آٹھویں کلاس تک پہنچ کر کیسے اے گریڈ سٹوڈنٹس، سی گریڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں


بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک ملک کا بادشاہ تھا جسے نئے نئے کپڑے پہننے کا شوق تھا۔ اس کی ساری توجہ اپنی فوج یا رعایا کی بہتری کے بجائے نئے نئے کپڑوں پر ہوتی تھی۔ دوسرے بادشاہوں کا سارا وقت امورِسلطنت نمٹانے میں گزرتا لیکن اس بادشاہ کا سارا وقت اپنے وارڈ روب میں گزرتا۔ وہ ہر دن اور ہر فنکشن کے لیے نئے لباس کے چکروں میں ہوتا۔ لوگ اسے ملک کا بادشاہ کہنے کے بجائے اپنے وارڈروب کا بادشاہ کہنے لگ گئے۔

ملک کے دارالحکومت میں مختلف لوگ آتے جاتے رہتے تھے ۔ ایک دفعہ دو بہروپیے شہر میں داخل ہوئے اور انھوں نے لوگوں سے بادشاہ کا حال احوال پوچھا۔ انھیں جب بادشاہ کے شوق کے بارے میں پتہ چلا کہ بادشاہ تو نئے نئے لباسوں کا شوقین ہے تو انھوں نے لوگوں سے کہا کہ انھیں بادشاہ کے پاس لے جائیں۔

دوسرے دن ایک وزیر انھیں بادشاہ کے پاس لے گیا۔ انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ ہم دوسرے ملک سے آئے ہیں اور ہم لوگوں کے لیے بہت ہی خاص کپڑے بناتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ بادشاہ سلامت نئی نئی قسم کے کپڑوں کے شوقین ہیں تو اگر آپ ہمیں کہیں تو ہم آپ کے لیے ایسے کپڑے بنا سکتے ہیں کہ جن کوصرف عقلمند اور زہین لوگ ہی دیکھ سکیں گے، بے وقوف لوگوں کو تو وہ کپڑے نظر بھی نہیں آئیں گے۔ بادشاہ تو پہلے ہی کپڑوں کا شوقین تھا فورًا ہی بولا کہ مجھے ایسے کپڑے پہن کر خوشی ہوگی، تم کپڑے بنانا شروع کرو۔ وہ بولے ان کپڑوں کے بنانے پر کم ازکم دو مہینے لگیں گے۔ بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے۔

مقررہ دن پر وہ دونوں بہروپیے آئے اور بادشاہ سلامت کو کپڑے پہنا دیے۔ بادشاہ سلامت یہ کپڑے پہن کر پریڈ میں پہنچ گئے۔ لوگوں کو پتہ تھا کہ بہروپیوں نے کہا ہوا ہے کہ بادشاہ کے کپڑےصرف عقلمند لوگوں کو نظر آئیں اور بے وقوف لوگ انھیں نہی دیکھ سکیں گے۔ جو بھی بادشاہ کو دیکھتا وہ ڈر کے مارے ان کے کپڑوں کی تعریف کرتا کہ بہت ہی خوبصورت ہیں تا کہ سب اسے عقلمند کہیں۔ کسی نے بادشاہ کو اصل بات نہی بتائی کہ بہروپیے چونا لگا گئے ہیں۔ اچانک پریڈ میں ایک بچہ آتا ہے اور بادشاہ کودیکھتے ہی کہتا ہے کہ بادشاہ سلامت تو ننگے کھڑے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ ہر طرف شور مچ جاتا ہےلیکن پھر بھی کوئی بادشاہ کو ڈر کے مارے بتانے پر تیار نہیں ہوتا۔ آخر بادشاہ کے چچا نے تنگ آ کراس کے کان میں کہا کہ بیٹا : بچے کی آواز کو نکارا خدا سمجھو اور جاؤ جا کر کپڑے پہنو اور اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ۔

یہ کہانی تو بہت پہلے پال اینڈرسن نے سویڈن کے معاشرے پر لکھی تھی لیکن یہ اب بھی ہمارے تعلیمی اداروں پر لاگو ہوتی ہے۔ آپ کا بچہ آٹھویں تک اگر 80 فی صد نمبر لے رہا ہوتا ہے جیسے ہی وہ بڑی کلاسوں میں پہنچتا ہے وہ دن بہ دن بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتا جاتا ہے۔ سکول والے سارا سال کچھ نہیں بتاتے کیونکہ ان کو تو فیس مل رہی ہے۔ جب رزلٹ والے دن آپ جائیں گےتو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کا بچہ بمشکل پاس ہوا ہے۔ وجہ پوچھو تو آگے سے کہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ہے ہی نالائق۔ جب ہم کہتے ہیں کہ بچہ پہلے تو اچھے نمبر لے رہا تھا تو جواب میں آپ کو ایسی ایسی باتیں بتائیں گے کہ خدا کی پناہ۔ ان ساری باتوں کے جواب میں ہمارے والدین ڈر کے مارے خاموش ہوجاتے ہیں کہ اب کچھ بولے تو سب کو پتہ چل جائے گا کہ ہمارے بیٹا ہی نالائق ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے پاس کوئی ایسا انتظام نہی ہے کہ بڑھتی عمر کے بچوں کو ڈیل کیسے کیا جائے۔ جنھوں نے ابھی ابھی ڈگری لی ہوتی ہے اور کوئی پڑھانے کا کورس بھی نہی کیا ہوتا ان کو کم تنخواہ پراستاد لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ٹریننگ کیے بغیر استاد کیسے ان بچوں کو ڈیل کرسکتےہیں جنہوں نے ابھی ابھی جوانی میں قدم رکھا ہے اور جن کے دماغ میں سوال ہی سوال ہیں۔ اصل میں یہ ادارے بادشاہ سلامت کا کردار ادا کررہے ہیں کہ جنہوں نے خود کپڑے نہی پہنے ہوتے اور ہمیں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اگر آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا تو ہم سب کو بتادیں گے کہ آپ کا بچہ نالائق ہے۔ وہ یہ کہہ کرہم سب کو بے وقوف بنا رہےہوتے ہیں اور ہم سب بحالتِ مجبوری خاموش رہتے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔

یاد رکھیں! اگر ان سکول والوں کے چکر میں رہے تو بچوں کی کامیابی مشکل ہوجائے گی۔ ہم والدین کو خود ہی بچوں پر نظر رکھنی پڑے گی اور ان کی تربیت بھی کرنی پڑے گی۔ اگر سب کچھ سکول والوں پر چھوڑدیا تو کہیں ہمارا بھی حال بادشاہ والا ہی نہ ہو۔

Abdul Waheed
About the Author: Abdul Waheed Read More Articles by Abdul Waheed: 2 Articles with 1270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.