علم و اعتدال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خداوند تعالیٰ نے انسان کو امتحانات و آزمائشوں کے مرحلے یعنی دنیا کا مکین بنایا ، ان آزمائشوں سے انسان کی تربیت کرنا مقرر فرمایا، تاکہ انسان اپنے زنگ و کدورتوں کو دور کرکے اکمل بن جائے، کندن بن جائے، کھرا بن جائے۔خدا کا دست و بازو بننے کیلئے اہل بن جائے۔

کہتے ہیں خدا نے انسان کو نعمتیں عطا کیں اور بے شک عطا کیں مگر نعمت جہاں سکون اطمینان دیتی ہے وہیں اس کے ساتھ صاحبِ نعمت کو ذمہ دار بھی بناتی ہے۔

کہتے ہیں سختیاں، پریشانیاں بہت بری ہوتی ہیں یقینا ہوتی ہیں مگر یہ پریشانیاں بھی نعمت ہیں، جن سے نکلنے کیلئے انسان کوشش، جستجو، محنت ، جانفشانی کرتا ہے اور اپنے زنگ آلود وجود کو کھرچ کر چمک دار بنا دیتا ہے۔۔

شیطان بھی خدا نے خلق کیا، اس سے قطع نظر کے شیطان کی آخرت کیا ہوگی ، شیطان خود آزمائش کا ایک اہم وسیلہ بن گیا۔شیطان کے مقابلے پر خدا نے عقل کو قرار دیا۔ عقل کو خدائی نور، خدائی اسلحہ قرار دیا۔

ہر قسم کے فساد، تباہی، بربادی، گراوٹ، ذلالت، کمینگی، جھوٹ، بد دیانتی سے مقابلے کیلئے خدا نےاسی عقل کو طاقت دی۔

خدا نے جو بھی نعمت دی خواہ بظاہر وہ خوش کن ہو یا بظاہر پریشان کن، شیطان نے اُس کی نقل تیار کردی۔
اس دو نمبری سے نقصان یہ ہوا کہ لاعلم و غیر تجربہ کار انسان ایسی مشکل جو خدا نے انسان کو رگڑ کر کندن ہونے کیلئے پیدا کی تھی اُس کو انسان نے مصیبت سمجھا اور غم و اندوہ، فلاں فلاں کو قصور وار گرداننے، غصہ کرنے، فریاد کرنے میں ضائع کردیا۔

جب کہ تجربہ کار انسان یا تجربہ کاروں سے مشورہ کرنے والے، تاریخ کے تجربوں سے استفادے نے ہمت، مردانگی، شجاعت، توکل الی ٰ اللہ، صبر، وغیرہ کے ذریعے اگلے مرحلے میں قدم رکھ کر اس امتحان میں سرخرو ہوگیا اور اس مرحلے کا نتیجہ یا آخرت خوش اسلوبی سے نمٹا دیا۔

گناہوں، غلطیوں، کوتاہیوں کے نتائج یا آخرت کو خداوند تعالیٰ نے غم و اندوہ، پریشانی، کمزوری، تباہی، ذلت، موت وغیرہ سے مربوط کردیا۔

جبکہ نیکیوں، خوبیوں اور کمال کو اطمینان قلب، راحت، زندگی، خوشی سے مربوط کردیا۔

گناہ کا اور نیکی کا جذبہ ایک ہی ہے ، یعنی سکون کیلئے ایک ہی قلب ہے جو گناہ سے بھی بظاہر وہی تسکین لینے کی کوشش کرتا ہے جو حلال سے ملتی ہے۔ مگر گناہ غلط طریقہ کار کو کہتے ہیں جبکہ نیکی درست طریقہ کار کو کہتے ہیں۔ مثلا ً بھوک ختم کرنے کیلے کھانا خریدنا ہوتا ہے، اب غلط طریقہ کار یہ ہے کہ چوری کی جائے اور اس پیسے سے کھانا خریدا جائے، درست طریقہ کار یہ ہے کہ محنت کی جائے ، محنت کے بدلے پیسہ لیا جائے اور پھر اُس پیسے سے کھانا خرید کر کھایا جائے۔

