پیغام ستمبر....میری مٹی استحکام چاہتی ہے‎‎

مدینة المنورة کے بعد پاکستان واحد ریاست ہے جو نظریۂ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پاکستان کی مثال ایک مسجد کی طرح ہے کہ جب وہ تعمیر ہوجاۓ تو اس کی حفاظت فرض عین ہو جاتی ہے۔ 6 ستمبر 1965، ایک عظیم دن جب مملکت خداد کے عظیم سپوتوں نے خون کے نذرانے پیش کرکے دشمن کے ناپاک عزائم سے دھرتی ماں کی حفاظت کی تھی۔ یہ ایک تاریخ ساز جنگ تھی کہ جس میں عوام اور فوج شانہ بشانہ لڑی تھی اور ایک ایک انچ کی حفاظت اپنے سرخ خون سے کی تھی۔ دشمن کا خیال تھا کہ یہ نوزائیدہ ملک ترنوالہ ثابت ہوگا مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 6 ستمبر کی شام انٹرنیشنل بارڈر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کراس کرنے والی انڈین فوج چاہتی تھی کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور میں کرے۔ اور لاہور کی سڑکوں پر وزیر اعظم بہادر شاستری کو سلامی پیش کی جاۓ۔ کہنے کو تو یہ سہانا خواب تھا۔ یہ وہ چہیچڑے تھے جو سیانی بلی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی مگر کیا کہنے عظیم ماؤں کے عظیم بیٹوں کے۔ سیالکوٹ کے علاقے چونڈہ کا مقام دشمن کیسے بھول سکتا ہے کہ جب وطن عزیز کے بہادر جانثاروں نے جسموں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے آگے بند باندھے اور دشمن کے 600 ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد یہ سب سے بڑی جنگ تھی جس میں اس قدر ٹینک استعمال ہوۓ تھے۔ پاک فوج کے دلیر جوانوں نے اس محاذ پر دشمن کو ناکوں چنے چبواۓ۔ میجر محمد احمد اس جگہ ٹینکوں کی کمانڈ کر رہے تھے۔ انہوں نے بے جگری سے لڑتے ہوۓ دشمن کو اس سرزمین سے پیچھے دھکیلا تھا اور لاہور میں چاۓ پینے کا خواب دیکھنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا تھا۔ یہ تو فقط ایک محاذ تھا۔ اس جنگ کا ہر ہر محاذ استقلال، بہادری، شجاعت، دلیری، اور جوانمردی کی بےنظیر تاریخ رکھتا ہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید نے لاہور کے محاذ پر وہ انمنٹ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ آپ 5 دن تک بے جگری سے لڑتے رہے اور دھرتی ماں کی حفاظت کرتے رہے 12 ستمبر کو ٹینک کا گولہ لگنے سے جام شہادت نوش فرما گۓ مگر دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ بری فوج کے کارنامے تو ایک طرف۔۔ پاکستان کی فضائیہ بھی کسی طور پیچھے نہیں رہی تھی۔ فضائیہ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب پوری فضاء خالی ہو چکی تھی اور آسمان پر فقط سبز ہلالی پرچم والے جہاز رہ گۓ تھے۔ تاریخ اس ایم ایم عالم کو بھی سنہرے حروف میں یاد رکھے گی کہ جس نے 30 سیکنڈ میں 5 لڑاکا طیاروں کو تباہ کر کے ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جسے آج تک توڑا نہ جا سکا۔پاک فضائیہ نے جنگی حکمت عملی کے تحت شہر کراچی میں بلیک آؤٹ کروا دیا تھا اور تختوں پر بلب لگا کر انہیں سمندروں میں چھوڑ دیا تھا۔ رات کی تاریکی میں جب دشمن کے جہاز روشنی دیکھتے تو سخت بمباری کرتے اور وہ سارے بم سمندر کی نظر ہوجاتے۔ اسی سے ایک واقعہ یاد آیا والدہ بتایا کرتی تھیں کہ اس زمانے میں ایک جاسوس پکڑا گیا تھا جس نے رات کے وقت صراحی کو الٹا کر کے اس کے منہ کے پاس چراغ روشن کر دیا۔ جنگی طیاروں نے روشنی محسوس کی تو بمباری شروع کردی۔ چونکہ یہ درمیان شہر تھا اور چاروں طرف آبادی تھی تو بمباری کے باعث بہت سی معصوم جانیں اور بے گناہ شہری شہید ہوۓ تھے۔ اگلے ہی دن خفیہ ادارے کے جانباز اہلکاروں نے اس جاسوس کو دھر لیا اور انجام تک پہنچا دیا۔اس جنگ میں پاک بحریہ نے بھرپور حصہ لیا اور دشمن کا بحری بیڑہ اور ریڈار سسٹم تباہ کر دیا۔ "المسلم کجسد واحد" یعنی " تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں" کا خوبصورت منظر دنیا نے اس وقت دیکھا جب انڈونیشیا نے اپنی آبدوزیں بھیج کر پاک بحریہ کی مدد کی اور اسی کی مدد سے پاکستان نے انڈیا میں گھس کر قلعہ دوار پر قبضہ کیا۔ گو کہ اس بھائی چارے کی بعد میں انڈونیشیا کو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی تھی مگر اس نے دوستی کا حق ادا کیا تھا۔یہ پوری جنگ ہی قربانیوں اور کرامات کی داستانیں سموۓ ہوۓ ہے۔الغرض پوری قوم نے اپنی بساط سے بڑھ کر اس جنگ میں حصہ لیا تھا اور شانے سے شانہ ملا کر اتحاد و اتفاق، عزم و ہمت اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک داستان رقم کی تھی۔ اسی جذبے کا آج پھر یہ ملک متقاضی ہے۔ کیونکہ وہی قومیں نام پیدا کرتی ہیں جو لہو کی سرخ لکیر کھینچ کر وطن کی آبیاری کرتی ہیں۔ جو دفاع پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں، جو محافظوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں اور جو اتحاد، اتفاق، تنظیم کے اصول کو اپنا کر آگے بڑھنے کی لگن رکھتی ہیں۔

آئیے ۔۔۔! آج عہد کریں کہ جس جذبے سے ہم نے بیرونی دشمن کو مات دی تھی اور سینہ سپر ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے تھے۔ اسی جذبے سے اندرونی دشمنوں کو بھی مات دیں گے۔ جھوٹ، کرپشن، رشوت، خوری، حقوق غصبی اور اخلاقی پستی کو اپنے اندر سے نکال پھینکیں گے۔ اس ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اور ہر قسم کے نسلی، علاقائی، لسانی تعصب کو بھول کر یک جان ہو کر وطن عزیز کی خدمت کریں گے۔اور اسے پائیدار امن و استحکام مہیا کریں گے۔۔
 

Muhammad Mubashir
About the Author: Muhammad Mubashir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.