وزیرِ تعلیم صاحب !مہربانی کرو

ٔٔ٭مجبوری من پسند وجوہات اور دلائل نکال کر ایڈجسٹ کرہی دیتی ہے۔۔
٭ایک نسل کے بگڑنے کے نتائج اگلی دس نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔۔

لاک ڈاؤن کے فوراً بعد جیسے ہی تعلیمی ادارے کھلتے ہیں تو پہلے ہی دن ،پچاس فیصد حاضری کو مدِنظر رکھتے ہوئے ،اِس کلاس میں ٹوٹل اٹھارہ طالب علم ہیں جن میں سے ۹ طالب علم سکول دیر سے آئے جس کی وجہ رات کو دیر تک جاگنے سے صبح جلدی نہ جاگنا ہے۔ ۔۔ان اٹھارہ میں سے کسی کا بھی یونی فارم مکمل نہیں ہے ۔۔۔کسی نے سپورٹس شوز پہنے ہوئے تو کسی نے سینڈل ،کسی کے بال بڑے ہیں تو کسی کے ناخن ،کسی کے پاس ٹائی نہیں ہے تو کسی کے پاس سکول بیج نہیں ۔۔۔مطلب نہ ڈسپلن ہے اور نہ ہی سکول آنے کاکوئی طریقہ کار ۔۔۔خیر کلاسز کا آغاز ہوا۔۔۔درمیان کے پیریڈز میں کلاسز میں جانے کا اتفاق ہوا تو اس کلاس کے اٹھارہ طالب علموں میں سے چار اپنے سر کو بینچ پر گرائے نیم مدہوشی کے عالم میں نیند پوری کررہے ۔۔۔سامنے بیٹھے طالب علم تھکان سے چُورایسے ٹانگیں کھول کر بیٹھے ہوئے کہ جیسے ابھی میراتھن ریس کے ختم ہونے پر انعامات کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔ان کو یہ خبر ہی نہیں کہ سامنے کوئی استانی پڑا رہی ہے یا استاد ۔۔۔ٹانگیں کھولے نہایت شرم باختہ انداز سے بیٹھے ہوئے ٹیچر کو ایسے گھور رہے کہ جیسے کوئی انجان سی زبان میں کوئی انجان سا بندہ ؍ بندی انھیں کچھ سمجھا رہا ہو۔۔۔دوران کلاس دوران لیکچرکچھ طالب علم کھانے میں مصروف اور کچھ ایک دوطالب علم چست بیٹھے استاد کودیکھ اور سن رہے ہیں۔۔۔اتنے میں پرنسپل صاحب کااس کلاس روم میں نزول ہوا تو استاداور بچے حیران کہ پرنسپل صاحب آج راؤنڈ پر کیوں ہیں تو پتا چلا کہ آج موسم ذرا خوش گوار ہے تو پرنسپل صاحب کو اپنے کمرے میں لگے اے سی کی ہوا سے اکتاہٹ ہوئی انھوں نے سوچا کہ چلوکلاسز کا راؤنڈ ہی لے آتے ہیں ۔۔۔پرنسپل صاحب نے کلاس میں گھستے ہی طالب علموں کو دیکھا چھے کے ماسک مونہہ سے نیچے تھے تو ان کو ماسک لگوائے ۔۔۔سوئے ہوئے بچوں کو ڈانٹا اور ٹیچر کی طرف دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں آرڈر دیا کہ ان کے سوشل ڈسٹینس کا خیال رکھیں اور کلاس کو تھوڑا ڈسپلن میں لائیں نہ یہ کلاس لگ رہی ہے اورنہ آپ ٹیچر۔۔۔ٹیچر طالب علموں کے سامنے ہونے والی اس بے عزتی پر شرمندہ ہوا مگر کیا کرے اس کے پاس اور نوکری تو ہے نہیں اور نہ ہی کہیں اسے نوکری ملنی ہے کہ کرونا نے توسبھی کو بھوکا مارنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔۔۔لہٰذا اس نے طالب علموں کے سامنے ہوتی بے عزتی کو برداشت کیا اور طالب علموں کو ڈانٹ ڈپٹ کر پڑھانا شروع کردیا کہ بیوی بچوں سمیت بھوکا مرنے سے بہتر ہے کہ پرنسپل صاحب کی بے عزتی برداشت کر لی جائے ۔۔۔ویسے بھی کون سا روزروز موسم اچھا ہونا ہے اور موسم اچھا نہیں ہوگا تو کون سا پرنسپل نے اپنے اے سی والے کمرے سے باہر آکر راؤنڈ لگانا ہے اس لیے اس بے عزتی کو ہوا میں اڑا یااور پڑھایا ۔۔۔مجبوری من پسند وجوہات اور دلائل نکال کر ایڈجسٹ کرہی دیتی ہے۔

