#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنمل ، اٰیت 67 تا 82
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قال الذین
کفروا ءاذا کنا
ترابا و اٰباؤنا ائنا
لمخرجون 67 لقد
وعدنا ھٰذا نحن و اٰباؤنا
من قبل ان ھٰذا الّا اساطیر
الاولین 68 قل سیروا فی الارض
فانظروا کیف کان عاقبة المجرمین
69 ولا تحزن علیھم ولا تکن فی ضیق
مما یمکرون 70 ویقولون متٰی ھٰذا الوعد ان
کنتم صٰدقین 71 قل عسٰی ان یکون ردف لکم
بعض الذی تستعجلون 72 وان ربک لذو فضل علی
الناس ولٰکن اکثرھم لایشکرون 73 وان ربک لیعلم ما
تکن صدورھم وما یعلنون 74 ومامن غائبة فی السماء و
الارض الّا فی کتٰب مبین 75 ان ھٰذا القراٰن یقص علٰی بنی
اسرائیل اکثرالذین ھم فیه یختلفون 76 وانه لھدی و رحمة
للمؤمنین 77 ان ربک یقضی بینھم بحکمهٖ وھوالعزیز العلیم 78
فتوکل علی اللہ انک علی الحق المبین 79 انک لا تسمع الموتٰی ولا
تسمع الصم الدعاء اذا ولو مدبرین 80 وماانت بھٰدی العمی عن ضلٰلتھم
ان تسمع الّا من یؤمن باٰیٰتنا فھم مسلمون 81 واذا وقع القول علیھم اخرجنا
لھم دابة من الارض تکلمھم ان الناس کانوا باٰیٰتنا لا یوقنون 82
اے ھمارے رسُول ! اِس سے قبل بھی جب جب جن جن لوگوں نے یومِ حساب کا انکار
کیا تھا تو اُن سب نے بھی یہی کہا تھا کہ جب ھم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور
ھمارے باپ دادا بھی مر کر مٹی ہو چکے ہوں گے تو اُس وقت ھم کو دوبارہ زمین
سے زندہ کرکے زمین سے باہر نکالنے کی جو بات کی یا کہی جاتی ھے تو وہ نئے
زمانے میں پُرانے زمانے کا وہی پُرانا افسانہ ھے جو ھم سے پہلے ھمارے باپ
دادا کو بھی سنایا گیا ھے اور اُن کے بعد اَب ہمیں بھی سنایا جا رہا ھے ،
آپ اِن لوگوں سے کہیں کہ اگر تمہیں یومِ حساب کا انکار کرنے پر دُنیا و
عُقبٰی میں سزا ملنے کا یقین نہیں ھے تو زمین میں چل پھر کر اُن لوگوں کا
اَنجام دیکھ لو جو تُم سے پہلے تُمہاری ہی طرح اِس کا انکار کرکے اپنے
اَنجام کو پُہنچ چکے ہیں اور ایک نہ ایک دن تُم بھی اپنے اسی اَنجام کو
پُہنچ جاؤ گے اور یومِ حساب کے یہی مُنکر یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ تُمہارے
پاس مرنے کے بعد زندگی کی جو دلیل ھے وہ دلیل ہمیں بھی ضرور دکھائی جاۓ ،
آپ اِن لوگوں کو بتا دیں کہ تُم اپنے باپ دادا کی طرح اپنی جس سزاۓ موت کی
جلدی مچا رھے ہو کُچھ بعید نہیں ھے کہ اُس سزاۓ موت کا وہ لَمحہ تُمہارے
بھی قریب آچکا ہو لیکن یاد رکھو کہ جب تُم یہ بات کہتے ہو اور جس ارادے سے
یہ بات کہتے ہو تو ھم تُمہارے اُس ارادے کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں
کہ تُم کون سی بات اپنے لَب پر لا رھے ہو اور کون سی بات اپنے دل میں چھپا
رھے ہو کیونکہ زمین و آسمان کی کوئی بھی چیز نہیں ھے جو ھمارے سامنے ھماری
اِس کُھلی ہوئی کتاب میں کُھلی ہوئی موجُود نہیں ھے اور ہر تحقیق سے اِس
اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ قُرآن بنی اسرائیل کے ماضی کے بارے میں جو
اَحوالِ واقعی بیان کرتا ھے بنی اسرائیل اُن اَحوالِ واقعی سے اختلاف کرتے
