22 مئی 1974ء کے ایک روشن دن کو نشتر میڈیکل کالج کے
تقریبا 100 طلباء شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے چناب ایکسپریس کے ذریعے
ملتان سے پشاور جا رہے تھے، طلباء نے اپنے لیے ٹرین کی ایک الگ بوگی بک
کروا رکھی تھی، ھنستے کھیلتے چہکتے مسکراتے طلباء زندگی کا بھرپور لطف
اٹھاتے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے کہ گاڑی چناب نگر (ربوہ) ریلوے
اسٹیشن پر حسب معمول رکی تو چند قادیانی نوجوان ان کی بوگی میں داخل ہوئے
ان کے ہاتھوں میں مرزائی لٹریچر کے اوراق تھے جو کہ وہ مسافروں میں تقسیم
کرتے پھر رہے تھے، مسلمان طلباء نے جب سرعام اپنےآقا صلی اللہ علیہ وسلم کی
ختم نبوت پر ڈاکہ پڑتے دیکھا تو ان کی غیرت ایمانی جاگ اٹھی اور پھر چناب
نگر (ربوہ) کا ریلوے اسٹیشن تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد ، مرزائیت مردہ
باد کے نعروں سے گونج اٹھا، طلباء کے ان نعروں نے " قصر مرزائیت "میں طوفان
برپا کر دیا، قادیانی خلیفہ مرزا ناصر جو کہ اس وقت ربوہ کا مطلق العنان
بادشاہ بن چکا تھا مرزا ناصر نے پولیس اور وزارتیں تشکیل دے رکھیں تھیں یہ
کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے علاقے کی حدود میں اس کے خلاف نعرے لگ جائیں۔
مرزائی ذہن اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ان طلباء سے بدلا لینے کے لیے غور و فکر
کرنے لگے، 29 مئی 1974ء کی شام کو طلباء اپنے ٹرپ سے واپس آ رہے تھے کہ
ربوہ سے پہلے نشتر آباد ریلوے اسٹیشن کے ماسٹر نے طلباء کی ٹرین پر نشان
لگا کر ربوہ میں اطلاع کردی۔ جوں ہی ٹرین ربوہ کے اسٹیشن میں داخل ہوئی ۔
وہاں ایک ھنگامہ بپا تھا، پانچ ھزار سے زیادہ قادیانی غنڈے پستولوں بندوقوں
خنجروں اور چھریوں سے مسلح کھڑے تھے۔ جونہی ٹرین نے اسٹاپ کیا قادیانی
خونخوار درندے زہریلے سانپ کی طرح ٹرین پر لپک پڑے طلباء نے دروازے اور
کھڑکیاں بند کر دیں لیکن قادیانی دروازے توڑ کر ان طلباء کو باہر گھسیٹتے
لے آئے۔ طلباء پر وحشیانہ تشدد کیا گیا، ان کو خون میں لت پت کر دیا گیا،
طلباء کا قیمتی مال و متاع بھی چرا لیا گیا، پھٹے کپڑوں اور خون میں لتھڑے
جسم کو لے کر جب ٹرین ربوہ اسٹیشن سے دوبارہ چلی تو قادیانی مرزائیت کے
نعرے لگا رہے تھے اس سے قبل کہ ٹرین واپس ملتان پہنچتی قادیانیوں کی اس
وحشیانہ کاروائی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
( 29 مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کے مقدس خون نے ختم نبوت کی
گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آج آئین پاکستان کا حصہ ہے۔
یہ 1974 کی تحریک ختم نبوت کا آغاز تھا۔ 29 مئی کو عقیدہ ختم نبوت کے لئے
طلباء کا مقدس خون بہا اور 7 ستمبر 1974 کو عقیدہ ختم نبوت پاکستان کا
قانون بن گیا)۔
فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر ھزاروں مسلمان موجود تھے۔ مجلس احرار کے رھنماء
مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمود طلباء کے لیے چشم براہ تھے، پولیس اور
قانون نافذ کرنے ادارے بھی موجود تھے طلباء کی اجڑی حالت دیکھ کر لوگ رونے
لگے، پورا اسٹیشن ختم نبوت کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔
مولانا تاج محمود اسٹیشن کی دیوار پر کھڑے ہو گئے اور طلباء سے مخاطب ہو کر
کہا:
"اے میرے نونہالان ختم نبوت !! میرے بیٹو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آپ کے
خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا آپ حضرات اطمینان رکھیں انشاء
اللہ آپ کے خون کے قطرے قادیانیت کی موت کے پروانے لکھیں گے" ۔
طلباء فیصل آباد سے روانہ ہو گئے جہاں بھی ٹرین رکتی ھزاروں فدائیاں ختم
نبوت ان طلباء کے استقبال کے لیے موجود ہوتے ملتان میں بھی مجلس علماء کے
اکابر موجود تھے، اخبارات کے نمائندوں نے جب مولانا تاج محمود سے آئندہ کا
لائحہ عمل پوچھا تو مولانا نے کہا شام کو پانچ بجے الخیام ہوٹل میں پریس
کانفرنس میں اعلان کریں گے، شام کو مولانا محمود نے مولانا محمد یوسف بنوری
کے حکم کے تحت تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
تحریک کا اعلان ہوتے ہیں لوگ باہر نکل پڑے، پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو
گئے، طلباء اساتذہ بزرگ سب کے سب اس تحریک میں شامل تھے، قادیانیوں کا پورے
ملک میں سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا، کوئی مسلمان قادیانی دکاندار سے
کچھ نہ خریدتا نہ کسی قادیانی کو کچھ بیچتا تھا، پورے ملک میں قادیانیوں پر
زمین تنگ ہو گئی، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، گرفتاریاں
