" حرا" ایک کہانی ایک افسانہ

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا ہم ایک گاؤں میں رہتے تھے لیکن ہماری ایک خالہ لندن میں رہتی تھیں ان کی ایک ہی خوبصورت بیٹی حراتھی ان دنوں گرمیوں کے دن تھے خالہ اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ لندن سے گاؤں آئی ہوئی تھیں میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو سب سے پہلے میری ملاقات ان کی بیٹی حرا سے ہوئی جو بہت خوبصورت تھی جسے دیکھتے ہی میرے دل میں کچھ کچھ ہونے لگا خیر اتنے میں خالہ کی آواز سنائی دی "حرا کون ہے"? حرا بولی!"می شاہزیب ہے" میں جلدی سے خالہ والے کمرے کی طرف بڑھا اور خالہ سے مخاطب ہو" اسلام علیکم !خالہآپ کیسی ہیں "؟خالہ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا دی ،مجھے بیٹھنے کو کہا اور حرا سے کہا کہ شاہزیب کے لئے چائے بنا کر لاؤ میں نے رسمی انداز میں کہا کہ" نہیں خالہ چائے کی ضرورت نہیں ہے میں ابھی گھر سے پی کر آیا ہوں" تو پھر خالہ نے حرا سے کہا کہ"حرا بیٹا پھر شاہزیب کے لئے فروٹ لے آؤ" حرا مجھے دیکھ کر مسکرائی اور میرے لئے فریج سے کچھ پھل نکالے اور پھلوں والی ٹوکری میں دال کر میرے سامنے ٹیبل پر رکھ دیے اس کے بعد حرا بھی میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی میں اور خالہ باتیں کرنے لگے کیونکہ خالہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں میں چوری چوری نظروں سے حرا کی طرف بھی دیکھتا اس کا دلکش اور جاذب نظر خوبصورت چہرہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا اور میں دل میں سوچتا کہ حرا کتنی خوبصورت ہو گئی ہے میں اسے اپنی شریک حیات بنانے کے خواب دیکھنے لگا دل تو کر رہا تھا کہ بس سارا دن یہی بیٹھا رہوں اور حرا میرے سامنے ۔۔۔۔۔اسی دوران خالہ کی آواز میرے کانوں میں سنائی دی "شاہزیب بیٹا کن خیالوں میں گم ہو میں جھٹ سے بولا نہیں" کچھ نہیں خالہ مجھے کافی دیر ہو چکی ہے اور گھر پر امی بھی انتظار کر رہی ہوں گی " میں نے خالہ سے اجازت چاہی ۔خالہ نے حرا سے کہا کہ بیٹا حرا شاہزیب کو دروازہ تک چھوڑ آؤ میرے اندر پھر محبت نے کروٹ لی اور میں خوش ہوا حرا مجھے دروازہ پر چھوڑ کر" خدا حاٖفظ" کہا اور دروازہ بند کر لیا میں بھی بھی ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا۔۔میں گھر کی طرف روانہ ہوا کچھ دیر ہی میں گھر پر پہنچ گیا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا اور حرا سے کی ہوئی باتیں مجھے ستانے لگیں میرے دل و دماغ سے حرا کا چہرہ غائب ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا میں اٹھتے بیٹھتے حرا ہی کے بارے میں سوچنے لگا کئی بار میں سوچوں میں گم ہو جاتا لیکن امی کی آواز سے چونک جاتا تو امی کہتی کہ بیٹا شاہزیب کن خیالوں میں گم ہو میں دیکھ رہی ہوں کہ کچھ دنوں سے آپ کھوئے کھوئے سے رہتے ہو کیا بات ہے مجھے بتاؤ میں نے امی سے کہا کہ" نہیں امی ایسا کچھ نہیں ہے ۔"