ہیں حالانکہ وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ قُرآن ایمان و یقین رکھنے
والوں کے لیۓ اللہ کی طرف سے ایک کتابِ ھدایت و مہربانی ھے لیکن آپ ایک
سَچے دین کے سَچے داعی ہیں اِس لیۓ آپ اپنے اُس اللہ کی ذاتِ عالِم و غالب
پر بھروسا رکھیں جس نے اِن کے حساب کا دن آنے پر اِن کے ہر ایک اختلاف کا
ہر ایک فیصلہ سنانا ھے اور آپ اِن لوگوں کی باتوں سے آزُردہ دل بھی نہ ہوں
کیونکہ آپ مُردوں تک اپنی بات پُہنچانے اور بہروں کو اپنی پُکار سنانے کے
مُکلّف نہیں ہیں اور اندھوں کو بھی راستے پر لانے اور چلانے کے مُکلّف نہیں
ہیں ، آپ تو صرف اُن لوگوں کو اپنی بات سنا اور سمجھا سکتے ہیں جو ھماری
کتاب پر ایمان لاتے اور ھمارے اَحکام بجا لاتے ہیں ، اِس سے قبل جب حق کے
اِن مُنکروں پر ھمارے عذاب کا وقت آیا تھا تو ھم نے اپنے عذاب کی ایک
علامتی علامت کے طور پر اِن کے سامنے زمین پر ایک جان دار کو ظاہر کیا تھا
اور ھم نے اُس بولنے والے جان دار کی اِن بولنے والے جان داروں کے ساتھ بات
بھی کرائی تھی تاکہ یہ لوگ آنے والے اُس عذاب سے پہلے حق کی طرف لوٹ آئیں
اور آنے والے اُس ہولناک عذاب کی اُس ہولناکی کا سامنا کرنے سے بَچ جائیں
لیکن اِس طرح کے گُم راہ لوگ تو ایسی کُھلی کُھلی علامات دیکھنے کے بعد بھی
ہمیشہ بے یقین کے بے یقین ہی رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت میں ذکرِ مُوسٰی و سلیمان اور ذکرِ صالح و لُوط کے بعد توحید کا
جو ذکر ہوا ھے وہ اِس بات کی دلیل کے طور پر ہوا ھے کہ اِس سُورت میں اِن
اَنبیاۓ کرام کا جو ذکر آیا ھے وہ ذکر اسی توحید کی تعلیم و ترویج کے لیۓ
آیا ھے جس توحید کا اِس سُورت کی اِن اٰیات میں ذکر ہوا ھے اور پھر توحید
کے اس ذکر کے ضمن میں اِس سُورت کی اٰیت 64 میں اِس بات کا بھی ذکر ہوا ھے
کہ اِس جہان کا جو خالق اِس جہان میں اپنی جس مخلوق کو پہلی بار تخلیق کرتا
ھے وہ اپنی اُس مخلوق کو بار بار بھی تخلیق کرتا ھے اِس لیۓ اِس جہان میں
اُس خالقِ جہان کے نظامِ موت و حیات کے مطابق انسان پیدا ہونے کے بعد مرتے
بھی رہتے ہیں اور مرنے کے بعد پیدا بھی ہوتے رہتے ہیں ، اگر تُم لوگ خُدا
کے اِس نظامِ موت و حیات اور انسان کے اَنجام حیات کا انکار کرتے ہو تو تُم
اپنے انکار کے حق میں کوئی دل کو لگتی دلیل بھی پیش کرو کیونکہ جو بات خالق
نے خود بیان کی ھے وہ بذاتِ خود ایک ناقابلِ تردید دلیل ھے لیکن جو بات اِس
بات کے خلاف تُم کہہ رھے وہ بہر حال مُحتاجِ دلیل ھے اور چونکہ انسان اپنی
اِس خلافِ حق بات کے حق میں کبھی بھی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتا اِس لیۓ
اللہ تعالٰی نے اٰیاتِ بالا میں اپنے مقصد و مُدعا کے مطابق اپنی تنزیل کے
خود ہی مزید دلائل پیش کیۓ ہیں تا کہ اگر انسان کی تنزیل کی پہلی دلیل تک
ذہنی رسائی نہیں ہو سکی ھے تو وہ تنزیل کے اِن دُوسرے دلائل پر بھی غور
کرتا رھے تاکہ بار بار کے غور و فکر کے بعد وہ اپنی حیات و مقصدِ حیات کو
سمجھ کر اُس سیدھے راستے پر آجاۓ جس راستے کی اُن اَنبیاۓ کرام نے اپنے
اپنے زمانے میں تلقین کی ھے اور جس راستے پر چلنے کی اللہ تعالٰی کی یہ