یہ لاک ڈاؤن کے بعد کھلنے والے سکول کی ایک کلاس کا حال ہے اور یقینا مختلف سکولوں میں مختلف کلاسز کا یہی حال ہوگااور اس سے برابھی ۔۔۔خیر ہفتہ دس دن بعد کچھ حالات بہتر ہوئے۔۔۔ طالب علموں کے معمولات بھی کچھ بہتر ہوئے ۔۔۔طالب علموں کاڈسپلن بھی کچھ بہتر ہوا ۔۔۔طالب علموں کاکلاس میں بیٹھنے ،توجہ دینے اور بولنے کا طریقہ کار بھی کچھ مناسب ہوا کہ اچانک وزیر تعلیم پنجاب جناب ڈاکٹر مراد راس صاحب کو کیا ہوا کہ ایک دم پھر سے سارے تعلیمی ادارے بندکرنے کا حکم نامہ صادر کر کے منظر عام سے غائب ہوگئے ۔۔۔وہاں محترم وزیر اعظم صاحب سمارٹ لاک ڈاؤن کے حق میں ہیں اور یہاں محترم وزیر تعلیم صاحب سارے تعلیمی ادارے بند کرواکر یہ سمجھا رہے کہ دیکھو وزیر اعظم صاحب اور وزیر تعلیم صاحب کی’’ کیمسٹری‘‘ ہی آپس میں نہیں مل رہی ہے ۔۔۔کوئی عجیب سا فیصلہ ہے نہ کوئی منطق ہے نہ دلیل ہے نہ وجہ ہے اور نہ ہی کوئی نتائج ۔۔۔ناک میں سٹرپ گھسوا گھسوا کر ۔۔۔بازو پر سوئیاں چبھوا چبھوا کر پھر بھی کرونا نے حملہ کرنا ہے تو تعلیمی اداروں پر ۔۔۔وہاں جلسے جلوس زور و شور سے ہورہے ہیں ۔۔۔بازار لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔شادی بیاہ اور باقی تقریبات میں بھی سیکڑوں لوگوں کی شرکت عروج پر ہے ۔۔۔ماسک اور سوشل ڈسٹینس کا رواج رسم بن چکا ہے۔۔۔مارکیٹیں رات گئے تک کھلی ہوئی ہیں ۔۔۔ہوٹلوں میں اسی طرح رش ہے ۔۔۔الیکشن کے اجتماعات اسی زور و شور سے جاری ہیں ۔۔۔سارے ایس او پیز پر عمل کرنے کے باوجود بھی کرونا پھیل رہا ہے تو ان تعلیمی اداروں کی وجہ سے کہ انھیں بند کر دواور ساتھ نیک خواہشات کے ساتھ پیغام لکھ دوکہ گھر رہیں محفوظ رہیں ۔