ایک دن خالہ اور حرا ہمارے گھرکھانے کی دعوت پر آئے میں بہت خوش تھا کہ میرا محبوب میرے گھر آیا ہے میں اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح ایک بار میری بات حرا سے ہو جائے تو میں اسے اپنے دل کی بات بتا سکوں لیکن کوئی موقع نہ ملا اور میں مایوس ہی رہا کھانا کھانے کے بعد چائے کا دور چلا پھر سب گپ شپ میں مصروف ہو گئے لیکن پھر بھی مجھے حرا سے بات کرنے کا موقع نہ ملاکیونکہ حرا اپنی امی کے ساتھ ہی بیٹھی رہی اور وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوئی شام ہونے کو تھی تو امی نے مجھے کہا کہ تم خالہ اور حرا کے ساتھ جاؤ اور انہیں گھر تک چھوڑ آؤ ان کا گھر گاؤں میں کچھ فاصلے پر تھا میں نے خوشی خوشی حامی بھر لی تو حرا کے چہرے پر میں نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ دیکھی جو میرے دل میں اتر گئی میں حرا کو اپنی محبت سمجھنے لگا اور اس سے دل ہی دل میں پیار کرنے لگا میں بالکل بے خبر تھا کہ کیا حرا بھی مجھ سے پیار کرتی ہے یا نہیں ؟میں حرا سے یہ سب پوچھنے کے لئے بے تاب تھا لیکن مجھے کوئی موقع ہی نہ ملا وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا اور خالہ کے جانے کا وقت بھی قریب آتا جا رہا تھا ادھر میں بے تاب تھا کہ کسی طرح میں حرا سے بات کرنے میں کامیاب ہو جاؤں اور اسے اپنے دل کا حال بتا دوں لیکن ایسا نہ ہو سکا اور ایک دن ایسا بھی آ گیا کہ حرا واپس لندن چلی گئی اور میں اس کی یادوں میں تڑپنے لگا میں صرف حرا کے ہی خواب دیکھتا اور یوں پڑھائی سے بھی میرا دل اکتا گیا امتحان بھی سر پر تھے لیکن پڑھائی میں میرا بالکل جی نہ لگتا تھا امی بار بار کہتیں لیکن مجھے حرا کے سوا کچھ اچھا نہ لگتا تھا خیر امتحان بھی نزیک آ گئے میں جب بھی پڑھنے کے لئے کتاب کھولتا مجھے کتاب میں بھی حرا کا چہرہ نظر آتا میں صحیح طریقے سے پڑھائی نہ کر سکا اور امتحان بھی ہو گئے میرا سکول میں اچھے طلبا میں شمار ہوتا تھا لیکن جب میٹرک کا رزلٹ آیا تو ہم نے امتحان پاس تو کر لیا تھا لیکن تھرڈ ڈیژن میں ۔۔۔۔

ابا بہت ناراض تھے کہ اسے کیا ہو گیا ہے اچھا خاصا تو تھا پھر تھرڈ ڈیژن میں میٹرک سائینس پاس کیا اس کا مستقبل کیا ہو گا وہ پریشان رہتے میں نے کہا کہ میں اب سائینس نہیں پڑھوں گا اور آرٹس میں ہی داخلہ لوں گا خیر میرا شہر کے کالج میں داخلہ ہو گیا میں دن رات حرا کا ہی سوچتا میں نے ایک دن امی سے بات کی کہ آپ حرا کو اپنی بہو بنا لیں امی کو بھی یہ اچھا لگا انہوں نے کہا کہ میں تیری خالہ سے بات کروں گی میں بہت خوش ہوا کہ چلو اب بات بن جائے گی اور میری محبت مجھے مل جائے گی حرا نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ ایک سگھڑ لڑکی بھی تھی لندن میں رہتے ہوئے وہ ایک مشرقی لڑکی کی طرح شرمیلی تھی شاید اسی لئے وہ میرے دل میں گھر کی گئی اور میں اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا اب میں اس انتظار میں تھا کہ دوبارہ خالہ کب آئیں گی اور امی کب بات کریں گی ۔