آخری کتاب بھی ہر زمانے کے ہر انسان کو تلقین کر رہی ھے جس راستے پر چلنا
ہر انسان کی نجات کا باعث ھے اور چونکہ قُرآنِ کریم کا یہ مُدلّل بانیہ
اپنی جگہ پر ایک مُکمل بیانیہ ھے اِس لیۓ قُرآن کے اِس بیانیۓ پر ھم مزید
گفتگو کرنے کے بجاۓ اٰیاتِ بالا کی اُس آخری اٰیت کے اُس آخری مضمون پر نظر
ڈالتے ہیں جس مضمون میں" دَابةُالاَرض" کا وہ ذکر آیا ھے جس ذکر کو اہل
روایت نے نہ صرف یہ کہ آنے والی قیامت کے آنے کی ایک دلیل بنایا ہوا ھے
بلکہ اِس کے ساتھ اپنی کُچھ دیگر خیالی باتوں ظہُورِ دجال و نزولِ مھدی و
مسیح ، فضاۓ عالَم میں دُخان کا پھیلنا اور آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کی
بہت سی باتیں شامل کر کے قیامت سے پہلے ہی وہ قیامت برپا کی ہوئی ھے کہ جس
نے انسان کو یومِ قیامت کے احساسِ جواب دہی کے بجاۓ قیامت کی اِن نشانیوں
کے جال میں جکڑدیا ھے جن کی جو بھی حقیقت ھے وہ اِن بے چین راویوں کی
روایات سے بہر حال ایک مُختلف حقیقت ھے ، زیرِ حوالہ و بحث اٰیت میں"دَابة"
کا جو لفظ آیا ھے وہ اسمِ واحد ھے جس کا حاصل مصدر "داب" ھے اور
سُورَةُالاَنفال کی اٰیت 22 میں اِس اسمِ واحد کی جو جمع آئی ھے وہ "دواب"
ھے اور اِس کا لُغوی معنٰی سانپ کی طرح پیٹ کے بل پر رینگنا یا بچے کی طرح
ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے جسم کو گھسیٹ کر چلنا ھے لیکن دابة کا یہ لفظ
جسم کو گھسیٹ کر چلنے والے جان داروں کے لیۓ ہی خاص نہیں ھے بلکہ ہر زندہ
جان دار کے لیۓ عام ھے ، اہلِ عرب میں اہلِ عرب کی ایک معروف تمثیلِ کلام
ھے کہ { ھو اکذب من دَب و درج } یعنی فلاں آدمی زندہ اور مُردہ لوگوں میں
سب سے زیادہ جُھوٹا آدمی ھے ، قُرآنِ کریم میں "دابة" کا یہ اسمِ واحد اِس
سُورت کی اِس اٰیت کے علاوہ جن دیگر 13 اٰیات کے 13 مقامات پر آیا ھے اُن
13 مقامات میں پہلا مقام سُورَةُالبقرة کی اٰیت 164 ، دُوسرا مقام
سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 38 ، تیسرا مقام سُورَةُالھُود کی اٰیات 6 ، چوتھا
مقام سُورَةُالھُود کی اٰیت 56 ، پانچواں مقام سُورَةُالنحل کی اٰیت 49 ،
چھٹا مقام سُورَةُالنحل کی اٰیت 61 ، ساتواں مقام سُورَةُالنُور کی اٰیت 45
، آٹھواں مقام سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 60 ، نواں مقام سُورَہِ لُقمان کی
اٰیت 10 ، دسواں مقام سُورَہِ سبا کی اٰیت 14 ، گیارھواں مقام سُورَہِ فاطر
کی اٰیت 45 ، بارھواں مقام سُورہِ شُورٰی کی اٰیت 29 اور تیرھواں مقام
سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 4 ھے اور اِن 13 اٰیات کے اِن 13 مقامات میں سے کسی
ایک مقام پر بھی"دابة" کا معنٰی زمین سے اَچانک نکلنے اور پھر ساری زمین
میں گُھوم پھر کر انسانوں سے گفتگو کرنے والا کوئی حیوانِ ناقص مُراد نہیں
ھے بلکہ سُورَہِ سبا کی اٰیت 14 میں "دابة" کا جو اسمِ واحد آیا ھے اُس سے
خود عُلماۓ روایت و تفسیر نے بھی گُھن کا وہ کیڑا ہی مُراد لیا ھے جس نے
سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی چاٹ کر چَٹ کر دی تھی لیکن اپنی روایت کے
