علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا آن لائن نظام طلبہ کا مستقبل داؤ پر

یوں تو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا شمار ملک کی قدیم فاصلاتی نظام تعلیم والی یونیورسٹی میں ہوتا ہے جو کہ 1974 ء سے طالب علموں کی آبیاری کر رہی ہے محتاط اندازے کے مطابق اس جامعہ سے اب تک تقریباََ 30 لاکھ طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو چکے ہیں

ایشیاء کی سب سے بڑی اور دنیا کی دوسرے نمبر کی بڑی یونیورسٹی کا اپنا ریڈیوا سٹیشن اور ٹی وی چینل ہے جس کے ذریعے ملک کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم پہنچائی جاتی ہے اس جامعہ کے طالب علموں میں زیادہ تعداد دیہی خواتین کی ہے جو کہ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں یاوہ لوگ ہیں جو کہ ملازمت کی وجہ سے پڑھائی کو پورا وقت نہیں دے پاتے۔

قارئین کرام یہ تو تھا پرانی پیپلز اوپن یونیورسٹی اور حالیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا جغرافیہ اب چلتے ہیں تصویر کے دوسرے رُخ کی جانب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ 2019 ء سے پوری دنیا کرونا نامی بیماری کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے کاروبار تو تباہ ہوئے ہی تھے تعلیمی اداروں میں بھی زوال آ گیا ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر بند کر دیا گیا تا کہ کرونا متاثرین کی تعداد کو بڑھنے سے روکا جا سکے اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بھی حکومت کے لئے ایک چیلنج تھا اس ضمن میں تعلیم جاری رکھنے کا یہ لائحہ عمل تیار کیا گیا کہ تمام تعلیمی ادارے فاصلاتی نظام تعلیم کو اپناتے ہوئے اپنا اپنا آن لائن نظام متعارف کرائیں جس کے تحت تعلیمی سرگرمیاں جاری رہ سکیں بہت سے تعلیمی اداروں نے اس تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے آن لائن پورٹل تیار کئے اور یوں تعلیمی سرگرمیاں گھر بیٹھے ہوئے بحال ہو گئیں چونکہ یہ نظام تمام تعلیمی اداروں کے لئے نیا تھا ماسوائے ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان کے جو کہ ملک کی دوسری فاصلاتی نظام تعلیم مہیا کرنے والی جامعہ ہے ۔ بات کرتے ہیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے LMS Portal کی جو کہ آگاہی LMS کے نام سے ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کے ذریعے طالب علم گھر بیٹھے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسی پورٹل کے تحت طالب علم اپنے متعلقہ ٹیوٹرز کو امتحانی مشقیں ٹائپ کر کے یا ہاتھ سے لکھ کر بھیجتے ہیں اور امتحانات بھی اسی پورٹل پر مقررہ تاریخ کو گھر بیٹھے آن لائن دیے جاتے ہیں جو کہ یقیناََ قابل ستائش ہے مگر اس پورٹل میں بے شمار خامیاں بھی پائی جاتی ہیں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ متعدد طالب علموں کو امتحانی پرچوں میں پرچے آن لائن جمع کروانے کے باوجود فیل کر دیا جاتا ہے اور جب داد رسی کے لئے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے تو یہ جواب موصول ہوتا ہے کہ اپنی شکائت آن لائن درج کرائیں جس کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے یہ https://rcrts.aiou.edu.pk/ لنک دیا جاتا ہے جس پر تمام کوائف اور پرچے جمع کرانے کے سکرین شوٹس ثبوت کے طور پر نتھی کیے جاتے ہیں طالب علموں کی جانب سے شکائت درج کرا دی جاتی ہے اس کے بعد متعلقہ لنک پر چیک کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اب طالب علموں کو اپنے متعلقہ ریجن میں دستی درخواست بھی جمع کروانی پڑے گی یہ کہاں کا اصول ہے کہ ایک طرف تو تمام نظام آن لائن کر دیا گیا ہے اور دوسری جانب پھر وہی روائتی طریقہ کار بقول اکبر الہٰ آبادی:
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

