توحید کے دَرجات و دَرکات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب {{{{{ سُورَةُالنمل ، اٰیت 60 تا 66 }}}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
امن
خلق السمٰوٰت
والارض وانزل لکم
من السماء ماء فانبتنا بهٖ
حدائق ذات بھجة ماکان لکم
ان تنبتوا شجرھا ءالٰه مع اللہ بل
ھم قوم یعدلون 60 امن جعل الارض
قرارا وجعل خلٰلھا انھٰرا وجعل لھا رواسی
وجعل بین البحرین حاجزا ءالٰه مع اللہ بل اکثر
ھم لایعلمون 61 امن یجیب المظطر اذ دعاه ویکشف
السوء ویجعلکم خلفاء الارض ءالٰه مع اللہ قلیلا ماتذکرون
62 امن یھدیکم فی ظلمٰت البر والبحر ومن یرسل الریٰح بشرا
بین یدی رحمتهٖ ءالٰه مع اللہ تعٰلی اللہ عما یشرکون 63 امن یبدؤ
الخلق ثم یعیده ومن یرزقکم من السماء والارض ءالٰه مع اللہ قل ھاتوا
برھانکم ان کنتم صٰدقین 64 قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الّا
اللہ وما یشعرون ایان یبعثون 65 بل ادٰرک علھم فی الاٰخرة بل ھم فی شک
منھا بل ھم منھا عمون 66
اے ھمارے رسُول ! اگر مُنکرینِ توحید اللہ کے قانُون کا انکار اور اپنے خود ساختہ اِلٰہوں کے خود ساختہ فسون کا اقرار کرتے ہیں تو پھر آپ اِن سے یہ سوال کریں کہ تُمہارے اِن خود ساختہ خداؤں میں سے کون ھے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ھے ، کون ھے وہ جو آسمان سے بارش برساتا ھے ، کون ھے وہ جو اُس پانی سے زمین میں سبزہ و گُل اُگاتا ھے اور کون ھے وہ جو اِس سبزہ و گُل پر بہار لاتا ھے اور کون ھے وہ جو اُس بہار سے اَشجار و اَثمار بناتا ھے اور کون ھے وہ جو یہ گُلشن و گُلستاں سجاتا ھے ، یہ سب کُچھ تُمہارے بس میں تو بہر حال نہیں ھے تو پھر کیا اِس کے با وجُود بھی تُم یہی سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے اور یہ گُلشن و گُلستاں سجانے میں عالَم کے خالق کے ساتھ کوئی دُوسرا خالق بھی شریکِ تخلیق رہا ھے جوکہ نہیں رہا ھے لیکن یہ کَج دل لوگ ہیں کہ جو ہمیشہ ہی ایک کَج راستے پر چلتے ہیں ، آپ اِن مُنکرینِ توحید سے اُس پہلے سوال کے بعد یہ دُوسرا سوال بھی کریں کہ تُمہارے اِن مَن تراشیدہ خداؤں میں سے کون ھے وہ جس نے زمین کو تُمہارے رہنے کی جگہ بنایا ھے اور جس نے اِس زمین میں دریا رواں کیۓ ہیں اور جس نے اِس زمین کو ہلنے سے بچانے کے لیۓ اِس میں وزنی پہاڑ گاڑ دیۓ ہیں اور جس نے اِس زمین کی رگوں میں پانی کے ذخیرے ڈال دئے ہیں اور جس نے پانی کے اُن ذخیروں کے درمیان وہ پردے بھی حائل کردیۓ ہیں جو پانی کے اُن ذخیروں کو اُن کے مقررہ علاقوں کی مقررہ سمتوں سے اِدھر اُدھر نہیں جانے دیتے تو پھر کیا تُمہارے خیال میں خالق کی اِس تخلیق کی اِس تقسیم میں کوئی دُوسرا خالق بھی شریکِ تقسم رہا ھے جو کہ نہیں رہا ھے لیکن اِن لوگوں میں سے اکثر لوگ علمِ عالَم سے لاعلم ہیں ، آپ اِن پہلے دو سوالوں کے بعد اِن سے یہ تیسرا سوال بھی پُوچھ لیں کہ جب اِس عالَم کے کسی گوشے میں کوئی