لہذا کوئی بھی مادّی ضرورت یا روحانی جذبہ جو قلب میں پیدا ہوتا ہے وہ برا یا اچھا نہیں ہوتا، بلکہ اُس ضرورت و جذبہ، تڑپ، احساس کو پورا کرنے کا طریقہ کار یا تو غلط ہوتا ہے یا درست۔ غلط ہوتا ہے تو گناہ کہلاتا ہے، درست ہوتا ہے تو نیکی کہلاتا ہے۔

درست اور غلط کا معیار آسان لفظو ں میں یہ ہے کہ ہر وہ کام جس کو معاشرے کے عقلاء درست اور غلط تشخیص دیں، دوسرا یہ ہے کہ انسان کا خود کا ضمیر کسی کام کے غلط و درست کا فیصلہ کرے۔یہ دونوں ذرائع اگر ایک نکتہ پر اتحاد بنالیں تو وہی درست ہوتا ہے۔

غلطیاں جتنی زیادہ ہوتی ہیں ان سے نکلنے میں اتنا ہی وقت بھی لگتا ہے، یہی مرحلہ سختیوں، پریشانیوں اور مشکلات کا کہلاتا ہے۔ جتنا زیادہ انسان ذمہ دار ہوتا ہے اتنا ہی اُس کی غلطیوں کا تناسب کم ہوتا ہے اور اتنا ہی پریشانیاں کم ہوتی ہیں۔

ایک دفعہ پریشانی وقتی مسائل کی وجہ سے ہوتی ہے اور ایک دفعہ پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے، یعنی ایسی آزمائش جو زندگی بھر رہنے والی ہے لہذا وقتی پریشانی کو اہم سمجھنے کے بجائے زندگی بھر رہنے والی پریشانی کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن مسائل کو حل نہیں کرسکتے اُن کو چھوڑیں اور جو کرسکتے ہیں ان پر توجہ رکھیں۔ ہرکام اپنا نتیجہ دینے کیلئے خاص وقت کا متقاضی ہوتا ہے، خاص وسائل کا طلبگار ہوتا ہے، خاص کام کار کا محتاج ہوتا ہے، خاص جگہ کا رہین منت ہوتا ہے۔

زندگی کے دائرہ کو وسیع کرتے رہنا چاہیے یعنی ایک بلندی یا ایک مرحلے کے بعد دوسرے مرحلے کیلئے خود کوتیار کرنا چاہیے۔ ہر مرحلے کی ذمہ داری، چیلنجز مختلف ہوتے ہیں لہذا ہر لمحہ کوشش، جدوجہد، ہمت، مردانگی، مضبوط ارادے ، مثبت فکر اور تعمیری جذبے کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اعتدال اور راہِ وسط یا درمیانی راستہ بھی اُسی وقت احساس ادراک میں آئے گا جب تک اپنے پورے وجود کے ساتھ بھرپور جدوجہد نہ کرلی جائے۔ لہذا نیم دلی، نیم ارادے کے بجائے جس بھی کام کیلئے حرکت کریں بھرپور انداز میں کریں۔

لہذا اعتدال کا معیار ہدف و مقصد کی عظمت سے وابستہ ہے ہدف و مقصد جتنا عظیم ہوگا اور اس تک پہنچنے کی آرزو جس قدر قوت کی حامل ہوگی وہی چیز اعتدال کہلائے گی،

مقصد تک پہنچے میں کوتاہی کرنا جتنی دیر سے سمجھ میں آئے گا اتنی ہی مشقت زیادہ ہوگی، لہذا مشقت اٹھانا دوسرے کوتاہی کرنے والوں کی روش کے تناظر میں اعتدال ہے ۔ اعتدال کا معیار خدا کے بنائے ہوئے مقاصد اور اہداف تک پہنچنے میں نپے تلے اقدام ضروری ہے مگر استطاعت کی فراہمی اور وسائل کی جمع آوری تک شدید مشقت اور جدوجہد، رات دن ایک کردینا، سونے جاگنے کے اوقات قائم کرنا، کھانے پینے میں تکلفات رکھنا اعتدال سے باہر ہیں،

ابتدائی مراحل بظاہر اعتدال سے باہر نظر آتے ہیں مگر کوتاہیوں کے نتیجے میں جب بیداری پیدا ہورہی ہو تو عروج کے ابتدائی مراحل میں یہ بد اعتدالیاں ہی اعتدال کہلاتی ہیں۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.