علم حدیث اور محدّثین عظام - ۲

امیرالمومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ:
محدثین عظام کے تذکرے میں سب سے پہلے امام بخاری کے حالات و واقعات کا بیان کرتے ہیں ۔محدثین کرام میں آپ کی جلالت قدر اور عظمت شان پر سب کا اتفاق ہے اور آپ ہی وہ عظیم شخص ہیں جو” امیر المومنین فی الحدیث“ کے عظیم لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔آپ کاسلسلہ نسب یہ ہے :محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ۔بردزبہ مجوسی تھے اور اسی مجوسیت پر ان کا انتقال ہوا ،ان کے صاحبزادہ ’مغیرہ‘ پہلے شخص ہیں،جو امیرِ بخارا اَیمان جُعفی کے ہاتھ پر مشرف با سلام ہوئے ،اسی نسبت سے امام موصوف جُعفی مشہور ہو گئے ورنہ جُعف خاندان سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ امام موصوف کے دادا ابراہیم کی زندگی کے حالات معلوم نہیں ہو سکے ۔ البتہ امام بخاری کے والد اسماعیل اپنے زمانہ کے مشہور محدث شمار کئے گئے ہیں ان کے شیوخ و اساتذہ میں امام مالک ،حماد بن زیدوغیرہ جیسے جلیل القدر محدثین شامل ہیں لیکن عبداللہ بن مبارکؒ کی خدمت میں رہنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔

امام بخاریؒ ۳۱ شوال نماز جمعہ کے بعد ۴۹۱ھ میں بخارا ہی میں پیدا ہوئے ،بچپن میں نابینا تھے،لیکن والدہ کی پُرسوز دعاؤں اور سحرگاہی آہوں کی برکت سے آنکھیں میں بینائی واپس آگئی اور وہ روشن ہو گئیں ۔امام صاحبؒ کی والدہ نے جب ان کے لئے دعا کرنا شروع کی تھی تو ایک مرتبہ خواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری کثرتِ دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لڑکے کی بینائی واپس کردی ۔اس خواب کی صبح کو جب آپ کی والدہ بیدار ہوئیں اور آپ کو جگایا توآپ واقعی بینا ہو گئے تھے۔

امام صاحب کے والد اسماعیل کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا اور انہوں نے اپنی والدہ کی آغوشِ شفقت میں نشوونما پائی،سولہ سال کی عمر میں امام موصوف نے حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام وکیع کی کتابوں کو حفظ کر لیا تھا پھر اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ساتھ حج کیلئے گئے ،حج کے بعد بھائی تو بخارا واپس آگئے اور امام موصوف نے حج سے فراغت کے بعد دو سال مکہ معظمہ میں قیام فرمایا ،پھر اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ منورہ کا رُخ کیا اور وہاں نبی کریمﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھ کرچاندنی راتوں میں اپنی دو کتابیں”قضایاالصحابہؓ و التابعین“اور”التاریخ الکبیر“ تصنیف کیں۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحبؒ کے سفر کا آغاز ۰۱۲ھ سے ہوا انہوں نے سماعِ حدیث کیلئے دور دراز مقامات کا سفر کیا ،شام،مصر اور جزیرہ میں دوبار تشریف لے گئے اور حجاز مقدس میں چھ سال قیام فرمایا ،کوفہ و بغداد جو علماءکا مرکز تھاوہاں بار بار گئے اور بصرہ میں چار مرتبہ جانا ہوا اور بعض دفعہ پانچ پانچ سال تک قیام کیا ،ایّام حج میں مکہ معظمہ چلے جایا کرتے تھے۔حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ امام موصوف آٹھ مرتبہ بغداد آئے اور ہر مرتبہ امام احمد بن حنبلؒ ان کے بغداد میں قیام پر اِصرار کرتے تھے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود امام صاحبؒ نے امام احمد سے بہت کم روایت کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کو خود امام احمد کے مشائخ واساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا تھا اور اس لئے بھی کہ اخیر سفر میں امام صاحب نے روایت کرنا بہت کم کردیا تھا ۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے سب سے پہلے سماع حدیث ۵۰۲ھ میں شروع کیا اور اپنے شہر کے شیوخ سے استفادہ کرنے کے بعد ۰۱۲ ھ سے انہوں نے سفر کا آغاز کیا اس سلسلہ میں نیشاپور کا بھی سفر کیا تھا اور وہاں بھی کچھ دنوں مقیم رہے تھے۔

