اللہ کی غلامی

شام کا دھندلکا پھیلنے لگا تھا،دکانوں کے نیون ساٸن اور اسٹریٹ لاٸٹس روشن ہوکر ماحول کو مزید خوبصورت بنارہی تھیں“
صاف ستھرا روڈ آٸینے کی طرح چمک رہا تھا“رات کی تاریکی رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی تھی "
حکومت کرنے والے مسلمان جب زوال پزیر ہوۓ تو اپنی عظمت کے کیسے کیسے نشانات چھوڑ گۓ اور ان سے ہی سیھکنے والے انہی کی جگہ براجمان تو ہوگۓ لیکن تاریخ کے تلخ نقش بھی ان کے دل پر دستک نہ دے پاۓ"
خیالات کی رو جانے کہاں سے کہاں بھٹک گٸ،جھبی ایک جھٹکے سے گاڑی رکی اور وہ ایک دم سے چونک گیا۔
گھر آگیا صاحب۔۔۔“گھر آ گیا صاحب..."
ڈراٸیور نے چیخ کر اطلاع دی۔۔۔۔“
گاڑی کی آواز سن کر ہمیشہ کی طرح ماں دروازے کیطرف دوڑی آٸی اور چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجاتے ہوۓ گرمجوشی سے بولی۔۔۔۔“
بسمہ اللہ ,بسمہ اللہ ۔۔۔۔
....آگیا میرا لال۔۔۔“...آ گیا میرا پتر... ماشاءاللہ."
”حسن ایک متاثر کن شخصیت کا مالک تھا، لمبا قد, رنگ گورا, آنکھیں لمبی , اسکا لباس، نشست وبرخاست، گفتگو،اعتماد،اعلی پوسٹ،اچھی سیلری،روشن مستقبل اور اتنی چکا چوند کردینے والی خوبیاں تھیں۔اسے کسی چیز کی کمی نہ تھی“وہ ایک کامیاب شخص تھا۔
”۔۔ آج بہت تھک گیا ہوں“
..دل و دماغ آپس میں ٹکراتے ہوۓ محسوس ہوتے ہیں "
ایسا لگتا ہے کہ جسم میں جان نہیں"
میں سوچتا ہوں ماں یہ زندگی کیا ہے, اسکا مقصد کیا ہے, صبح سے شام تک کا یہ سفر ایسے ہی چلتا رہے گا؟
ماں بیٹے کی بے چینی جان گئ,کہنے لگی بیٹا تم ہاتھ منہ دھو کر فریش ہوجاٶ میں تمہارے لیے کھانا لگا دیتی ہوں“فریش ہوکر آیا تو ڈاٸینگ ٹیبل کو مختلف لوازمات سے سجے پایا“
ماں تم میرے لیے اتنا اہتمام کیوں کرتی ہو۔۔؟
یہ اہتمام نہیں تیری ماں کی محبت ہے میری دنیا ہو تم میرے بچے۔
کھانا کھایا تو ماں کی گود میں سر رکھ کر سکون کی تلاش میں نکل پڑا“
ماں کی گود میں اس قدر سکون ملا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند کی سنہری وادیوں میں سیر کرنے لگا۔دنیا کے غم بھول گیا, جنت میں جنت کے نظارے ہونے لگے,
گہری نیند میں جانے کے بعد کیا دیکھتا ہوں۔۔“
اگلے دن دفتر سے واپس گھر آنے کی بجاۓ
کسی اللہ والے کی پکار پر“جو ایک سفید ریش والے بزرگ تھے۔
انکی عمر تقریباً 80 سال کے قریب ہوگی۔
وہ منبر پر بیھٹے ہاتھ میں تسبیح کے دانے رولتےہوۓ گفتگو فرما رہے تھے ,
نیچے لاتعداد لوگ انکے روشن چہرے کو دیکھتے ہوۓ گفتگو سماعت کرتے نظر آرہے تھے۔
دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایسے لگا جیسے میرے قدم لوہا بن کر مقناطیس کی طرح کسی باڑ میں پڑے اور وہیں چپک گۓ ہوں۔
ان کا خوبصورت،نورانی چہرا۔نشیلی شفاف بولتی آنکھیں ان میں ڈوب جانے کو جی چاہا۔ بارعبِ حسن ،چہرے پر نور کی لالی۔جیسے دل و دماغ میں اک بھونچال سا آگیا۔۔۔“
طوفان سا برپا ہونے لگا۔۔۔۔“
بچپن کے پڑھے سب قصے ,کہانیاں زہن سے جاتی رہی۔
آج حسن کے سارے شاہکار انکے حسن کے سامنے پانی بھرتے نظر آرہے تھے۔
کیا اللہ والے اتنے حسین ہوتے ہیں۔۔۔۔“
شاہ جی کی جاری گفتگو میں وہ بھی شامل ہو گیا, اللہ والے فرما رہے تھے "
محبوب خدا امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں.
