میرے پاکستان کا یہ چہرہ تو نہ تھا جو 14 اگست کو مینار
پاکستان پر دیکھنے کو ملا جو لاہور کی سڑکوں پر نظر آیا جو آج کل پاکستان
کے ہر شہر میں ہر روز ایک نیا روپ دھار کر درندگی کی بدترین مثالیں قائم کر
رہا ہے۔ خوف اور وحشت کی علامت یہ چہرہ میرے ملک کا نہیں ہوسکتا جس میں بنت
حوا کے لیے سانس لینا اور زندہ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے۔
میرا ملک ، میرا دین میرا کلچر تو عورت کو احترام دیتا ہے ، تحفظ دیتا ہے ،
حقوق دیتا ہے۔ ہماری تو گھٹی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ مائیں ، بہنیں اور
بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں میرے ملک میں تو ہمیشہ یہ تربیت کی جاتی ہے
کہ خواتین کی عزت کرو ان کا احترام کرو۔ میرے ملک کا تو یہ چہرہ ہے کہ آج
بھی کسی دفتر ، بینک ، ٹکٹ گھر یا کہیں بھی جہاں مردوں کی طویل قطار لگی ہو
اگر کوئی عورت آجائے تو لوگ احترام کے ساتھ ایک سائیڈ پر ہوجاتے ہیں اور
کہتے ہیں باجی پہلے آپ آجائیں۔ کسی بس ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اگر کوئی
خاتون کھڑی ہو تو لوگ سیٹ چھوڑ کر کہتے ہیں بہن آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ یہ
خوبصورتی ہے میرے ملک اور کلچر کی مگر مینار پاکستان پر نظر آنے والا بدنما
چہرہ دیکھ کر سمجھ نہیں آتی کہ ہم اخلاقی بستی میں اس حد تک بھی گر سکتے
ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اس
میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں مگر یہ چہرہ اس قدر بھیانک ہوجائے گا
یہی دیکھ کر یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مینار پاکستان ، قومی یادگار ، یوم آزادی اور مادر پدر آزادی، ایک خاتون،
سینکڑوں انسان نما درندوں کا ہجوم اور بدترین درندگی، مگر یہاں ہر کوئی
مفتی ہے ہر کوئی دانشور ہے ہر کوئی فلسفی ہے سب کے اپنے اپنے دائرے ہیں ہر
کسی کا دائرہ اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے جس میں اس کی اپنی سوچ ہے اپنے
مرضی ہے جس کو چاہیں گنہگار کر دیں جس کو چاہیں نیک و کار ثابت کر دیں۔
لباس کیسا تھا ، سٹائل کیسا تھا حجاب کیسا تھا، وہ آئی کیوں تھی سوالات کی
بھر مار ہے۔ مان لیتے ہیں وہ اچھی نہیں تھی۔ فالور کا چکر تھا ، ریٹنگ کا
معاملہ تھا مگر سوال تو یہ ہے ان لوگوں کو کس نے حق دیا تھا کہ اس خاتون کے
کپڑے پھاڑیں ، اسے زد و کوب کریں اس کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کریں اسے
برہنہ کریں۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے سوشل میڈیا پر آنے والی
ویڈیوز کو ایک درد رکھنے والے انسان کے لیے دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا مگر
وہ کیسے لوگ تھے جو اس طرح کی غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکات کرتے رہے
ایک خاتون کو نوچتے رہے وہ چیختی رہی یہ ہنستے رہے کیا ہم اتنے بے حس ہوگئے
ہیں ان کے دل میں ذرا بھی درد محسوس نہیں ہوا کیا ان کے دل میں ایک لمحے کو
بھی اپنی گھر میں ماں بہن بیٹی کا خیال نہیں آیا کہ وہ لڑکی ہماری ماں بہن
بیٹی بھی تو ہوسکتی تھی مگر نہیں شاید اخلاقی زوال کی اس سطح تک گر گئے ہیں
جہاں ماں بہن بیٹی کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔
جہاں ہمارا دین ، ملک اور کلچر عورت کی عزت احترام اور اس کے حقوق کے تحفظ
کا درس دیتا ہے وہاں آج عورت نہ گھر میں محفوظ ہے نہ گلی میں ، نہ دفتر میں
محفوظ ہے نہ بازار میں ، نہ سکول میں محفوظ ہے نہ مدرسے میں ، نہ پارک میں
محفوظ ہے نہ رکشے میں ، نہ جیتے جی محفوظ ہے نہ قبر میں کتنے دکھ اور افسوس
کی بات ہے کہ معصوم بچیوں سے لیکر مردہ خواتین تک جنسی درندگی اور وحشت و
بربریت کا شکار ہورہی ہیں۔ اس تمام صورتحال میں سوال یہ ہے کہ ریاست کیا کر
رہی ہے اور حکومت کہاں ہے اور کیا ہے بھی یا نہیں ؟
ہر روز ایک نئی درندگی ہوتی ہے مگر حکومت صرف ویڈیوز کا انتظار کرتی ہے
جیسے ہی کوئی ویڈیو وائرل ہوتی ہے حکومتی مشینری بیان دینے کے لیے حرکت میں
آجاتی ہے نوٹس لیا جاتا ہے مزمت کی جاتی ہے رٹے رٹائے اور لکھے لکھائے بیان
جاری ہوتی ہیں اور پھر کسی معصوم کی موت کسی خاتون کی عصمت دری اور کسی
عورت کی تذلیل کا انتظار کیا جاتا ہے سچ تو یہ ہے کہ حکومت کی کوئی رٹ ہوتی
تو کسی کو کیسے جرأت ہوسکتی تھی کہ وہ یادگار پاکستان پر اخلاقی اقدار کو
پامال کر سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھیانک چہرہ میرے ملک کا نہیں
مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ ہماری شناخت بن چکا ہے
اور اس وقت تک یہ خوف کی علامت بن کر معصوم بچیوں اور خواتین کو درندگی کا
نشانہ بناتا رہے گا جب تک ان وحشی درندوں کو عبرت کا نشان نہیں بنایا جائے
گا سچ تو یہ ہے ہر کیس حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہوتا ہے اور ٹیسٹ میں حکومت
ناکام ہو جاتی ہے اس بار دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ملک کے لیے بدنامی کا باعث
بننے والوں کو عبرت کا نشان بنا کر ملک کا حقیقی چہرہ بحال کرتی ہے یا پھر
ایک نئی ویڈیو کا انتظار کرتی ہے۔ |