مطابق اُنہوں نے زمین سے اَچانک برآمد ہو کر انسانوں سے گفتگو کرنے والا
کوئی حیوانِ ناقص مُراد نہیں لیا ھے ، اٰیت ھٰذا کا پہلا لفظ "وقع" ھے جو
واحد مذکر غائب فعل ماضی معروف کا صیغہ ھے جو ماضی میں ماضی کے اُس ایک
واقعے کے وقوع پزیر ہونے کی اُس خبر کے طور پر لایا گیا ھے جو خبر زمانہِ
ماضی سے تعلق رکھتی ھے اور زمانہِ ماضی کی اُس خبر کے مطابق اِس اٰیت میں
جس واقعے کا ذکر کیا گیا ھے وہ واقعہ عھدِ ماضی میں گزر چکا ھے اور اُس
واقعے کا مضمون یہ ھے کہ جب ماضی کی اُس قوم نے ماضی میں اُن کے مُستقبل
میں اُن کے اعمالِ نیک و بد کی جانچ پرکھ اور جزا و سزا کا تعین کرنے والے
یومِ قیامت کا انکار کردیا تھا تو ھم نے اُن پر آنے والے عذاب کی ایک وقتی
علامت کے طور پر اُن کے سامنے ایک جان دار کو ظاہر کیا تھا جس جان دار نے
اُس قوم کے ساتھ بامقصد و بامعنی کلام بھی کیا تھا لیکن اُس بے یقین قوم نے
اُس کا بالکُل بھی یقین نہیں کیا تھا ، اِس واقعے میں ہر بات سے زیادہ
قابلِ غور بات یہ ھے کہ زمان و مکان کی جس زمانیت اور پھر اُس زمانیت کی جس
مکانیت میں جو بات کی جاتی ھے اُس بات میں اُس کلام کا وہ مُتکلم اپنے
زمانہِ حال میں حسبِ ضرورت اُس ماضی کے لیۓ ماضی کے وہ صیغے بھی استعمال
کرتا ھے جن میں وہ واقعہ رُونما ہوا ہوتا ھے اور اپنے حال کے مطابق اُس
زمانہِ حال کے وہ صیغے بھی استعمال کرتا ھے جس زمانہِ حال میں وہ گفتگو کر
رہا ہوتا ھے لیکن عُلماۓ روایت کو حسبِ روایت زبان و بیان کا یہ اُسلوبِ
کلام سمجھ نہیں آیا تو اُنہوں نے"اخرجنا" اور "تکلمھم" کے حالیہ صیغوں کو
مُستقبل سے جوڑ دیا ھے اور پھر ابنِ عمر کے حوالے سے وضع کی گئی ایک روایت
کا سہارا لے کر ماضی کے اِس واقعے کو پہلے مُستقبل کے ساتھ نَتھی کیا ھے
اور پھر قیامت کے ساتھ بھی نَتھی کر دیا ھے ورنہ حقیقت میں اِس واقعے کا
مُستقبل یا قیامت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ھے اور عُلماۓ روایت نے اِس
واقعے کو عھدِ حال کے جن صیغوں کی بنا پر مُستقبل کا مفہوم دے کر مُستقبل
کے ساتھ نَتھی کیا ھے اُس پر چونکہ خود اُن کو بھی اعتماد نہیں تھا اِس لیۓ
مولانا مودودی مرحوم نے اپنے ہی تاویل کے جال کو توڑنے کے لیۓ یہ توجیہ پیش
کی ھے کہ { یہ فقرہ کہ "لوگ ھماری اٰیات پر یقین نہیں کرتے تھے" یاتو اُس
جانور کے اپنے کلام کی نقل ھے یا اللہ تعالٰی کی طرف سے اُس کے کلام کی
حکایت } یعنی ہمیں "تفصیلا لکل شئی" کے دعوے کے ساتھ نازل ہونے والی یہ
کتاب یہ بھی نہیں بتاتی کہ یہ اللہ تعالٰی کا اپنا کلام ھے یا ایک جانور کا
کلام ھے لیکن خیر گزری کہ مولانا مرحوم اور دُوسرے اہلِ روایت نے اٰیت کے
آخری حصے کا جو ترجمہ کیا ھے وہ عھد ماضی کے ساتھ ہی مُتعلق ھے عھدِ
مُستقبل کے ساتھ مُعلق نہیں ھے ، اگر ھم چاہیں تو ماضی کے اُس جان دار کے
بارے میں کُچھ دیگر حوالوں سے بھی گفتگو کر سکتے ہیں لیکن جس جان دار کی
اللہ تعالٰی نے خود نشان دہی نہیں کی ھے تو ھمارے لیۓ بھی اُس جان دار کے
بارے میں اندازے قائم کرنے کے بجاۓ کفِ لسان ہی زیادہ مُناسب ھے !!
|