اسی دوران دو سال کا عرصہ گزر گیا میں نے ایف اے پاس کر لیا تھا اور بی اے میں داخلہ لے لیا انہی دنوں ہمیں گرمیوں کی چھٹیاں بھی ہو گئیں ہم دوستوں نے سیر سپاٹے کے لئے شمالی علاقہ جات جانے کا پروگرام بنایا اور پھر ایک روز شمالی علاقہ گلگت جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے وہاں بھی مجھے حرا کی یاد شدت سے ستانے لگی اور اس کی باتیں اور چہرہ میرے سامنے گھومنے لگا ابھی مجھے گلگت آئے ہوئے ایک دن ہی گزرا تھا کہ مجھے گھر سے کال آئی کہ تمہاری خالہ ا ٓج لندن سے ٓارہی ہیں یہ خبر سن کا میری خوشی کی انتہا نہ رہی میں نے امی سے فوراً پوچھا کہ "خالہ کے ساتھ کون کون آرہا ہے " تو امی نے کہا کہ" تمارے خالو اور حرا بھی ساتھ ہیں"بس حرا کا نام سنتے ہی میں سوچوں میں گم ہو گیا توامی نے زور سے فون پر کہا کہ" ہیلو شاہزیب میری بات سن رہے ہو" میں چونک گیا اور کہا کہ" جی امی جی" دعا سلام کے بعد امی نے کہا کہ مجھے ابھی گھر کا کھانا بھی بنانا ہے پھر بات ہو گی فون بند ہوتے ہی میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے ابھی ایمرجنسی میں واپس جانا ہے دوستوں نے کہا کہ خیر ہے میں نے کہا کہ گھر میں کچھ رشتہ دار مہمان آئے ہیں خیر میں نے واپس گاؤں آنے کا راداہ کر لیا اب میرا یہاں بالکل دل نہیں لگ رہا تھا میں دنے وستوں سے اجازت چاہی تو سب دوست نالاں ہوئے کہ یار تم یہ اچھا نہیں کر رہے ہو خیر میں نے انہیں بتایا کہ میرا گاؤں جانا بہت ضروری ہے کیونکہ میری خالہ اپنی فیملی کے ساتھ گاؤں آئی ہوئی ہیں اور ان کے پاس کم وقت ہے پھر انہوں نے واپس لندن چلے جانا ہے خیر دوست مطمئن ہو گئے اور مجھے جانے کی اجازت دے دی میں صبح صبح وہاں سے واپسی کی بس پکڑی اوراس پر سوار ہو گیا سفر کے دوران سارے راستے میں یہی خیال آتا کہ میں حرا سے کیسے بات کروں گا کیا اس بار میں اپنی بات حرا سے کہہ سکوں گا انہی سوچوں میں گم تھا کہ بس کنڈیکٹر نے میرے شہر کی آواز لگائی اور میں چونک گیا میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور بس سے نیچے اترا قریب ہمارے گاؤں آنے والے تانگہ کا سٹینڈ تھا میں جلدی جلدی ٹانگے پر بیٹھ گیا اور جلد ہی اپنے گاؤں پہنچ گیا کافی رات ہو چکی تھی گاؤں کی گلیوں میں سناٹا تھا سب لوگ سوئے ہوئے تھیاپنے گھر پہنچ کر میں نے دروازہ پر لگی بیل کابٹن دبایا تو امی جاگ رہی تھیں انہوں نے پوچھا" کون ؟" تو میں نے کہا "امی میں شاہزیب ہوں" امی نے دروازہ کھولا اور مجھے گلے سے لگا لیا اور بولیں کہ" اچانک تم کیسے آ گئے " میں نے امی سے کہا کہ جیسے ہی آپ نے مجھے خالہ اور حرا کا بتایا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اسی وقت گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔امی نے مجھے ہاتھ منہ دھونے کا کہا اور کھانے کا پوچھا تو میں نے امی کو کھانا گرم کرنے سے منع کر دیا کیونکہ کوسوں دور تک مجھے بھوک نہیں تھی امی نے کہا کہ پھر تم اب آرام کر لو سفر سے تھک گئے ہو گے میں بھی اپنے کمرے میں چلا گیا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا حرا کے خیالوں میں گم ہو گیا نیند مجھ سے کوسوں دور تھی انہی خیالوں میں میری کب آنکھ لگی پتا ہی نہیں چلا۔