فرمایا ہاں کہو ...
عرض کیا =یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم میں امیر بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =قناعت اختیار کرو امیر بن جاؤ گے.
عرض کیا =میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =تقوی اختیار کرو عالم بن جاؤ گے.
عرض کیا =عزت والا بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا=مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے بند کردو، باعزت ہو جاؤ گے.
عرض کیا =اچھا آدمی بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =لوگوں کو نفع پہنچاؤ.
عرض کیا =عادل بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو.
عرض كيا=طاقتور بننا چاھتا ھوں ؟
فرمايا=اللہ پر توکل کرو.
عرض كيا=اللہ کے دربار ميں خاص درجہ چاھتا ھوں؟فرمايا=کثرت سے ذکر کرو.
عرض كيا=رزق کی کشادگی چاھتا ھوں؟
فرمايا=ہمیشہ با وضو رہو.
عرض كيا=دعاؤں کی قبولیت چاھتا ھوں؟
فرمايا=حرام نہ کھاؤ.
عرض كيا=ایمان کی تکمیل چاھتا ھوں؟
فرمايا=اخلاق اچھے کرلو.
عرض كيا=قیامت کے روز اللہ سے گناھوں سے پاک ھو کر ملنا چاھتا ھوں؟
فرمايا=جنابت كے فورا بعد غسل کیا کرو.
عرض كيا=گناہوں ميں كمی چاهتا هوں؟
فرمايا=كثرت سے استغفار كيا كرو.
عرض كيا=قيامت كے روز نور ميں اٹهنا چاهتا هوں؟فرمايا=ظلم كرنا چهوڑ دو.
عرض كيا=چاہتا ہوں، اللہ مجھ پر رحم كرے ؟
فرمايا=الله كے بندوں پر رحم کرو.
عرض کیا=چاہتا ہوں ،اللہ میری پردہ پوشی کرے.
فرمایا=لوگوں کی پردہ پوشی کرو.
عرض کیا =رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟
فرمایا =زنا سے بچو.
عرض کیا =چاہتا ہوں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا محبوب بن جاؤں؟
فرمایا =جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو محبوب ہو، اسے اپنا محبوب بنا لو.
عرض کیا =اللہ کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =فرائض کا اہتمام کرو.
عرض کیا =احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟
فرمایا =اللہ کی یوں بندگی کرو، جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو یا جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.
عرض کیا =یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کر دے گی؟
فرمایا =دنیا کی مصیبتوں پر صبر.
عرض کیا =اللہ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے.
فرمایا =چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی.
عرض کیا =سب سے بڑی برائی کیا ہے؟
فرمایا =بد اخلاقی اور بخل.
عرض کیا =سب سے بڑی اچھائی کیا ہے؟
فرمایا =اچھے اخلاق، تواضع اور صبر.
عرض کیا =اللہ کے غصہ سے بچنا چاہتا ہوں؟
فرمایا =لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ.
شاہ جی کی گفتگو ختم ہوئی, دعا ہوئی, درس کا اختتام ہوا, سب لوگ تو واپس اپنے گھروں کو روانہ ہو گۓتھے... وہ اکیلا ہی چپ چاپ کھڑا ہوا اور سیدھا شاہ جی کے سامنے کھڑا ہوگیا, السلام علیکم و رحمتہ اللہ شاہ جی ""میرا نام حسن ہے!