خیر جب طالب علم کو اپنے قیمتی سال ضائع ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے تو پھر چار و ناچار اُسے سرکار کی ماننی ہی پڑتی ہے اور ماننے کے لئے طالب علم اپنا قیمتی وقت نکال کر متعلقہ ریجن پہنچتا ہے تو اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہاتھ میں موبائل لئے چائے کی چسکیوں کے ساتھ کانوں پر بڑی شیشے والی عینک سجائے صاحب بہادر سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ اس درخواست کو بڑے صفحے پر دوبارہ لکھ کر لائیں ہائیں کیا طالب علم مُو سا لکھ کر لایا ہے؟ خیر جب سامنے والا اپنی دھٹائی پر قائم ہو تو طالب علم کو سر خم تسلیم کرنا پڑتا ہے اور جیسے تیسے دوبارہ درخواست لکھ کر جمع کرا دیتا ہے کہ کہیں یہ صاحب بہاد ر پھر سے فیل ہی نا کر دیں بقول شاعر:
کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے
ہمیں تو لگے ہے وہ عیار سا

درخواست جمع کرانے کے بعد طالب علم اس امید پر واپس آ جاتا ہے کہ شائد اب کی بار مسئلہ حل ہو جائے مگر کہاں آن لائن اور دستی درخواست جمع کرانے کے باوجود کئی دن انتظار کرنے کے بعد بھی مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے بقلم خود:
عمر ڈھل جائے گی تب آؤ گے عرفان
میری جھریوں میں مجھ کو پہچان نا پاؤ گے

ساری سر درد لینے کے بعد بیچارہ طالب علم جب اپنے متعلقہ ٹیوٹر سے رابطہ کرتا ہے تو جواب آتا ہے کہ آپ کے پرچوں پر نمبر لگا کر متعلقہ ریجن کو آگاہ کر دیا گیا ہے لہذا اب وہ ہی ذمہ دار ہیں مگر یقین مانئے طالب علم کو تو اپنا آپ ہی ذمہ دار لگنے لگتا ہے جو اس نے پڑھنے کا سوچ لیا یہ تو تھی ایک خامی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ امتحانی مشق جمع کرانے کی آخری تاریخ 29-08-2021 ہے اور ابھی تک طالب علموں کو امتحانی مشق جمع کرانے کی رسائی نہیں مل رہی ہے اور نا ہی امتحانی مشقوں کے متعلقہ ٹیوٹرز کا اتا پتا ہے جن سے رابطہ کر کے وہ اپنی داد رسی کر سکیں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طالب علم جو کہ اپنی امتحانی مشق لکھ کر بیٹھا ہوا ہے اس کو نا کردہ سزا کے تحت فیل کر دیا جائے گا اور امتحانی مشق میں فیل ہونے کا مطلب ہے کہ متعلقہ کورس کا مکمل داخلہ دوبارہ کروانا ہوگا جس سے طالب علم پر معاشی بوجھ بھی پڑے گا اور اس کا دورانیہ بھی مزید بڑھ جائے گا تیسری خامی اگلے سمسٹر کے داخلے کے وقت آتی ہے جب داخلے کی آخری تاریخ سر پر آ جاتی ہے اور ادارے کا سسٹم اپڈیٹ نہیں ہوتا ۔ میری متعلقہ افسران بالا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن والوں سے درخواست ہے کہ خدارا یہ طالب علم ہمارا مستقبل ہے انہوں نے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لئے بہت کچھ سوچا ہوا ہے اور اگر ان کے ساتھ یہی سلوک رہا تو یہ معاشرے کا مثبت چہرہ بننے کی بجائے منفی چہرہ بن کر سامنے آئیں گے لہذا گزارش ہے کہ ان طالب علموں کے حال پر رحم کرتے ہوئے آگاہی LMS پورٹل میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے اور اس ضمن میں ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان کی انتظامیہ سے مدد لی جائے چونکہ وہ اس سسٹم میں پوری مہارت رکھتے ہیں اس لئے بھرپور رہنمائی کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مثبت لائحہ عمل طے کرتے ہوئے متعلقہ ٹیوٹرز کے ذریعے فی الفور فیل شدہ طالب علموں کے نتائج اپڈیٹ کیے جائے تا کہ طالب علم بے یقینی سی کی کیفیت سے نکل سکیں ۔
 

M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 53597 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More