صبح صبح میں سب گھر والوں سے ملا وہ مجھے یوں اچانک دیکھ کر ششدر رہ گئے خ خیر میں نے ناشتہ کیا اور خالہ کے گھر کی طرف چل پڑا راستے میں بس یہی سوچ رہا تھا کہ حرا سے کیسے بات کروں اتنے میں حرا کا گھر آ گیا میں نے دروازے پر دستک دی تو خالو نے دروازہ کھولا مجھے دیکھتے ہی گلے لگایا ،میری خیرت پوچھی اور اندر آنے کو کہا میں کمرے میں داخل ہوا تو سامنے خالہ پر نظر پڑی ان سے سلام دعا ہوئی اور ان کا حال و احوال پوچھا خالہ نے بھی مجھے پیار کیا پھر خالہ نے مجھے بیٹھنے کو کہا لیکن میں تو کہیں اور ہی کھویا ہوا تھا میری آنکھیں جسے دیکھنے کو ترس رہی تھیں وہ تو نظر نہیں آ رہی تھی میں نے خالہ سے حرا کا پوچھا کہـ" حرا نظر نہیں آ رہی" تو خالہ نے کہا کہ "وہ قریب پڑوس میں اپنی ایک سہیلی کے گھر گئی ہوئی ہے تھوڑی دیر میں آ جائے گی "یہ سن کر میں ذرا پریشان ہوا کہآج محبوب کا دیدار ہو گا یا نہیں ابھی ان سوچوں میں گم تھا کہ خالہ چائے بسکٹ لے آئی چائے پینے کے بعد خالہ اور خالو سے باتیں کرتا رہا کافی وقت گزر چکا تھا لیکن ابھی تک حرا نہیں آئی تھی میں نے خالہ سے اجازت چاہی او خالہ اور خالو ر گھر آنے کو کہا تو خالہ نے کہا کہ" ہم کل آپ کے گھر آئیں گے" میں جیسے ہی گھر جانے کے لئے دروازے سے باہر نکلا تو سامنے سے حرا آتی ہوئی دکھائی دی میں کچھ دیر رک گیا وہ قریب آئی وہ مسکرائی اور مجھے سلام کر کے اندر چلی گئی میں ایک بار پھر اس کے چہرے کی مسکراہٹ کا دیوانہ ہو گیا بس اتنا ہی دیدار لکھا تھا خیرمیں گھر واپس لوٹ آیا اب میرا دل کسی کام میں نہیں لگتا تھا میرے گھر والے بھی یہ محسوس کر رہے تھے ابا بھی امی سے کہہ رہے تھے کہ تم شاہزیب کے لئے حرا کی بات کرو ۔حرا سلجھی ہوئی لڑکی ہے میں یہ بات سن کر بہت خوش ہوا امی نے کہا کہ کل ان کو دعوت پر بلاتے ہیں اور ساتھ ہی میں اپنی بہن سے رشتے کی بھی بات کر لوں گی ۔

آج حرا کے گھر والے ہمارے گھر شام کے کھانے پر مدعو تھے میں بہت خوش تھا کہ حرا میری شریک حیات بن جائے گی میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھ رہا تھا شام کو حرا اور اس کے امی ابو ہمارے گھر آئے کھانا کھانے کے بعد امی نے خالہ سے حرا کا رشتہ مانگا تو خالہ نے کہا کہ میں حرا کے ابو سے بات کروں گی پھر جو فیصلہ ہوا آپ کو آگاہ کر دوں گی۔وہ اس شام چلے گئے مجھے اب ان کے فیصلے کا شدت سے انتظار تھا کہ میں جلد حرا کو اپنی شریک حیات بنا ؤں اور اس سے ڈھیر ساری باتیں کروں جو اب تک میرے دل میں دفن ہیں کچھ دنوں بعد امی خالہ کے گھر گئیں اور رشتے سے متعلق پوچھا تو خالہ نے کہا کہ حرا کے ابو نے حرا کا رشتہ اپنے بھائی کو دینے کا کہا ہے جو لندن میں ہی رہتے تھے جب امی نے مجھے گھر میں یہ بات بتائی تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے نیچے سے زمین کھینچ لی ہو زمین و آسمان الٹ پلٹ گئے ہوں میں چکرا گیا اور نیچے گر گیا گرتے ہی میں بے ہوش ہوگیا جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھا کچھ دنوں کے بعد میں صحت مند ہو گیا اور واپس گھر آ گیا لیکن تب تک حرا اور اس کی فیملی واپس لندن جا چکے تھے امی نے مجھے کہا کہ بیٹا اب حرا کو بھول جاؤ لیکن میں کیسے امی کو بتاؤں کہ حرا کو بھولنا میرے لئے کتنا مشکل ہے میں تو اسے اپنا سب کچھ سمجھ چکا تھا لیکن پھر وقت نے مجھے سنبھلنے پر مجبور کر دیا کہ یک طرفہ محبت کا یہی انجام ہوتا ہے نہ میں حرا سے اپنے دل کی بات کر سکا اور نہ ہی اسے پا سکا ۔آہستہ آہستہ میں نے حرا کو بھولنا شروع کر دیا کیونکہ اب وہ کسی اور کی عزت بن چکی تھی میری شادی میری پھوپھو کی بیٹی نادیہ سے ہو گئی جس سے میرے دوبیٹے ہیں میں نادیہ سے بہت خوش ہوں وہ میرا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے بعض اوقات ہم جو سوچتے ہیں وہ ہمارے لئے بہتر نہیں ہوتا لیکن خدا جو فیصلہ کرتا ہے وہ ہمارے لئے سب سے بہتر ہوتا ہے میں اپنے خدا کے فیصلے پر خوش ہوں کہ جس نے مجھے نادیہ جیسی فرمانبردار بیوی دی جو ہر طرح سے میری عزت کرتی ہے اور میرے ماں باپ کو اپنا ماں باپ سمجھتی ہے ۔
 

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1840424 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More