امام بخاری کے اساتذہ و شیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کا خود بیان ہے”کتبت عن الف وثمانین نفساً لیس فیہم الاصاحب حدیث“ (میں نے ایک ہزار اسّی آدمیوں سے حدیثیں لکھیں ،ان میں سب کے سب محدّث تھے) لیکن یہ مسلّم ہے کہ ان کوامام اسحق بن راہویہ اورمحدث علی بن المدینی سے سب سے زیادہ فیض پہنچا تھا۔

حافظ ابن حجر نے ان کے شیوخ واساتذہ کے پانچ طبقات قائم کئے ہیں ۔(۱)تبع تابعین،مثلاً محمد عبداللہ الانصاری ،ابوعاصم النبیل،(۲) تبع تابعین کے وہ معاصر جنہوں نے کسی ثقہ تابعی سے حدیث کی روایت نہیں کی جیسے آدم بن ایاس۔(۳)امام صاحبؒ کے اساتذہ کا یہ درمیانی طبقہ ہے اس میں ان لوگوں کا شمار ہے جن کو کبار تبع تابعین سے اخذ حدیث کا موقع ملا جیسے قتیبہ بن سعید،احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ۔(۴) معاصرین اور ہم عصر رفقاءجیسے محمد بن یحییٰ ذہلی،ابو خاتم رازی۔(۵)وہ معاصرین جو امام صاحب کے تلامذہ کی صف کے تھے لیکن ان سے بھی بعض مرتبہ انہوں نے روایت کی ہے جیسے عبداللہ بن حمادآملی وغیرہ۔

امام صاحبؒ کے تلامذہ اور مستفید ین کا حلقہ بھی نہایت وسیع تھا ،محدث فربری لکھتے ہیں کہ امام صاحبؒ سے براہ راست نوّے ہزار آدمیوں نے جامع صحیح کو سنا تھا ۔امام صاحبؒ کا حلقہ درس نہایت وسیع تھا دنیائے اسلام کے مختلف گوشوں کے آدمی اس میں شریک ہوتے تھے ان کی مجلس درس کبھی مسجد میں اور کبھی ان کے مکان میں منعقد ہوتی تھی ان کے شاگردوں میں بڑے پایہ کے علماءمحدثین تھے مثلاً حافظ ابو عیسیٰ ترمذی،ابو عبدالرحمن نسائی ،مسلم بن حجاج وغیرہ جو حدیث کے اَرکان ستہ کے جلیل القدر رکن ہیں ۔امام ابوزرعہ ،ابو حاتم ،ابن خزیمہ ،محمد بن نصر مروزی ،ابوعبداللہ الفربری وغیرہ بھی امام صاحب کے تلامذہ میں ہیں جو آگے چل کر خود بڑے پایہ کے محدث ہوئے اور ہزاروں لاکھوں لوگوں کو نفع پہنچایا۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام صاحبؒ کی مدح میں متاخرین کے اَقوال نقل کئے جائیں تو کاغذ اور روشنائی ختم ہو جائے:
”فذلک بحرلا ساحل لہ“
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

امام صاحب کے شیوخ ومعاصرین سب ان کے کمالات کے معترف تھے ایک مرتبہ عمرو بن زرارہ اور محمد بن رافع امام بخاری سے حدیث کے ایک مسئلے سے متعلق مختلف سوالات کے جواب حاصل کرنے کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو حاضرین مجلس سے مخاطب ہو کر کہا:”ابوعبداللہ افقہ مناواعلم وابصر“ یعنی امام بخاری ہم سے بڑے فقیہ ،بڑے عالم اور بابصیرت انسان ہیں۔امام اسحق بن راہویہ جو امام صاحب کے استاذ تھے انہوں نے فرمایا”ھو ابصر منی“کہ یہ مجھ سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں حالانکہ اس وقت امام صاحب نوخیز نوجوان تھے،امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ اسانیدوعلل میں امام بخاریؒ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا۔ امام مسلمؒ نے امام بخاریؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ شہادت دی ”اشہد انہ لیس فی الدنیا مثلک“ یعنی اس وقت کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ اس آسمان کے نیچے امام بخاری سے بڑھ کر میں نے کسی کو عالمِ حدیث نہیں دیکھا۔ایسے ہی اصحاب فضل وکمال کے متعلق کہا جاتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

امام بخاری نے ”صحیح بخاری “ کے علاوہ بھی متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں ،ان کی اجمالی فہرست یہ ہے:الادب المفرد(اس کتاب میںاسلامی اخلاق وآداب اور معاشرت ومعاملات کے موضوع پر احادیث کا بہت اچھا اورآسان مواد جمع فرمادیا ہے )۔التاریخ الکبیر،التاریخ الاوسط ،التاریخ الصغیر۔خلق افعال العباد،جزءرفع الیدین ، قراة خلف الامام ،برالوالدین ،کتاب الضعفاء،الجامع الکبیر،التفسیر الکبیر ،کتاب الاشربہ ،کتاب الہبہ ،کتاب المبسوط ،کتاب الکنی ،کتاب العلل ،کتاب الفوائد ،کتاب المناقب ،اسامی الصحابہ ،کتاب الوحدان ،قضایاالصحابہؓ ۔

