رانو (افسانہ)

رانو اپنے پانچ سالہ بھائی بالے کو رات کی بچی ہوئی میٹھی بھات کھلانے کی کو شش کر رہی تھی۔بالا توتلی زبان میں نہیں کھاتا میں تو دودھ پیوں گا ۔کھا لے کھالے میرا اچھا بھائی ہے نا۔کل ابا کو کام سے پیسے مل جائیں گے تو پھر دودھ پی لینا اس نے بالےکو تھوڑی بھات کھلا کر سلا دیا ۔ رانو کی ماں کو فوت ہوئے دو سال ہو گئے تھے ۔رانو کی عمر دس گیارہ سال ہو گی ۔ وہ اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرتی گھر کے کام کاج کرتی پڑھنے کا بھی اسے بے حد شوق تھا پر نور محمد اپنی غربت کےہاتھوں مجبور ہونے کے باعث اس کو نا پڑھا سکا۔رانو کا گھر شہر کے ایک خوبصورت علاقے کے ساتھ ایک ملحقہ چھوٹی سی بستی میں تھا۔جہاں غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ رہتے تھے۔رانو ایک دن سڑک پر کھڑی تھی اس کے قریب آکر ایک گاڑی رکی ۔اس کے اندر ایک بچی ایک خوبصورت رونے اور ہنسنے والی گڑیا لے کر بیٹھی تھی۔اس نے جب گڑیا کو دیکھا تو اس کا دل بھی چاہا کہ وہ بھی گڑیا کو ہاتھ لگا کر دیکھے اور اس سے کھیلے مگر اس کی ہی خواہش دل میں ہی دم توڑ گئی اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔اس نے دل میں سوچا کہ وہ بھی ایسی ہی گڑیا لے گی گھر گئی تو باپ سے کہا جو محنت مزدوری کرتا تھا جس کو کبھی کام ملتا کبھی نہ ملتا ، رانو آج میں نے نا ، آج میں نے نا ، ابا آگے بھی کچھ بول کیا ہوا؟ رانو آج میں نے ایک بڑی سی گاڑی میں اتنی پیاری گڑیا دیکھی ہے ۔ابا مجھے بھی ایسی گڑیا لادو گے؟باپ خاموش ہو گیا ۔آپ چپ کیوں ہو گئے ہو؟
ابا : ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے جو اتنی مہنگی گڑیا خرید سکیں۔
رانو :ابا ہم غریب کیوں ہیں ؟دیکھ بیٹا یہ خدا کا نظام ہے وہ جیسے چاہے بیش بہا دے جیسے چاہےنا دے یہ سب اس کی قدرت کے کام ہیں ۔
بیٹی تو کیا ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور نا نا رانو ایسی باتیں نہ کر جا جا کر سو جا ۔
اگلی صبح اس کا باپ کام پر چلا گیا لیکن رات کی تمام باتیں اسے بار بار یاد آرہی تھیں ۔سارا دن وہ سوچتا رہا کہ بیٹی نے ایسی خواہش کر دی ۔عام طور پر وہ شام پانچ چھے بجے گھر آجاتا آج گھر آیا تو رانو نے جلدی جلدی باپ کو کھانا دیا لیکن گڑیا والی بات اس کے ذہین سے نہ نکل سکی۔
رانو ابا:بڑی پیاری گڑیا تھی روتی بھی تھی اور ہنستی بھی تھی ۔دیکھ رانو ہم جیسے غریب لوگ کے ایسی چیزوں کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
ہمیں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔
دوسرے دن رانو اسی سڑک جا رہی تھی کہ ایک گاڑی پاس آکر کھڑی پھلوں کی دوکان پر رکی۔ اس نے گاڑی کو پہچان لیا یہ تو اس دن والی گاڑی ہے وہ بھاگ کر قریب گئی آج وہ لڑکی نہیں تھی پر گڑیا پچھلی سیٹ پر پڑی تھی اس کا دل چاہا وہ اٹھا کر دیکھ لے پر گاڑی میں سے ایک عورت نے غصے سے اسے بری طرح جھڑک دیا پیچھےہٹ جاؤ یہ فقیر لوگ بھی جان نہیں چھوڑتے ۔
