پاکستان میں زنا (جنسی تشدد) ایک قابل سزا جرم ہے۔
پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان میں زنا (جنسی تشدد) کی سزا، دس سے پچیس
سال تک کی قید یا سزائے موت ہے۔ اجتماعی زنا (جنسی تشدد) سے متعلق مقدمات
میں، سزا یا تو سزائے موت یا عمر قید ہے۔ پاکستان میں زنا (جنسی تشدد) کے
واقعات کے مقدمات چلانے میں ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر سائنسی شواہد استعمال
ہوتے ہیں۔
(2012)
سے پاکستان میں بچوں اور بچیوں ساتھ ذیادتی کے واقعات میں حیرت انگیز اضافہ
ہوا ہے۔
ریاست مدینہ میں اب نہ تو فی میل نہ ہی میل اس ذیادتی سے محفوظ ہے۔گزشتہ
3,4 سال کے عرصہ میں انگنت ایسے واقعات سامنے آئے جس میں کم سن بچوں اور
بچیوں کو ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
2019ء
میں، حکومت پاکستان نے ملک بھر میں ایک ہزار خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ یہ
خصوصی عدالتیں صرف خواتین پر تشدد سے متعلق امور کو حل کرنے پر توجہ دیتی
ہیں۔ مگر یہاں تو سرعام سڑک پہ بھی ایک عورت محفوظ نہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں اس جرم کی سزا سرِعام پھانسی دینا نہیں۔ سوال
یہ ہے کہ جب اپنے مفاد کا قانون بن سکتا ہے تو عوام کے مفاد، بچوں بچیوں کی
حفاظت کے اقدامات، مجرم کے لیے سخت سزا کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟ ساتھ
ہی دیگر محرکات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں
وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں۔ ساتھ ہی
پورن دیکھنا بھی محرکات میں داخل ہے۔ والدین کا کردار یہاں بہت زیادہ اہم
ہے۔ اب وقت ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں۔ انہیں زیادہ وقت دیں۔
ان سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ کوئی تیسرا
اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ ان کے ہر عمل پر آپ کی نظر ہو، ان کی اٹھک، بیٹھک
نظر میں رہے۔ ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں۔ کسی پر بھی اندھا اعتماد
نہ کریں۔ بہت سے کیسز میں قریبی رشتہ دار، محلے دار، جاننے والے ہی ملوث
پائے گئے۔ بچوں بچیوں کی بات پر توجہ دیں۔ وہ اگر کسی ایسی بات، یا کسی کی
کسی حرکت کی آپ سے شکایت کریں تو آپ چپ رہنے یا نظر انداز کرنے، خیر ہے
کوئی بات نہیں، یا نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتے، الٹا بچے کو ہی ڈانٹنے پر
اکتفا نہ کریں۔ بلکہ ایکشن لیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ یہ آپ کا حق
ہے۔ اور اگر آپ ایکشن نہیں لیں گے تو آپ بھی مجرم ہوں گے۔
بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں تا کہ وہ ایسے کسی واقعے کا نشانہ بننے سے
بچ سکیں۔ انہیں ابتدائی تعلیم سے آگاہی دیں۔ انہیں حفاظتی تدابیر سے روشناس
کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں۔ کیوں کہ اکثر واقعات میں
بچوں کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے کر پھانسا جاتا
ہے۔ آج اگر ہم اپنے معالج خود نہیں بنیں گے۔ تو بعد میں بغیر پچھتاوے کے
کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ہم احمق ہیں احمق ہی رہیں گے۔ ہم وہ نسل ہیں جو نا
اپنے بزرگوں کو سکھ دے سکتی ہے نا ہی اپنے بچوں کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ہاں
البتہ نعرے خوب لگا سکتی ہے۔مگر اب نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا۔
پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں ایک قوم بن کر آواز بلند کرنی ہو گی
اور مضبوط پالیسیاں بنوا کر پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانا ہو
گا۔
|