اپنے رَنجِ جاں سے بیقرار ہوجاتا ھے تو تُمہارے اِن خود تراشیدہ خداؤں میں سے کون ھے جو اُس بیقرار کے دل کو قرار دیتا ھے اور کون ھے جو اِس زمین میں تُم کو اپنے پہلوں کا جا نشین بناتا ھے ، کیا تُم یہ سمجھتے ہو کہ زمین کے خالق کی اِس عطا کاری میں تُمہارا کوئی دُوسرا عطا کار بھی شریکِ عطا رہا ھے جو کہ نہیں رہا ھے لیکن یہ بات بھی وہ بات ھے جس کو اِن لوگوں میں سے بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں ، آپ اِن لوگوں سے یہ تین سوال پُوچھنے کے بعد یہ چوتھا سوال بھی پُوچھ لیں کہ تُمہارے اِن خانہ ساز خداؤں میں سے کون ھے جو تُم کو زمین و سمندر کے گُپ اندھیروں میں چلنے پھرنے کے لیۓ روشنی دکھاتا ھے ، تُم پر بارش برسانے سے پہلے تُم پر رُوح پرور برساتی ہوائیں چلاتا ھے اور تُمہارے بے سکون دلوں کو سکون پُہنچاتا ھے ، کیا تُم واقعی یہ سمجھتے ہو کہ خالق کی مخلوق پر برسائی جانے والی اِن رحمتوں میں تُمہارا کوئی خانہ ساز خدا بھی شریکِ رحمت ہوتا ھے جو کہ نہیں ہوتا ھے کیونکہ خدا کی ذات تو اِن مُشرک لوگوں کی گھڑی ہوئی اِن شریک ہستیوں سے بہت بلند تر ذات ھے ، آپ اِن لوگوں سے اِن چار سوالوں کے بعد یہ پانچواں سوال بھی ضرور پُوچھ لیں کہ تُمہارے اِن خیالی خداؤں میں سے کون ھے جو عالَم میں جس مخلوق کی پہلی بار تخلیق کرتا ھے وہ اُس کے بعد بھی اُس کی بار بار تخلیق کرتا ھے اور کون ھے وہ جو ہر زمین و آسمان کی ہر مخلوق کو اُس کے اپنے اپنے زمین و آسمان سے رزق دیتا رہتا ھے ، کیا تُمہاری ایمان دارانہ راۓ یہی ھے کہ اُس خدا کے تخلیق و پرورش کے اِس عمل میں تُمہارا کوئی خیالی خدا بھی شریکِ تخلیق و پرورش ھے جوکہ نہیں ھے لیکن اگر تُم سَچے دل سے ایسا سمجھتے ہو تو بتاؤ کہ تُمہارے پاس اپنے اِس دعوے کی دلیل کیا ھے اور اے ھمارے رسُول ! آپ اِن سوال و جواب کے بعد اِن مُنکرینِ توحید پر یہ بات بھی واضح کر دیں کہ تُم لوگوں نے اپنے جن مُردہ بزرگوں اور اپنے جن مُردہ بتوں کو خدا کا شریک بنایا ہوا ھے اُن میں سے کوئی ایک بھی زمین و آسمان کے اِن تمام تخلیقی و تعمیری اور اِن تمام علمی و عملی امور میں خدا کا شریکِ علم اور شریکِ علمِ خلق نہیں رہا ھے ، وہ سب کے سب بزرگ خدا کے اِن سب کاموں سے لاعلم ہیں بلکہ اُن کو تو یہ بھی معلوم نہیں ھے کہ اِس وقت وہ کہاں پڑے ہوۓ ہیں اور کس وقت وہ کہاں سے اُٹھاۓ جائیں گے لیکن ھم تُم کو یہ حقیقت بھی بتاۓ دیتے ہیں کہ عالَمِ آخرت میں درجات و درکات کے جو دو مقامات ہیں اُن دو مقامات میں سے دُوسرا مقام اُنہی لوگوں کا مقام ھے اور اِس وقت وہ اپنے اُس آخری مقام کے بہت قریب پُہنچے ہوۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
