علمِ حدیث اور محدّثین عظام- ۱

علم حدیث وہ مقدس علم ہے کہ اس کی اہمیت وخصوصیت کی وجہ سے اس کی حفاظت کے لیے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ،کروڑوں انسانوں کی کوششیں خرچ ہوئی ہیں ، اہل علم نے لکھا ہے کہ پہلی امتوں میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے رسول کے کلمات کو صحیح صحیح ثبوت کے ساتھ محفوظ کرسکتے ، یہ صرف اس امت کا طغرائے امتیاز ہے کہ اس کو اپنے رسول ﷺ کے ایک ایک قول وفعل کو پوری دیانت داری اور ثبوت کے ساتھ جمع کرنے کی توفیق عطاء ہوئی ہے ۔خود یورپ کے مستشرقین نے اس حقیقت اور امتیازکااعتراف کیاہے ۔

نبی کریم ﷺ کو اس دنیا میں دین حق کا مبلغ و معلم بنا کر بھیجا گیا اور دین الہی کی آخری اور مکمل کتاب قرآن مجید آپﷺ کو عطاءکی گئی ،اس مقدس کتاب کو آپ نے سنایا ،سمجھایا ،لکھوایا اور یاد کرایا اور ا س پر کامل طور سے عمل کر کے امت کو دکھایا ، گویا آپ کی زندگی قرآن کی عملی تفسیر تھی ۔ اس بناءپر حدیث کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اَقوال واَفعال اور ایسے واقعات جو آپ کے سامنے پیش آئے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی (جسے علمی اصطلاح میں ”تقریر“ کہتے ہیں) وہ حدیث ہے البتہ بعض علماءنے صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں ،تابعین کے اقوال وافعال کو بھی اس ”علمِ حدیث “ میں شریک کرلیا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ علم حدیث ،قرآن مجید کی تفسیر اور تشریح وتوضیح کا نام ہے اور یہی امت کا عقیدہ رہا ہے ۔اس بناءپر جس طرح قرآن کو قانون شریعت تسلیم کیا جاتا ہے حدیث کو بھی قانون شریعت کی حیثیت حاصل ہے اورجو اہل علم قرآن مجید اور احادیث پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ جانتے اور یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تمام صحیح احادیث صراحت کے ساتھ یا اشارات کی شکل میں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ امام شافعی جو بڑے بلند پایہ محدث ہونے کے ساتھ ایک دبستان فکر کے بانی بھی ہیں اور تمام فقہی مکاتب فکر میں یکساں احترام واعزاز سے دیکھے جاتے ہیں انہوں نے احادیث وسنن کی تین قسمیں بیان کی ہیں ایک قسم اُن احادیث کی ہے جو بعینہ قرآن پاک میں مذکور ہیں ،دوسری قسم میں وہ احادیث شامل ہیں جو قرآن پاک کے اجمالی احکام کی تشریح کرتی ہیں ، تیسری قسم اُن احادیث کی ہے ، کہ قرآن پاک میںجن کا ذکر بظاہرتفصیلی طور پرہوا ہے نہ اجمالی طور پر۔لیکن محققین اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ وہ احادیث بھی اسی صحیفہ ربانی کے نور کی کرنیں ہیں اور اسی سے انہیں اخذ کیا گیاہے ۔قرآن پاک نہایت صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کرتا ہے:”بیشک اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ایمان والوں پر کہ بھیجا ان میں ایک رسول انہیں میں سے ، جو پڑھتا ہے ان پر اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اللہ اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے “(آل عمران)

اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرض منصبی صرف قرآن پاک کی آیات پڑھ کر سنانا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ کتاب وحکمت کی تعلیم آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے ۔جمہور اہل علم ومحققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں جو لفظ”حکمت “ استعمال ہوا ہے اس سے نبی کریم ﷺ کی حدیث وسنت مراد ہے ۔نیز اس سے یہ بات بھی یقینی ہوگئی کہ قرآن پاک کی طرح حدیث وسنت کی اتباع وپیروی بھی ضروری ہے ۔