شروع کر دی گئیں، مساجد میں آنسو گیس کے شیل مارے گئے، فدائیان ختم نبوت کو
بھیڑ بکریوں کی طرح دھکیل دھکیل کر کنٹینروں اور ٹرکوں میں بھر کر جیل
پہنچایا گیا، احتجاج میں دن بدن شدت آتی جا رہی تھی، آغا شورش کاشمیری کی
تحریک پر مولانا محمد یوسف بنوری کو مجلس عمل کا مرکزی کنوینیر مقرر کر دیا
گیا۔
یہ تھا 1974 کی تحریک ختم نبوت کا آغاز جو مختصر انداز سے تاریخ کے آئینے
میں پیش ہے :
22 مئی 1974ء کو طلبہ کے وفد کی چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پرقادیانیوں سے
توتکار ہوئی۔
29 مئی 1974 کو بدلہ لینے کے لیے قادیانیوں نے چناب نگر (ربوہ) اسٹیشن پر
طلبہ پر قاتلانہ و سفاکانہ حملہ کیا۔
30 مئی 1974 کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔
31 مئی 1974 کو اس سانحے کی تحقیقات کے لیے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں
آیا۔
3 جون 1974 کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔
9 جون 1974 کو مجلس عمل کا کنوینیئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوری
کو مقرر کیا گیا۔
13 جون 1974 کووزیر اعظم نے نشری تقریر میں بجٹ کے بعد مسئلہ قومی اسمبلی
کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔
14 جون 1974 کو ملک گیر ہڑتال ہوئی۔
16 جون 1974 کو مجلس عمل کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوری
کوامیر اور مولانا محمود رضوی کو سیکرٹری منتخب کیا گیا۔
30 جون 1974 کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کے
لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔
24 جولائی 1974 کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہو
گا وہ ہمیں منظور ہو گا۔
5 اگست سے 23 اگست 1974 تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزا ناصر پر قومی
اسمبلی میں جرح ہوئی۔
20 اگست 1974 کو صمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر
اعلیٰ کو پیش کی۔
22 اگست 1974 کو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔
24 اگست 1974 کو وزیر اعظم نے فیصلہ کے لیے 7 ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔
27، 28 اگست 1974 کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔
یکم ستمبر 1974 کو لاہور شاہی مسجد میں ملک گیر ختم نبوت کانفرنس منعقد
ہوئی۔
5 ، 6 ستمبر 1974 کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور
مرزائیوں پر جرح کا خلاصہ پیش کیا۔
6 ستمبر 1974 کو آل پارٹیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی راولپنڈی میں ختم نبوت
کانفرنس، وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ۔
اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس
بلائے اور 96 گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔ تمام مسالک کی مذہبی و سیاسی
قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا۔ خصوصاً مفکر اسلام مولانا مفتی محمود اور
آپ کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا، مولانا سید محمد یوسف
بنوری، مولانا محمد حیات، مولانا عبدالرحیم اشعر، مولانا تاج محمود، مولانا
محمد شریف جالندھری رحمہم اللہ جیسے اکابر نے دن رات ایک کر کے قادیانی کے
مذہبی و سیاسی عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔
اس محنت میں قادیانیوں کی مذہبی حصے کی ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی
(سابق جسٹس سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت ) نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب
مولانا سمیع الحق ( سابق ممبر سینٹ آف پاکستان) نے اپنے ہاتھوں سے کی۔
7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری
گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا، اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق
کا اضافہ کیا جس میں یہ طے کیا کہ ’’ ہر فرد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے
مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔ ‘‘
“A person who does not believe in the absolute and unqualified finality
of The Prophethood of Muhammad (Peace be upon him), the last of the
Prophets or claims to be a Prophet, in any sense of the word or of any
description whatsoever, after Muhammad (Peace be upon him), or
recognizes such a claimant as a Prophet or religious reformer, is not a
Muslim for the purposes of the Constitution or law.”
مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا۔ ان کے بعد مفکر
اسلام مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اٹھے اور
بل کی مکمل تائید کی اور اس اقدام پر وزیر اعظم اور ارکان حزب اقتدار کو
خراج تحسین پیش کیا۔ تقریبا ً پانچ بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق
علی نے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ بھٹو صاحب
نے آدھ گھنٹے کے لگ بھگ تقریر کی اس کے بعد بل کی ووٹنگ کا مرحلہ شروع
ہوا۔ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 130 ووٹ آئے اور
قادیانیوں کی حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا۔ چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو
نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کے پیش کردہ بل کو شام 5 بج
کر 52 منٹ پر منظور کیا۔ مرزائیوں کے دونوں گروہ (قادیانی، لاہوری) کو
آئینی طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
7 ستمبر 1974ء شام 30: 7 بجے سینٹ کا اجلاس ہوا، مرکزی وزیر قانون جناب
عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ بل سینٹ میں پیش کیا۔ ایوان
میں دوبار رائے شماری ہوئی۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی سارے ووٹ
مرزائیوں کے خلاف آئے اور ایک ووٹ بھی ان کے حق میں نہ آیا۔
بالآخر 7 ستمبر 1974 کو رات 8:00 بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ
مرزائیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے
دیا ہے۔
7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی نے فیصلے کا اعلان کیا کہ مرزاقادیانی کے
ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیں۔
90 دن کی شب و روز مسلسل محنت و کاوش کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عہد
اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے
عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرارداد کو شام 5 بج کر 52 منٹ پر منظور
کیا۔
مرزائیوں کے دونوں گروہ (قادیانی، لاہوری) کو آئینی طور پر غیرمسلم اقلیت
قرار دیا گیا۔
قادیانیت کے کفر کا اعلان ہوتے ہی پوری امت مسلمہ جھوم اٹھی، اراکین اسمبلی
گلے مل رہے تھے، اکابرین کی آنکھوں سے خوشی کے مارے آنسو رواں تھے اور وہ
سجدوں میں پڑے رب کا شکر ادا کر رہے تھے، ہر دل جھوم اٹھا ہر دماغ مہک اٹھا
گلیاں بازار شہر تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، فرط
جذبات سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مجاہدین ختم نبوت کی قبروں پر
پھول بچھائے جا رہے تھے ۔
1953 کے دس ھزار شہداء کا خون رنگ لے آیا تھا وہ جنہوں نے سنگینوں پر چڑھ
کر ختم نبوت کے نعرے لگائے تھے، وہ جنہیں پابند سلاسل کیا گیا، وہ مجاہدین
جنہوں نے اپنا شباب کے جوان خون کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و
ناموس پر قربان کر دیا جنہوں نے اپنے خون سے سڑکوں کو لال کر دیا تھا جنہیں
گھسیٹا گیا مارا گیا آج ان کی روحیں مسکرا رہی تھیں، وہیں کچھ لوگ امیر
شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قبر پر کھڑے تھے بخاری آج دنیا میں نہیں
تھا لیکن اس کا مشن پورا ہو گیا تھا بخاری کے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی
ختم نبوت کی رداء کو چوری کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔
آئیے ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیاں ختم نبوت کے تحفظ میں گزار دیں گے
ہم دنیا کے ہر ملک سے منوائیں گے کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق اور
واسطہ نہیں ہے آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم پاکستان میں قانون ختم نبوت کی
حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازیاں لڑائیں گے لیکن اس قانون کو تبدیل کرنے
نہیں دیں گے۔
انشاء اللہ !
سلام ان پر جنہوں نے سنت سجاد زندہ کی
سلام ان پر جنہوں نے کربلا کی یاد تازہ کی
سلام ان پر جن کی غیرت ایمان تھی زندہ
سلام ان پر قیامت تک ہے جن کا نام پائندہ
|