چشمہ بیراج اور قیمتی پیالہ

ہماری بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربانیاں دینے والے ہمیشہ مسائل ،مشکلات اور تکالیف سے دوچار رہے جبکہ مفاد پرست ،خوش آمدی اور دلال قسم کے لوگ ہمیشہ آگے آگے رہے پاکستان بنا تو اپنا مال لٹا کر بچوں کو قربان کرکے پاکستان پہنچنے والے کیمپوں میں ذلیل و رسوا ہوتے رہے جبکہ لوٹ مار کرنے والے فراڈیوں نے بڑی بڑی حویلیاں اور مکان سنبھال لیے اسی طرح اسی طرح انگریزوں کے پٹھو ٹیڑھے منہ کرکرکے ہم پر حکمرانی کرنے لگے جو چپڑاسی بھرتی ہونے کے لائق نہیں تھے انہیں سابق حکمرانوں نے پکڑ پکڑ کراعلی عہدے بانٹ دیے جنکی وجہ سے آج ہر محکمہ کارکردگی کے لحاظ سے صفر ہے کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم نے انتظام کرلیا ہے خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے سیلاب اور پانی کا ذکر ہوا ہے توچشمہ بیراج کے ارد گرد رہنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی ان لوگوں نے بھی پاکستان کے لیے بہت بڑی قربانی دی مگر سابق حکمرانوں نے جہاں اداروں کو تباہ کیا وہیں پر انہوں نے اس علاقے کے لوگوں کو بھی برباد کیا چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت انکی قربانیوں کو سر آنکھوں پر سجاتی انہیں انکی زمینوں کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اتنی ہی زمین کسی اور علاقے میں الاٹ کردی جاتی اور چشمہ بیراج پر ان افراد کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے مگر ان حکمرانوں کو لوٹ مار کے سوا اور کوئی کام آتا ہی نہیں تھااسی علاقہ کے رہائشی میجر(ر) رئیس کی داستان بھی عجب داستان ہے جو اپنے علاقہ کے لوگوں کے دکھ اور درد لیے ہر جگہ پہنچے مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو اب انہیں عمران خان اور بزدار سرکار سے امید ہے کہ وہ انکے دیرنیہ مسائل ضرور حل کرینگے کچھ باتیں مجیر صاحب کی زبانی سن لیں جن کا کہنا ہے کہ بڑے دل گردہ والے تلوکر بار بار حکومت پاکستان کو اپنی خاندانی جدی پشتی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ دینے کے باوجود تمام تر بنیادی سہولیات سے آج تک محروم ہیں چہ جائیکہ ان کی زمینوں پر بننے والے میگا پراجیکٹس اربوں کی سالانہ آمدن حکومت کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو چشمہ بیراج کے ہیڈ سے کم از کم چار کلو میٹر نکاسی والی سائیڈ کو محفوظ بنانا واپڈا۔صوبائی و قومی حکومت کی قانونی و اخلاقی ذمہ داری ہے مگر کیا کریں ہم سیاسی یتیم جو ٹھہرے۔چشمہ بیراج سے جنوب میں دریا کے دونوں اطراف پچھلے بیس تیس سالوں سے مسلسل دریا کا کٹاؤ جاری ہے جس کی وجہ سے دریا سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد تلوکر برادری کے متعدد دیہات و ڈیرہ جات بمعہ زمینوں کے دریا بردہو گی تھے جو بکھڑا کچہ کالو کے جنوب میں واقع تھے۔ان متاثرہ علاقوں کے لوگ خانقاہ سراجیہ،نیو ڈنگ شریف،زمان خیلانوالا،لال خیلانوالا،شہباز خیلانوالہ تھل میں نقل مکانی کرگئے تھے اورکچھ لوگ چشمہ بیراج کے مغربی کنارے موضع بکھڑا کی کچہ پار کی زمینوں پر آباد ہوگئے جوخطہ اطلس،شہباز خیلانوالہ کچہ،جلال خیلانوالہ کچہ،فوجے خیلانوالہ کچہ،دھنڑائی خیلانوالہ کچہ اوربلوچی خیلانوالہ کچہ کے ناموں سے دیہات و ڈیرہ جات کے آباد کار بنے۔اب کی بار دریا سندھ کا شکار یہ لوگ بنے ان میں خاص کر تلوکر برادری کے شہباز خیل و دھنڑائی خیل زیادہ متاثرہوئے تھے ویسے تو دریا سندھ کے کٹاؤ کا شکار موضع شاہنواز والا و دریا کی دونوں طرف کلور کوٹ ڈی آئی خان زیر تعمیر پل تک کے علاقے دریا کے کٹاؤ کا شکار ہیں مگر چشمہ بیراج سے چار پانچ کلو میٹر تک جنوب میں موضع بکھڑا کی تلوکر برادری زیادہ متاثر ہے یہ سب لوگ گھروں اور زمینوں سمیت متاثرہو رہے ہیں موضع بکھڑا متاثرین چشمہ بیراج میں سب سے زیادہ زمینوں و گاؤں کی قربانی دینے والا موضع ہے اور پاکستان اٹامک انرجی میں بھی اس موضع کا بہت حصہ ہے ویسے بھی دونوں موضع جات موضع بکھڑا و موضع ڈنگ کھولا بار بار متاثرہونے والے موضع جات ہے مگر افسوس صد افسوس یہ علاقے تمام حکومتوں میں نظر اندازہوتے آئے ہیں اور آج بھی وہی حال ہے میری وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان،چیئرمین واپڈا،وزیراعلی پنجاب و متعلقہ وزارتوں و متعلقہ محکموں و متعلقہ منتخب نمائندوں ایم این اے،ایم پی اے اور کرتہ دھرتاؤں سے پر زور اپیل ہے کہ چشمہ بیراج کے جنوب میں دونوں اطراف آبادیوں و زمینوں کو محفوظ بنایا جائے اس سے قبل کہ ان لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ھوجائے بلکہ ٹوٹ جائے اگر اس علاقہ میں لگائے گئے میگا پراجیکٹس کی آمدن ور رائیلٹی میں سے 20 فیصد حصہ اس علاقہ کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کر دیا جائے تو تمام مسائل بخوبی حل ہو سکتے ہیں امید ہے کہ میری اس گزارش کو مثبت لیا جائے گا۔ یہ صرف ایک فرد کا نوحہ نہیں ہے بلکہ چشمہ بیراج کے علاقہ کے باسیوں کی متفقہ آواز ہے امید ہے وزیر اعظم عمران خان اور سردار عثمان بزدار اس حوالہ سے عوام کے دیرنیہ مسائل کے حل پر پوری توجہ دینگے آخر میں ایک لطیفہ ان مظلوم اور مجبور عوام کے نام جنہیں ہر بار حکمران چونا لگانا نہیں بھولے قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔ خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہا خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612212 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.