احادیث مبارکہ کی اہمیت اس طرح مزید بڑھ جاتی جب دیکھا جاتا ہے کہ قرآن پاک کے اجمالی اور مشکل مقامات کی تفصیل اور ان کی عملی تشکیل وتصویر نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال اور احوال جانے بغیر ناممکن ہوتی ہے ۔قرآن پاک میں وضوء، غسل ، نماز ،روزہ ،زکوة ، حج ، جہاد، درود ووظائف اور اسی طرح نکاح ، طلاق ،خرید وفروخت ، اخلاق و معاشرت ،سیاست وملت اور عدلیہ و قضاء،غرج جملہ دینی احکام کے متعلق اکثر احکامات اجمالی طور پر بیان ہوئے ہیں پھر ان کی تشریح وتوضیح اور عملی شکل و صورت نبی کریم ﷺ کے اقوال ،افعال اور احوال سے واضح ہوتی ہے اسی لیے قرآن پاک نے آپ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قراردیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے: ”اور جس شخص نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی بلاشبہ اُس نے اللہ کی اطاعت کی “(سورہ النسائ)

نبی کریمﷺکی حدیث وسنت کا اتباع جس طرح آپ کی زندگی میں ضروری تھا اسی طرح دنیا سے وفات پاجانے کے بعد بھی ضروری ہے اور اس پر کامیابی کا دار ومدار ہے خود آپ کا ارشاد گرامی ہے :”میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے، کتاب اللہ اور میری سنت“(مستدرک للحاکمؒ)

سنت اور حدیث کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضرات صحابہ کرام کے دور سے لیکر آج تک مسلمانوں میں اس علم کی طرف رغبت اور شوق کی فراوانی رہی ہے اورامت مسلمہ نے نبی کریم ﷺ سے محبت وعقیدت کے ناطے آپ کے اقوال ،افعال اور احوال کے نادر ذخیرے پر مشتمل اس علمی میدان میں اپنی خدمات وقف کیے رکھی ہیں اور امت میں ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جس نے اپنا اوڑھنا بچھونا اسی علم کو بنالیا ہو۔اور کیوں نہ جبکہ خود نبی کریم ﷺ نے ایسے خوش نصیب کے بارے میں یہ دعاءفرمائی ہے کہ :اللہ تعالٰی اُس بندے کو خوش وخرم رکھے جو میری حدیث کو سنے پھر اسے محفوظ رکھے اور ویسے ہی آگے پہنچا دے جیسے اس نے اسے حاصل کیا تھا۔علم حدیث وسنت کے موضوع پر بے شمار اورلاتعداد کتابیں لکھی گئی ہیں اور بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو آج سے کئی صدیاں پہلے لکھی گئیں لیکن اللہ نے ان کو ایسی قبولیت عامہ نصیب فرمائی ہے کہ وہ آج بھی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہیں اور مسلمان ان کتابوں سے خاص شغف رکھتے ہیں اور ان سے خوب استفادہ کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں نمایاں ترین وہ چھ کتابیں ہیں جو اہل علم کے طبقہ میں ”صحاح ستہ“ کہلاتی ہے یعنی چھ وہ کتابیں جو صحیح احادیث پر مشتمل ہیں۔پھر ان چھ میں دو کتابوں کو خاص مقام حاصل ہے ایک امام بخاری کی کتاب جو عام طور سے ”صحیح بخاری“ کے نام سے مشہور ہے اور دوسری امام مسلم کی کتاب جو ”صحیح مسلم“ کے نام سے مشہور ہے ۔

یہ دونوں حضرات محدثین کرام میں نمایاں اور خاص مقام کے حامل ہیں اور ان کی کتابوں کو بھی بہت سی ترجیح اور فوقیت حاصل ہے ۔ان حضرات نے علم حدیث کی طلب میں کیسی محنتیں کیں اور پھر کس طرح اپنی جمع کردہ احادیث پر محنت کرکے ان میں صحیح احادیث منتخب کرکے انہیں ایک کتاب کی شکل دی یہ ایک بہت کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے جسے ان حضرات نے کافی حزم واحتیاط سے طے کیا ہے اور امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا ہے جس سے آج تک کے تمام عرب وعجم ،مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کے مسلمان اور اہل علم استفادہ کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔آئندہ کی سطور میں اپنے انہی محسنین کے حالات وخدمات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی کتب حدیث کامختصر تعارف بھی انشاءاللہ پیش کیا جائے گا تاکہ وہ غفلت جو مغربی اقوام کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہمیں اپنے اس عظیم سرمائے سے دور کر رہی ہے اس کے تدارک کی راہ پیدا ہو اور ہم اپنے اس عظیم علمی سرمائے کی حفاظت کرنے والے اور اس سے راہنمائی لینے کی کوشش کریں کیوں کہ یہ علم وحکمت کے وہ خزانے ہیں جن میں ہردور کی پیش آمدہ مشکلات و مسائل کا حل موجود ہے ۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344153 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.