گاؤں کے ایک کھیت میں بھنڈی اور دوسرے میں کھیت میں ٹماٹر
اگائےگئے تھے. ایک دن ٹماٹر نے بھنڈی سے کہا! اوئے سکڑو! لیکن بھنڈی نےاس
کی آواز پر توجہ نہ دی ٹماٹر نے پھر آواز لگائی ! اوئے سکڑو! بھنڈی کو غصہ
بھی آرہا تھا مگر وہ خاموش تھی۔ بھنڈی نےکہا! میرا کیا جاتا ہے جتنی مرضی
آوازیں لگائے۔ آخر کار ٹماٹر نے کہا بھنڈی صاحبہ، سے ذرا بات تو سنے۔ بھنڈی
اسں کی طرف متوجہ ہوئی۔ جی بھائی ٹماٹر! ٹماٹر نے کہا! میں کتنی دیر سے تم
کو آواز لگا رہا تھا۔ تم سن کیوں نہیں رہی تھی۔ بھنڈی بڑی شائستگی سے بولی،
ٹماٹر بھائی صاحب! اگر آپ مجھے پیار سے بلاتے تو میں پہلی آواز پر ہی آپ کی
آواز سن لیتی۔ ٹماٹر نے زور دار قہقہہ لگایا، ہا --ہا --ہا --ہا-- ہا سکڑو!
کو تمیز سے بلاؤ ، ٹماٹر نے دوسرے ٹماٹروں کو بھی آواز لگائی۔ بھائیوسنو،
محترمہ بھنڈی صاحبہ، اب مجھ کو تمیز سکھائی گئی، سکڑؤ نہ ہو تو۔ ٹماٹر کی
بات سن کر دوسرے ٹماٹر بھی ہنسنے لگے۔ ہا--ہا--ہا--ہا، بھنڈی نے لمبے لمبے
سانس لیے، پھر بڑے احترام کے ساتھ بولی ٹماٹر بھائیوں! ہم اس کھیت میں دو
چار دن ہے۔ تو کیوں نہ یہ وقت بہت خوش اسلوبی سے گزار لے۔ پتہ نہیں کل کس
نے کہا چلے جانا ہے۔ اور پھر پتہ بھی نہیں چلنا ہم میں سے کون آیا تھا اور
کون نہیں، کل اس کھیت پر کسی اور کی حکمرانی ہونی ہے۔ بھنڈی کی یہ باتیں سن
کر تمام ٹماٹروں نے کہا بھنڈی باجی! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اور پھر سب
ٹماٹروں نے بھنڈی سے معافی مانگی اور کہا ہمیں معاف کر دیں۔ بھنڈی نے سب کو
معاف کردیا۔ اور سب مسکرانے لگے۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا فانی ہے آج ہم ہیں اور کل نہیں،
اسی لئے جو وقت ہے ہمارے پاس اس کو غنیمت جانے اور اپنوں کا خیال رکھیں۔
جہاں تک ہو سکے خوشیاں بانٹیں اور خوش رہے۔
|