھ پردہ داری کی تمثیل ہے۔ رات کی نیند کو
ایسا سکون بتایا گیا کہ اس کے بغیرپرسکون حیات بخش دن کا تصور محال ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ : ’’اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا اور
رات کو پردہ پوش اور دن کو معاش کا وقت بنایا ‘‘۔ انسانوں کا معاملہ یہ ہے
کہ یہ ان سے استفادہ کرنے کے بجائے شگون نکالنے کے گورکھ دھندے میںالجھ
جاتا ہے ۔ قرآن عظیم گردشِ افلاک کو اپنے اعمال کے لیے موردِ الزام
ٹھہرانے کے گمراہ کن نظریہ کی تردید میں فرماتا ہے:’’ ہر انسان کا شگون (نامۂ
اعمال) ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے، اور قیامت کے روز ہم ایک
نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا (اس کو حکم
دیا جائے گا) پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی
کافی ہے۔ قیامت کی اس ہولناک منظر کشی کے بعد انسانوں کے ان کے آخری انجام
سے اس طرح آگاہ کیا گیا ہے کہ:’’جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست
روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل
اُسی پر ہے‘‘۔ یعنی گمرہی اور راست روی یکساں نہیں ہیں ۔ انسان اپنے عقیدہ
و عمل اور اللہ کے فضل و کرم کی بنیاد پر ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکےگا۔
وہاں :’’کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا‘‘۔ اس طرح ان
تمام باطل عقائد کی بیخ کنی کردی گئی کہ جن کے سہارے گناہوں میں لت پت
انسان بلا توبہ و استغفار فلاح و نجات کی جھوٹی امید لگائے رہتا ہے۔ اس
موقع رب کائنات رحم و کرم کی اپنی عظیم سنت اس طرح بیان کرتا ہے کہ :’’اور
ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (حق و باطل کا فرق سمجھانے والا) ایک
پیغام بر نہ بھیج دیں‘‘۔ یعنی عذابِ الٰہی سے قبل ہر فردِ بشرکو خیر و شر
کے فرق سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔
|