موجُودہ 6 اٰیات سے پہلی 6 اٰیات کی آخری اٰیت میں مُنکرینِ توحید و رسالت سے یہ مَنطقی سوال کیا گیا تھا کہ اَب تک ھم نے تُم کو اللہ تعالٰی کی توحید کے حق ہونے اور مُشرکین کے شرک کے ناحق ہونے کے جو دلائل دیۓ ہیں اُن دلائل کو سامنے رکھ کر تُم خود ہی یہ فیصلہ کرلو کہ تُمہارے لیۓ اللہ تعالٰی کی اِس کتابِ مُبین میں بیان کیا گیا وہ نظریہ توحید اللہ تعالٰی کا قانُون اعلٰی ھے یا پھر تُمہارے اُن معبودانِ باطلہ کا فسُون اعلٰی ھے جس کے حصار میں تُم محصور ہوۓ ہوۓ ہو اور اَب موجُودہ اٰیات میں گزشتہ اٰیت کے اُسی عقلی و منطقی سوال کو بُنیاد بنا کر مُنکرینِ توحید سے مزید 5 عقلی و مَنطقی سوالات کیۓ گۓ ہیں اور نزولِ قُرآن کے زمانے میں چونکہ تمام مُنکرینِ توحید اللہ تعالٰی کی ذات پر ایمان و یقین رکھنے کے باوجُود بھی یہ گُم راہ کُن گمان رکھتے کہ وہ اپنے جن بزرگوں اور بتوں کی پُوجا کرتے ہیں اُن بزرگوں اور اُن بتوں کو بھی اللہ تعالٰی کا قُرب حاصل ھے اور وہ اپنے اسی قُربِ اِلٰہی کے باعث ھماری حاجتیں اور ھماری مَنتیں مُرادیں پُوری کر تے ہیں اِس لیۓ موجُودہ 6 اٰیات میں اُن سے جو 5 سوال کیۓ گۓ ہیں اُن میں یہ طرزِ استدلال اختیار کیا گیا ھے کہ جو ہستی اللہ تعالٰی کے ایک کام می شریکِ کار ہوسکتی ھے وہ ہستی عقلی و مَنطقی طور پر اللہ تعالٰی کے ہر ایک کام میں شریکِ کار ہوسکتی ھے اور جو ہستی اللہ تعالٰی کے کسی ایک کام میں اُس کی شریکِ عمل نہیں ہوسکتی تو وہ ہستی اللہ تعالٰی کے کسی کام میں بھی اُس کے ساتھ شریکِ عمل نہیں ہو سکتی لیکن تُم جو اپنے بزرگوں اور اپنے بتوں کو اپنا حاجت روا و مُشکل مانتے ہو تو تُمہارے اِس خیال کے مطابق تُمہارے جو بزرگ اور تُمہارے جو بُت تُمہاری حاجت روائی میں اللہ تعالٰی کے ساتھ شریکِ حاجات ہیں تو پھر تُمہارے وہ بزرگ اور تُمہارے وہ بُت اللہ تعالٰی کی تخلیق میں بھی شریکِ تخلیق ہونے چاہئیں لیکن اِس بات کو تو خود تُمہاری عقل بھی تسلیم نہیں کرتی تو پھر تُمہاری عقلِ تماشائی کا یہ کیا عقلی تماشا ھے کہ تُمہارے جو بزرگ اور تُمہارے جو بُت خود تُمہارے نزدیک بھی خدا کے اور تو کسی کام میں شریک نہیں ہو سکتے ہیں لیکن جہاں پر تُمہاری حاجت روائی اور مُشکل کشائی کا معاملہ آتا ھے تو وہ جَھٹ سے وہاں پر خدا کے ساتھ شریکِ حاجت و مُراد بنالیۓ جاتے ہیں جو ظاہر ھے کہ تُمہاری عقلِ پُر فتور ہی کا ایک عملی فتُور ھے ، عُلماۓ روایت نے اٰیاتِ بالا کا جو تحت الفظ ترجمہ کیا ھے وہ عربی قواعد کے مطابق درست ہونے کے باوجُود بھی عقلِ انسانی و فہمِ انسانی کے مطابق ایک ایسا غیر درست ترجمہ ھے جس میں کہیں خبر کا مُبتدا غائب ھے اور کہیں مُبتدا کی خبر غائب ھے اور اسی طرح اِس ترجمے میں نہ کسی صفت کا کوئی موصوف اپنے ٹھکانے پر نظر آتا ھے اور نہ ہی کسی موصوف کی کوئی صفت اپنی جگہ پر ملتی ھے جس سے یہ ترجمہ ایک غتر بُود ترجمہ بن جاتا ھے جس سے کسی کو اِس کا مقصد و مُدعا سمجھ نہیں آتا ھے اور اسی لیۓ ھم نے اِن اٰیات کا وہ مفہوم پیش کیا ھے جو اُس لفظی وسعت کا حامل ھے جس میں قُرآن کا مقصدی پیغام اپنے پُورے مقصدی جمال و کمال کے ساتھ موجُود ھے ، اٰیاتِ بالا میں مُنکرینِ توحید