علمُ الکتاب اور تَختہِ تختِ قومِ سبا !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنمل ، اٰیت 38 تا 44 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قال
یٰایھالملؤا
ایکم یاتینی
بعرشہا قبل ان
یاتونی مسلمین 38
قال عفریت من الجن انا
اٰتیک بهٖ قبل ان تقوم من مقا
مک وانی علیه لقوی امین 39 قال
الذی عنده علم من الکتٰب انااٰتیک بهٖ
قبل ان یرتد الیک طرفک فلماراٰه مستقرا
قال ھٰذ من فضل ربی لیبلونی ءاشکر ام اکفر
ومن شکر فانما یشکر لنفسهٖ ومن کفر فان کفر فان ربی
غنی کریم 40 قال نکروالھا عرشھا ننظر اتھتدی ام تکون
من الذین لایھتدون 41 فلماجاءت قیل اھٰکذا عرشک قالت کانهٗ
ھو واوتیناالعلم من قبلھا وکنا مسلمین 42 وصدھا ماکانت تعبد من
دون اللہ انھا کانت من قوم کٰفرین 43 قیل لھا ادخلی الصرح فلماراته
حسبته لُجة وکشفت عن ساقیھا قال انه صرح ممرد من قواریر قالت رب
انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمٰن للہ رب العٰلمین 44
سلیمان نے اپنے فوجی افسروں سے پُوچھا کہ کیا اِس وقت تُم میں کوئی ایسا ہنر مند جوان موجُود ھے کہ جو قومِ سبا کی فوجی پسپائی سے پہلے ہی قومِ سبا کی فیصلہ ساز قوت Cabinet کو اُٹھا کر یہاں لے آۓ تو قومِ سبا ہی کے خفیہ مشن پر آۓ ہوۓ ایک بھاری بھرکم جوان نے کہا آپ حُکم کریں تو میں اِس محاذ پر آپ کے مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہی یہ کام کر سکتا ہوں کیونکہ میں ایک حوصلہ مند اور دیانت دار جوان ہوں لیکن اِس کی بات سُنتے ہی کتابِ وحی کے عالِم نےکہا کہ میں محاذِ جنگ سے فتح کی خبر آتے ہی اُن بڑے لوگوں کو بھی آپ لوگوں کے سامنے لاکر کھڑا کر دوں گا جن کا ہمیں یہاں لانا مطلوب ھے اور کتابِ وحی کے اُس عالِم کے یہ کہتے ہی قومِ سبا کے سارے قیدی سب کے سامنے کھڑے تھے اور اُن کو دیکھتے ہی سلیمان نے کہا یہ رَب کی طرف سے میری آزمائش کا ایک انداز ھے کہ میں اُس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں کرتا اور جو انسان اللہ کا شکر اَدا کرتا ھے اُس میں اُسی کا فائدہ ھے اور جو انسان اللہ کی ناشکری کرتا ھے اُس کا بھی خود اُسی کا نقصان ھے لیکن اللہ تعالٰی کی عالی ذات انسان کے شکر و عدمِ شکر سے ایک بلند تر ذات ھے ، سلیمان نے اپنی اِس گفت گو کے بعد اپنی علمی مجلسِ کے اہلِ علم کو حُکم دیا کہ وہ قومِ سبا کے لیۓ ایک عادلانہ نظامِ حکومت تیار کریں تاکہ قومِ سبا کی حُکمران عورت کو یہ تو معلوم ہو کہ اُس کے ساتھ اُس کے اَرکانِ حکومت بھی سیدھی راہ پر آۓ ہیں یا ابھی بھی وہ اپنے مُشرکانہ نظام کے ساتھ چمٹے ہوۓ ہیں اور جب اُس کے نظام کا ایک علمی ڈھانچا بن گیا تو سلیمان نے قوم سبا کی اُس حُکمران خاتون سے پُوچھا کہ ھماری حکومت کا جو ناک نقشہ تُم نے یہاں پر دیکھا ھے کیا تُمہاری حکومت کے نیۓ نظام کا نک نسک بھی وہی نہیں ھے ، اُس نے کہا کہ یہ نیا نظام ہُوبہُو آپ کے نظام جیسا تو نہیں ھے لیکن اُس سے ملتا جلتا نظام ضرور ھے اور ہمیں تو اِس انقلاب کا یہاں آنے سے پہلے ہی اندازہ ہو چکا تھا کیونکہ ھم یہاں آنے سے پہلے ہی حق کی حقیقت کو جان بھی چکے تھے اور یہاں آنے سے پہلے ہی حق کی اُس حقیقت کو تسلیم بھی کر چکے تھے ، سلیمان نے اُس کی یہ بات سن کر کہا کہ اَب تُم شیشے کی طرح شفاف نظر آنے والے اِس دین میں باقاعدہ داخل ہو جاؤ اور جب اُس خاتون نے اپنے دل میں اپنے آفتابی دین اور سلیمان کے کتابی دین کا موازنہ کیا تو اُس پر دونوں کی حقیقت واضح ہوگئی ، سلیمان نے کہا اَب تو تُم نے بچشمِ خود دیکھ لیا ھے کہ دینِ حق کی یہ عمارت نُور کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ایک ایسی شفاف عمارت ھے جس میں ہر شئی شفاف نظر آتی ھے اور سلیمان کی یہ بات سن کر اُس نے کہا کہ میری ذات اور زندگی نے مُجھ پر یہی ظلم کیا ھے کہ میں ایک مُدت تک مرضِ شرک میں مُبتلا رہی ہوں لیکن بحمد اللہ کہ اَب میں سلیمان کے ساتھ ہوں اور اپنے اُس رَب پر ایمان لاتی ہوں جو تمام جانوں اور تمام جہانوں کا پالنہار ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
شاہانِ سلیمان و سبا کا یہ مضمون جو اِس سُورت کی اٰیت 15 سے شروع ہوا ھے وہ اِس سُورت کی اٰیت 44 پر ختم ہو گیا ھے اور عُلماۓ روایت نے چونکہ اِس مضمون کو اپنی واہیات روایات سے ایک ناقابلِ فہم چیستاں بنایا ہوا ھے اِس لیۓ اِس مضمون کی علمی و عقلی تعلیم و تفہیم کے لیۓ اِس مضمون کی مُتعلقہ اٰیات کے جن چند کلیدی مقامات کو پیش نظر رکھنا ضروری ھے اُن مقامات میں سے پہلا مقام اٰیت 16 کا وہ مقام ھے جس میں اللہ تعالٰی نے { واوتینا من کل شئی } کے الفاظ کے ذریعے سلیمان علیہ السلام کو تمام وسائلِ حیات اور تمام وسائلِ حکومت دینے کی خبر دی ھے اور دُوسرا مقام اٰیات 23 کا وہ مقام ھے جس میں اللہ تعالٰی نے { و اوتیت من کل شئی } کے اِنہی الفاظ کے ذریعے قومِ سبا کے پاس بھی تمام وسائلِ حیات اور تمام وسائلِ حکومت موجُود ہونے کی اطلاع فراہم کی ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس زیرِ استعمال وسائل اگرچہ زیادہ تھے لیکن قومِ سبا کے پاس بھی پیداواری وسائل کی کمی نہیں تھی اور اِن مُہیا وسائل کے لحاظ سے اگر یہ دونوں مُلک برابر کی قوت نہیں تھے تو پہلی اور دُوسری قوت بہر حال ضرور تھے ، اِن اٰیات کا تیسرا کلیدی مقام جو اِن اٰیات کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ پیشِ نظر رکھنا ضروری ھے وہ اٰیات 28 ، 29 اور 30 کا وہ مقام ھے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ بتایا ھے کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس اللہ تعالٰی کی ایک کتابِ وحی و ھدایت تھی جو سلیمان علیہ السلام نے ھُد ھُد کے ذریعے قومِ سبا کو بھی بھیج دی تھی اور قومِ سبا نے وہ کتابِ وحی وصول اور قبول بھی کر لی تھی جس کا مطلب یہ ھے کہ سلیمان علیہ السلام کی قومِ سبا کے مقابلے میں حقیقی برتری اُن کے وسائلِ حیات اور وسائلِ حکومت کا موجُود ہونا نہیں تھا بلکہ اُس کتابِ وحی و ھدایت کا ہونا تھا اور اَب وہ کتابِ وحی و ھدایت اُنہوں نے قوم سبا کو بھی دے دی تھی تاکہ وہ قوم بھی اِس کتاب کے اَحکام کو تسلیم کرکے دینی و رُوحانی اعتبار سے اُن کی ہم پلہ قوم ہوجاۓ اور دونوں کی دینی و رُوحانی طاقت کا عدمِ توازن بھی توازن میں بدل جاۓ ، اِس سُورت کی اِن اٰیات کی تعلیم و تفہیم کا چوتھا کلیدی مقام اِس سُورت کی اٰیت 35 ، 36 ، 37 اور اٰیت 38 کا وہ مقام ھے جس میں یہ بتایا گیا ھے کہ سلیمان کی کتابِ وحی وصول کرنے کے بعد قومِ سبا کا ایک سفارتی وفد سلیمان علیہ السلام کے پاس آیا تھا لیکن وہ وفد کتابِ ھدایت کی ھدایت قبول کرنے کی خبر لانے کے بجاۓ اُن کے لیۓ رائج شاہی رُسوم و قیود کے مطابق بہت سے قیمتی تحائف لے کر آیا تھا جن تحائف کو سلیمان علیہ السلام نے اُس قوم پر عسکری حملہ کر کے اُس کو اُس ملک سے بے دخل کرنے کے اعلانِ جنگ کے پیغام کے ساتھ واپس کر دیا تھا اور سلیمان علیہ السلام نے جس جنگ کا اعلان کیا تھا اُس اعلان پر عمل در آمد بھی کر لیا تھا جس کے بعد اُن کا اعلانِ جنگ اُن کے عملِ جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا اور اٰیات بالا کی تعلیم و تفہیم کا پانچواں کلیدی مقام اِس سُورت کی اٰیت 38 سے اٰیت 44 کے درمیان بیان کیۓ ہوۓ اُس محاذِ جنگ تک پھیلا ہوا ھے جو محاذِ جنگ تھا سیلمان علیہ السلام کے مُلک سے ڈیڑھ ہزار میل دُور دراز کے فاصلے پر نہیں تھا بلکہ فتح کی آنے والی ایک آواز کے فاصلے پر ہی موجُود تھا ، اُس دن اور اُس وقت اُس محاذِ جنگ کے ایک طرف سلیمان علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ موجُود تھے تو دُوسری طرف قومِ سبا کی وہ حُکمران خاتون بھی اپنے لشکریوں کے ساتھ موجُود تھی جو بظاہر تو اپنے جنگ جُو لشکریوں کو ہلا شیری دے رہی تھی لیکن اُس کے مَن کی دُنیا میں توحید و شرک کا ایک اور ہی معرکہ برپا تھا اور یہ بات تو بالکُل سامنے کی بات ھے کہ جب جنگ لڑانے والا اندر سے ٹُوٹ جاتا ھے تو جنگ لڑنے والے بھی اندر سے ٹُوٹ پُھوٹ جاتے ہیں اور ماہرین کے اِس معروف خیال کے عین مطابق قومِ سبا کی پسپائی کی خبریں بھی آنے لگی تھیں اور یہی وہ وقت تھا جب سلیمان علیہ السلام کو دن کے خاتمے سے پہلے جنگ کے خاتمے کا وہ خیال آیا تھا جس کے خیال کے تحت اُنہوں نے یہ فرمایا تھا