و علیکم السلام و رحمتہ بچہ ""شاہ جی نے کہتے ہوئے جو نگاہ اٹھائی """
”اس نے سر جھکایا اور شاہ جی کے قدموں میں آبیٹھا اور آنکھوں میں آنسو اور کانپتے ہوۓ لبوں سے بس چند الفاظ ہی ادا کر پایا۔۔۔“
”شاہ جی میں اپنی زندگی کے تمام دکھوں سے چھٹکارا چاہتا ہوں اور اپنے رب کا محبوب بندہ بننا چاہتا ہوں۔
”میرے رب کو اپنی مخلوق بہت محبوب ہے میرے بچے“
بے شک زندگی قیمتی ہے بچہ , اسکی مخلوق اپنے دکھوں اور پریشانیوں کی گٹھڑیاں اپنے مونڈھوں پر دھرے واویلا کرتی ہے, اسے پکارتی ہے،اپنے دکھڑے سناتی ہے،اپنے سر اسکی بارگاہ میں رکھتی ہے اور اسکو منانے میں سرگرداں ہے۔
وہ ہی اللہ ہے جو سنتا ہے, جانتا ہے , دیکھتا ہے , دل میں بستا ہے ہاں صرف وہی اللہ انکے آنسو پونچھنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہی انکے رستے زخموں پر پھاہے رکھنے کی قدرت رکھتا ہے۔
مگر شاہ جی“
میں اللہ کا محبوب بندہ کیسے بن سکتا ہو۔۔۔۔؟
میرے بچے اگر اللہ کے محبوب بندے بننا چاہتے ہو تو اللہ کی غلامی اختیار کرلو۔۔۔۔“ہاں بچہ اللہ کی غلامی میں ہی حکمرانی ہے ""
بچہ بے شک وہ دکھوں کا مداوا کرنے والا ہے اور سب کی دعاٸیں سننے والا ہے۔
شاہ جی کا محبت و شفقت بھرا ہاتھ سر پر محسوس ہوتے ہی حسن کی جھٹ سے آنکھ کھلتی ہے“لیکن جو راحت اور سکون اسکو محسوس ہو رہا تھا وہ پہلے شاید کبھی نہیں ہوا تھا"
حسن نے آنکھ کھولتے ہی اوپر دیکھا تو نگاہیں ماں کی محبت بھری نگاہوں سے ٹکراٸیں۔۔۔۔“
ماں۔۔۔۔۔“ماں..... "
یہ اللہ کی غلامی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔؟
ماں نے پیار سے بیٹے کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور کہنے لگی کہ اللہ سے ہونے کا یقین ,مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہی اللہ کی غلامی ہے, اور اللہ کی غلامی کا راستہ امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت ؤ محبت کے بیغر مکمل نہیں ہوتا کیونکہ
دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں میرے نبیﷺ کی غلامی میں ہیں، بس اس درکے فقیر بن جاٸیں، دونوں جہان سنور جائیں گے,
لیکن ہم دنیا کی دلدل میں غرق ہیں, نفس کی خواہش میں مگن ہیں, دین سے دور ہیں اور یاد رکھنا کہ جب نفس کے خلاف جہاد زمین سے آسمان پر جاتا ہـے تـو آسمان سے عـزت ، مال و جان اور ایمـان کی حیا, حفاظت ، خلافت ، حدود دین کی سمجھ, ﷲ کا قیام نازل ہـوتا ہـے ۔
اور تـرک حقیقت سے ذلت ، غلامی نفرت, لالچ ، فساد ، بربادی و تباہی نازل ہوتی کیونکہ ان چیزوں کا تعلق جہاد نفس کے ساتھ ہـے۔
”ماں بولتے چلی گٸی۔۔۔مگر وہ نہ جانتی تھی حسن اب ہمیشہ کے لیے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی غلامی اختیار کرچکا ہے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457558 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More