فنون لطیفہ کی عہد ساز شخصیت معین اختر

سورج ہوں زندگی کی دھمک چھوڑ جاﺅں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاﺅں گا
پاکستان کے صدارتی ایوارڈیافتہ اورستارہ امتیاز معین اختر آپ ۴۲ دسمبر ۰۵۱۹ءمیں پیدا ہوئے جبکہ آپ ۲۲ اپریل ۱۱۰۲ءکو ۰۶ سال کی عمر پاکر اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے (ان للہ و ان الیہ راجعون)۔آپ کئی عرصہ سے دل کے مرض میں مبتلا تھے، آپ نے ۶ ستمبر ۶۶۹۱ءکو کراچی ٹیلیویژن سینٹر سے باقائدہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا، آپ کو کئی زبانوں پر مکمل دسترس حاصل تھی جن میں انگریزی، اردو، پنجابی، بنگالی،سندھی، پشتو، گجراتی، میمنی شامل ہیں۔ معین اختر پاکستان کے نہایت قابل پڑھے لکھے فنکاروں میں شمار کیئے جاتے تھے ، آپ بین القوامی سطح پر خاص مقام رکھتے تھے، آپ کاا نداز مختلف اور جداگانہ تھا ، آپ نے بہت ہی کم وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر شائقینوں کے دل میں گھر بنالیا تھا۔ آپ اردو ادب ، شاعری کے فن سے بھی آراستہ تھے۔ آپ نے طنز و مزاح میں جو مقام پیدا کیا وہ ہمیشہ زندہ جاوید رہےگا۔ آپ کی آواز صاف اور بہت خوبصورت تھی اور آپ کا انداز ادائیگی اُس سے بھی کہیں زیادہ اعلیٰ تھا۔معین اختر نے اپنے کیریئر میں اسٹیج، ٹیلیویژن اور فلم میں ایک خاص مقام پیدا کیا جس کی مقبولیت وقت کے گزرنے کے ساتھ بھی کم نہ ہوئی۔آپ نے امریکا کی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ میں اردو ڈبنگ میں بھی کام کیا ۔ انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ پاکستان ٹیلیویژن کراچی سینٹ سے مختلف اسٹیج شو کیئے۔ اسٹیج شو میں معین اختر اورعمر شریف کی جوڑی بہت مقبول ثابت ہوئی۔ ان کے مشترکہ ڈراموں میں بکرا قسطوں پے، بڈھا گھر پے ہے نے ریکارڈ بزنس کیئے۔پاکستان ٹیلیویژن میڈیا کی تاریخ ہے کہ سب سے پہلے اگر کسی مرد فنکار نے عورت کا کردار ادا کیا تو اس میں معین اختر کا نام سر فہرست آتا ہے ، معین اختر کا ڈرامہ روزی نے سب کو حیرت میں ڈال دیا اور ناظرین یہی سمجھے کہ آیا یہ کوئی فیمیل آرٹسٹ نے پرفارم کیا ہے۔ معین اختر اپنے کردارکو اس قدر ڈوب کر ادا کرتے تھے کہ حقیقت کا گمان رہتا تھا کیونکہ وہ اپنے کام میں انتہائی مخلص و سنجیدہ ہوتے تھے۔ معین اختر نے بگڑتے ہوئے معاشرے اور حکومتی غلط پالیسیوں پر مزاح ہی مزاح میں مثبت تنقید بھی بہت کی تھیں ۔ انور مقصود اور معین اختر سے اے آر وائی ٹیلیویژن کے چیئرمین حاجی عبد الرﺅف کی ذاتی محبت اور لگاﺅ کی بناء پر ان فنکاروں نے اے آر وائی نیٹ ورک کیلئے ایک طنز و مزاح برائے مثبت تنقید کا پروگرام شروع کیا جس کا نام لوز ٹاک تھا جس نے پورے نیٹ ورک میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی اور اس کے ۰۰۴ پروگرام آن ایئر ہوئے ۔اے آر وائی نیٹ ورک کے چیئر مین حاجی عبد الرﺅف نے معین اختر اور انور مقصود کو فن کار کی حیثیت نہیں دی بلکہ انہیں اپنی فیملی کا ایک حصہ سمجھا یہی وجہ ہے کہ ان دونوں نے بھی ۰۰۰۲ءسے اے آر وائی نیٹ ورک کے ساتھ جڑ گئے اور آخری دم تک ساتھ رہے ،لوز ٹاک پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد طنز و مزاح کا پروگرام ہے جس کے ۰۰۴ پروگرام نشر ہوئے، معین اختر نے لوز ٹاک کو اپنی زندگی کے آخری وقت تک کام کیا ۔ آج معین اختر ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے بیش بہا پروگرام ان کی یاد دلاتے ہیں گے ، لیکن ان کی جگہ کوئی پر نہیں کرسکتا ۔ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 247035 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.