سے جو پہلا سوال کیا گیا ھے اور اُس سوال کے آخر میں اُس سوال کے عدمِ جواب کا جو سبب بتایا گیا ھے وہ سبب اُس قوم کی ناانصافی ھے ، مُنکرینِ توحید سے کیۓ گۓ دُوسرے سوال کے عدمِ جواب کی وجہ اُس قوم کی لاعلمی ظاہر کی گئی ھے جبکہ مُشرکین سے کیۓ گۓ تیسرے سوال کے عدمِ جواب کا باعث اُس مُشرک قوم کا حقائق کے ادراک سے بے ادراک ہونا بیان کیا گیا ھے اور اُس قوم سے چوتھے سوال کے عدمِ جواب کی علّت اُس کے ارتکابِ شرک کو قرار دیا گیا ھے اور پانچویں سوال کے عدمِ جواب کی وجہ اُن کا صدق سے اعراض ھے اور اِس سوال و جواب کا نتیجہِ کلام یہ ھے کہ جس قوم کے جسم و رُوح میں یہ پانچ اَمراض پیدا ہو جاتے ہیں وہ قوم ایک ایسی ناقابلِ اصلاح قوم ہوجاتی ھے کہ جس پر کسی بھی لَمحے خُدا کا کوئی ناگہانی عذاب آسکتا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِس سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت کا یہ روایتی ترجمہ فرمایا ھے کہ آخرت کے بارے میں اُن کا علم ختم ہو چکا ھے ، وہ اِس کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ اِس سے اندھے ہیں ، عُلماۓ روایت کے اِس ترجمے سے مُراد مُنکرینِ توحید کے وہ صوفی و بزرگ ہیں جن کو مُشرکین نے اپنا حاجت روا و مُشکل بنایا ہوا تھا مگر اِس ترجمے پر یہ سوال وارد ہوتا ھے کہ مُشرکین کے وہ صوفی و بزرگ آخرت کے بارے میں پہلے کب باعلم ہوۓ تھے جو اَب لاعلم ہوۓ ہیں ، پہلے کب شک سے آزاد ہوۓ تھے جو اَب شک میں مُبتلا ہوۓ ہیں اور پہلے کب اَندھے نہیں ہوۓ تھے جو اَب اندھے ہوۓ ہیں تاھم اِس اَمر کی علمی حقیقت یہ ھے کہ اٰیت ھٰذا میں جو لفظ "ادٰرک" آیا ھے اُس کی اَصل"درکة" ھے اور اِس لفظِ "درکة" کی یہ لُغوی معنویت سُورَةُالنساء کی اٰیت 145 میں وارد ہوئی ھے جس کے مطابق لفظِ "درکة" دراصل لفظِ "درجة" کے مقابلے میں آیا ھے جن کی جمع درکات و درجات ھے ، درجات کا معنٰی نیچے سے اُوپر کو جانا ہوتا ھے اور درکات کا معنٰی اُوپر سے نیچے کی طرف آنا ہوتا ھے ، قُرآنِ کریم میں درجات سے مُراد اہلِ ایمان کا نیچے سے اُوپر جاتے جاتے جنت میں جانا اور درکات سے مُراد اہلِ کفر و شرک کا نیچے جاتے جاتے جہنم کے نچلے درجے تک میں پُہنچ جانا ھے اور اِس کا مقصدی مفہوم یہ ھے کہ مُنکرینِ توحید اپنے جن بزرگوں کی علمی و اعتقادی طور پر پرستش کرتے ہیں وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے کے اُس کنارے پر پُنہچ چکے ہیں جہاں سے خُدا کا حُکم ملتے ہی وہ اُس جہنم میں دھکیل دیۓ جائیں گے جو جہنم اُن بد عملوں کی بدعملی کے لیۓ بنی ھے اور اللہ تعالٰی کے اُس حُکم کے نفاذ اور نفوذ سے پہلے تو وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اِس وقت وہ کہاں پر پڑے ہوۓ ہیں اور کس وقت وہاں سے یا کہاں اُٹھاۓ جائیں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 473346 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More