ایک سکول و کالج کے استاد کو کیا کیا مشکلات درپیش ہیں ،یہ نہ ڈاکٹر مراد راس صاحب کو سمجھ ہے اور نہ سکولز و کالجز کی اے سی میں بیٹھی ایڈمنسٹریشن کو ۔۔۔شاگرد کلاس میں چست نہیں تو استاد کا مسئلہ ۔۔۔شاگرد رات کو سویا نہیں تو کلاس میں مدہوش پڑا ہے تو استاد کا مسئلہ ۔۔۔شاگرد لیٹ آئے تو کلاس میں پڑھاتے استاد کا مسئلہ ۔۔۔اسے بیٹھنے کا طریقہ نہیں آتا ہے تو استاد کا مسئلہ ۔۔۔اور جب استاد ان چیزوں کو سمجھانا شروع کرے اور پریکٹس شروع کرے تو وزیر تعلیم صاحب اچانک منظر عام پر آکر سکولز و کالجز بندکرنے کا اعلان کرکے غائب ہوجائیں ۔۔۔پھر مہنگائی اور بے روزگاری کا وہ عالم کہ سوچنے پر موت مونہہ کو آتی ہے ۔۔۔ان حالات میں استاد جائے تو کہا ں جائے ۔۔۔سکولز و کالجز بند تو سکولز و کالجز کی ایڈمنسٹریشن ان کی تنخواہ کنوینس الاؤنس کے زمرے میں کاٹ لے گی ۔سکولز و کالجز کی ایڈمنسٹریشن سے اس معاملہ میں بات کرو تو ان کی الگ ہی دلیلیں اور اصول و ضوابط ۔۔۔شام کے لیے کوچنگ اکیڈمیز کا رخ کرو تووہ بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔جو ایک آدھ اکیڈمی چھپ چھپا کر کوچنگ کلاسز لے رہی ہے وہاں طالب علم ہی نہیں کہ جب سکول کھلے نہیں سلیبس کا پتا ہی نہیں تو کوچنگ کلاسز کیوں لی جائیں اور کن کے لیے کلاسز شروع کی جائیں۔۔۔حکومتی امداد کے لیے رجسٹریشن کرواؤ تواستاد کو جواب ملتا ہے کہ آپ اس امداد کے اہل نہیں۔کتابوں اور قصے کہانیوں میں استاد کی عزت و احترام کے اتنے قصے کہ استادعزت و احترام کے ایک افسانوی حصار میں بندہوچکا ہے کہ یہ حصار اسے نہ محنت مزدوری کرنے دیتا ہے اور نہ ہی وہ پڑھانے کے علاوہ اور کچھ کام دھندا کرسکتا ہے اور اگراس حصار سے نکل کر کاروبار کا سوچے تو پیساکہاں سے لائے اور ادھار لے کر کاروبار کا سوچے توبازار بھی ایک غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔۔۔جناب ڈاکٹرمراد راس صاحب !آپ کو ایک استاد کے کیا کیا دکھڑے سناؤں ۔۔۔اس اے سی والے کمرے سے نکلواور پندرہ بیس ہزار تنخواہ لے کر ایک پرائیویٹ سکول میں مہینا پڑھاؤ اور پھر اس پندرہ بیس ہزار سے گھر کا خرچہ چلاؤ اور پھر لاک ڈاؤن اور سکول بند نہ ہونے کی دعا کرو اور جب یہ دعا قبول نہ ہوتو پرائیویٹ و گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں زندگی کی بقاء کی جنگ لڑتے ہزاروں اساتذہ کی طرح چیخ و پکار کرو تو پتا چلے گا کہ اے سی والے کمرے میں واسکٹ پہن کر تعلیمی اداروں کے لیے لاک ڈاؤن کرنا آسان اعلان ہے یا مشکل یا پھر ۔۔۔مشکل ترین

جب کچھ نہ بن سکے تو بالآخر ذہن بغاوت سے نکل کر کمپرومائز کی طرف آہی جاتا ہے۔بالکل اسی طرح تعلیمی ادارے بند کرنے کی وجہ جانچی جائے تو کرونا وجہ ہے اور جب دلیل یہ دی جائے کہ باقی سب ہورہا ہے تو وہاں پابندی نہیں ہے تو تعلیمی اداروں میں کیوں تو جواب ملتا ہے کہ کچھ ملکی اور غیر ملکی دشمن اس ملک میں انتشارپھیلانے کے چکر میں ہیں اور کچھ سازشیں بھی ہورہی ہیں ۔۔۔پوچھو کہ کیا سازشیں ہورہی ہیں تو جواب میں گھٹا ٹوپ خاموشی ۔۔۔خدا کے بندو! اگر تو ایسا ہے تو میڈیا پر آکر پوری قوم کو بتاؤ کہ ملک کو کن کن سازشوں کا سامنا درپیش ہے تاکہ عوام اس غیر یقینی صورت حال پر کمپرمائز بھی کرلیں اور ان افواہوں پر بھی کان نہ دھرے جو بلا تحقیق یہ قوم اپنے تئیں پھیلاتی ہے۔۔۔فیٹف کا مسئلہ ہے تو فیٹف بھی بھاڑ میں جائے اور فیٹف کی گرے لسٹ میں ملک خداداد کو ڈالنے والے بھی بھاڑ میں جائیں ۔۔۔ہم پر رحم کرو عوام پر رحم کرو پروان چڑھتی نسلوں پر رحم کرو۔۔۔اصل وجہ بتاؤ کہ تعلیمی ادارے کیوں بند کردیے جاتے ہیں ۔۔۔ڈاکٹر مراد راس صاحب !مہربانی کرو تعلیمی ادارے سارے ایس او پیز پر عمل پیرا ہیں ۔۔۔ان کو اس طرح روز روز بند کر کے اساتذہ کا مالی استحصال اور بچوں کا مستقبل تاریک نہ کرو ۔۔۔بچے چاہے سکول جاتے ہوں یا کسی غریب کی جھونپڑی کے باہر ننگ دھڑنگ کھیل کود رہے ہوں ایک نسل کی نمائندگی کرتے ہیں ۔۔۔ایک نسل کے بگڑنے کے نتائج اگلی دس نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔۔۔مہربانی کرو
 

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78175 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.