کہ کیوں نے جنگ کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قومِ سبا کی لیڈر شپ کو اُن کے خیموں سے اُٹھا لیا جاۓ اور اُس لیڈر شپ کو یہاں لا کر اُن کے لشکر کے سامنے قیدی کے طور پر کھڑا کردیا جاۓ تا کہ دن ڈھلنے سے پہلے پہلے ہی یہ جنگ اپنے اَنجام کو پُہنچ جاۓ ، اتفاق سے اُس وقت قومِ سبا کا ہی ایک بھاری بھرم وجُود والا ایک فرد جو وہاں موجُود تھا اور جو جانتا تھا کہ اِس وقت کون کون کس کس مقام پر موجُود ھے اِس لیۓ اُس نے یہ دعوٰی کیا کہ میں اِس جگہ سے آپ کی متوقع پیش قدمی سے پہلے ہی یہ کام اَنجام دے سکتا ہوں اور چونکہ میں حوصلہ مند اور دیانت دار انسان ہوں اِس لیۓ میں آپ کے ساتھ کوئی غداری نہ کرنے کا بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں لیکن جس وقت وہ شخص یہ بات کر رہا تھا تو ٹھیک اُسی وقت سلیمان علیہ السلام کی نگاہ اپنے اُس خاص اہل کار پر پڑی جو اپنے چند ہمراہیوں کے ہمراہ قومِ سبا کی حکمران عورت کو بھی لیۓ ہوۓ آرہا تھا تب سلیمان علیہ السلام نے ایک بے تابانہ خود کلامی کے انداز میں کہا کہ میں تُمہاری پلک جھپکنے سے بھی پہلے اُس قوم کی لیڈر کو تُمہارے سامنے لا سکتا ہوں اور پھر ہر شخص پلک جھپکے بغیر ہی اِس منظر کو دیکھنے میں محو ہو گیا ، اِس واقعے کے کُچھ عرصے بعد ہی قومِ سبا کی مُسلم حکومت کے لیۓ وہ انتظامی نظام وضع ہو گیا جس انتظامی نظام کو اُس خاتون نے پسند کیا اور اپنے ایمان لانے کا وہ اعلان بھی کیا جس کا اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ذکر ہوا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِس واقعے کو جس طرح پیش کیا ھے اگر یہ واقعہ اُسی طرح سے پیش آیا ہوتا تو یہ قومِ سبا کا تخت لانے کا معاملہ نہ ہوتا بلکہ قومِ سبا کی ایک مغویہ کے اَغوا کا معاملہ ہوتا ھے اور اِس تفصیل سے یہ بات بھی صاف ہوگئی ھے کہ تخت سے مُراد حکومت کی تبدیلی ھے لکڑی کا کوئی تخت اُٹھا کر اِدھر سے اُدھر کرنا نہیں ھے اور اِن اٰیات کے سیاق و سباق سے یہ بھی ظاہر ھے کہ ساق سے مُراد اُس خاتون پر حق کا منکشف ہونا ھے اُس کی پنڈلیوں کا ننگا ہونا نہیں ھے اور شفاف شیشے سے بھی دین کی شفافیت سے زیادہ کوئی چیز مُراد نہیں ھے اور اِس بات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالٰی کا ایک نبی اُس خاتون کے لیۓ ایک ٹریپ لگاتا جس سے اُس کی ٹانگیں برہنہ ہو جاتیں اور پھر اللہ تعالٰی کا وہ نبی اُس عورت کی اُن برہنہ ٹانگوں کا تماشا بھی دیکھتا ، اقبال علیہ الحمتہ نے بالکُل سَچ کہا ھے کہ ؏

مکتب و مُلا و اَسرارِ کتاب

کورِ مادر زاد و نُورِ آفتاب
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558173 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More