رانو : بیگم صاحبہ میں فقیر نہیں ہوں،نہیں ہوں میں فقیر (رونے کے انداز میں) اس نے رانو کو سوروپیہ دیا میں نہیں لیتی عورت نے پیسے دیے اور گاڑی تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔وہ وہیں کھڑی سوچتی رہی پیچھے سے کسی راہ گیر کی آواز آئی راستے سے ہٹ جاؤ۔گھر آکر اس نے اسی پیسوں سے کھانا بنایا اسے باپ اور بھائی کی بھوک رہ رہ کر یاد آ رہی تھی اور بھوک ایسی چیز جو تہذیب کے سارے آداب بھلا دیتی ہے۔ابا کو سارا واقعہ سنایا ۔
باپ: تو نے کیوں لیے پیسے ؟اس نے زبردستی دیے میں نے تھوڑے ہی نہ مانگے تھے۔ نورمحمد نے بڑی بےدلی سے کھانا کھایا اور سونے کے لیے چلا گیا اور
گڑیا کے بارے میں سوچنے لگا ۔رانو کا باپ شام میں گھر آیا تو رانو نے کہا وہ گڑیا لے دے ابا میں ایک مہینہ کام کرؤں دن رات کماؤں پھر بھی نہیں آئے گی ۔باپ نے دل سوچا چلو میں چھے بجے کی بجائے نو دس بجے تک کام کر لیا کروں گا پیسے بچا بچا کر اسے گڑیا لا دوں گا۔
صبح کو وہ منہ اندھیرے ہی کام پر چلا گیا ۔اب وہ دن رات کام کرنے لگا رانو نے کہا ابا آپ اتنا کام کیوں کرتےہیں ۔ہمارا گزارا ہو ہی رہا تھا ایسے تو آپ بیمار ہو جاؤ گے ۔ابا کچھ نہیں ہوتا مجھے ۔
دن رات کی محنت شاقہ اور کام کی زیادتی سے نورمحمد کی طبیعت خراب رہنے لگی اس بات کو تقربیا دو ماہ ہونے کو آئے رانو گڑیا کو نہ بھول سکی ایک رات نورمحمد رات لیٹ گھر آیا تو اس کا جسم تنور کی طرح تپ رہا تھا ۔ابا آپ کو تو بہت بخار ہے چلو ڈاکڑ کے پاس نہیں میں ٹھیک ہوں میں سٹور سے دوا لے آیا ہو ں کوئی چیز کھانے کی پڑی ہے تو دے دومیں دوا کھا لیتا ہوں ۔ اس نے رانو کو بتایا کل وہ اس کی گڑیا لے آئے گا وہ بہت خوش ہوئی سچ ابا تو لا دے گا نا ؟ خوشی سے اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔نور محمداگلی صبح جلدی اٹھا بغیر ناشتہ کیے کام پر چلا گیا ۔بخار میں سارا دن کا م کیا ۔بخار کی شدت اور کمزروی کی وجہ سے اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے ۔ اس کی خوشی اس وقت دوبالاہو گئی جب ٹھیکے دار نے اس کو ساری رقم دے دی وہ خوشی سے نہال بازار کی جانب گیا اور وہاں سے گڑیا خریدی اور خوشی خوشی گھر کی راہ لی سڑک پار کرتے ہو ئے وہ تیز رفتاری گاڑی سے ٹکرا گیا ۔اور وہیں گر مر گیا ۔لوگ اس کے ارگرد جمع ہو گئے ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہواتھا ۔ وہ دار فانی سے کوچ کر چکا تھا ہنسنے رونے والی گڑیا ایک طرف گری زور زور سے رو رہی تھی ۔

Shamim Bakht
About the Author: Shamim Bakht Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.