آپ کی مشہور کتاب ”بخاری شریف “ کا پورا اصل عربی نام یوں ہے:”الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ“اہل علم نے علم حدیث کو مختلف موضوعات کے لحاط سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ،اس طرح جو کتاب ان آٹھوں ابواب سے متعلقہ احادیث پر مشتمل ہو اسے ”الجامع“ کہتے ہیں اور جس کتاب میں مستقل طور پر صحیح احادیث ذکر کرنے کا اہتمام کیا گیا ہو اسے ”الصحیح “ کہتے ہیں اور جس میں احادیث کی سند کو رسول اللہ ﷺ تک متصل کیا گیا ہو اسے ”المسند“ کہتے ہیں ۔چونکہ بخاری شریف میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں اس لیے اس کے نام میں یہ تین لفظ لائے ہیں۔اس کتاب کی تصنیف میں امام صاحب کے سولہ سال خرچ ہوئے ہیں اور تین مرتبہ اس میں کانٹ چھانٹ کی اور اچھی طرح چھان پھٹک کر اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دی ۔خود امام بخاریؒ کابیان ہے کہ میں نے اس کتاب کو مسجد حرام مکہ مکرمہ میں تصنیف کیا اور ہر حدیث کودرج کرنے سے اللہ تبارک وتعالٰی سے استخارہ کرکے دورکعت نماز پڑھتا تھا اور جب اس کی صحت پر پوری طرح انشراح ہوجاتا تھااس وقت حدیث کو کتاب میں جگہ دیتا تھا۔اس کتاب کی تصنیف وتالیف میں جب اس درجہ کی احتیاط اور تقویٰ سے کام لیا گیا تھا تو اللہ تعالٰی نے اسے شرف قبولیت بھی ایسانرالا ہی عطاءفرمایا ہے کہ آج یہ مقولہ زبان زد عام ہے کہ کتاب اللہ قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب بخاری شریف ہے ۔اس کتاب میں مکرر احادیث ملا کر کل تعداد 7275بنتی ہے اور اگر مکرر احادیث کو شمار نہ کیا جائے تو کل تعداد4000بنتی ہے ۔جبکہ بعض علماءنے اس سے کچھ کم وبیش اعداد بھی بیان کیئے ہیں لیکن اصل دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے کس محنت سے اتنا عظیم ذخیرہ امت کو فراہم کیا ہے ۔

اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کو جس طرح عزت واحترام سے خوب نوازتے ہیں اسی طرح آزمائشوں سے بھی گزاراجاتا ہے تاکہ ان کے درجات میں زیادہ اضافہ ہو ۔یہ آزمائشیں انبیا علیہم السلام کو بھی سہنی پڑیں اور پھر جو شخص جس قدر انبیا کے راسے پر چلنے والا ہو اسے آزمائشوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔امام بخاری نے بی جہاں اپنے استقبال کیلئے ہزاروں لاکھوں مجمعے کو تڑپتے ہوئے دیکھا، وہیں کئی مرتبہ ایسا وقت بھی آیاکہ چند ایک کے سواسب آپ کا ساتھ چھوڑ گئے ۔وفات سے کچھ عرصہ پہلے ایک مرتبہ والی بخارا کسی مسئلے پر آپ سے برہم ہوگیا اور آپ کو بخارا سے نکل جانے کا حکم دیدیا، جب سمر قندوالوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی لیکن وہاں کے لوگوں میں بھی اختلاف پیدا ہوگیا تب آپ مجبوراً اپنے نانہال خرتنگ چلے گئے جو بخارا سے تھوڑے فاصلے پر ایک گاؤںتھا، پھر رمضان المبارک کا مہینہ گزار کر شوال میں سمر قند جا رہے تھے کہ راستہ میں دفعتاً پیام اجل آگیا اور ۶۵۲ ھ میں باسٹھ سال کی عمر میں حدیث رسولﷺ کا یہ آفتاب تاباں غروب ہوگیا۔لیکن آپ کی کتاب صحیح بخاری شریف اور دیگر کتب کی بدولت آپ کا نام آج بھی تاریخ اسلام میں جگمگا رہا ہے ۔اور جسے وقت کے حاکم نے بخارا سے نکالا تھا آج سب کے دلوں میں اُس درویش صفت صاحب علم محدث کی یادوں کے چراغ روشن ہیں جبکہ اُس حاکم وقت کوجاننے والا کوئی نہیں ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344130 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.