برائی کا جواب اچھائی سے بذریعہ سوشل میڈیا

 سوشل میڈیا کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس نے پچھلی دو دہائیوں سے ہماری زندگیاں بدل دی۔ ایک سروے کے مطابق 46 ملین پاکستانی روزانہ سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی طاقت بن گئی ہے جس سے ہم کسی بھی کمیونیٹی کے رویوں اور رنگ ڈھنگ کو بدل کر رکھ سکتے ہیں جیسے؛

انسانی حقوق میں انسانی عزت کی حفاظت سر فہرست آتی ہے۔ اس کیلئے سوشل میڈیا سے فحش و عریاں مواد کو ختم کر کے اسکی جگہ اخلاقی و تہذیبی مواد کو فروغ دیں۔ ایک بین الاقوامی ریسرچ کے مطابق ریپ، ہم جنس پرستی اور ہراسمنٹ جیسے واقعات کی بڑھنے کی بنیادی وجہ پورنو گرافی ہے۔ یہ نوجوانوں میں جنسی جذبات کو ابھارتا ہے اور وہ اس کی وقتی تسکین کیلئے انسانی جسم کو پبلک پراپرٹی سمجھ کر درندے بن جاتے ہیں۔

دوسری بات، سوشل میڈیا پر مرد، عورت اور خواجہ سراؤں کی برابر تعلیم عام کرنے کی بات کی جائے۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے پر زور دیتا ہے۔ عورتوں کو باورچی خانے تک رہنے اور مردوں کو ڈومینینٹ رہنے کا فلسفہ بگھارنے کے بجائے دونوں کو مساوات کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ میرے فہم و ادراک کے مطابق ایک پڑھا لکھا مرد صرف اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کامیاب رہ کر متوازن زندگی گزارتا ہے جبکہ ایک پڑھی لکھی عورت کئی نسلیں سوار دیتی ہے۔ مانتی ہوں کہ نسل مرد سے چلتی ہے لیکن اسے سنوارنے کا سہرا عورت کے سر جچتا ہے۔ دونوں کا مشترکہ کردار ہے اگر غور کرو تو۔۔۔

سوشل میڈیا کے ذریعے تعصبات کو ہوا نہ دیں۔ گورے کو کالے پر امراء کو غرباء پر فوقیت جیسے طبقاتی نظام کو ختم کرنے میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ غلاموں،عورتوں ، خواجہ سراؤں کی نازیبہ اور غیر اخلاقی مواد کو پروموٹ نا کیا جائے۔ یہ مواد تفریح و مزاق کے نام پر انکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے اور تحقیر کا باعث بنتا ہے۔ اسکی جگہ ایک دوسرے کے حقوق کو آسان طریقے سے پورا کرنے کے آسان طریقے اور محبت کرنا بتلائے جائے اور پرامن ماحول بنانے کے آسان ٹپس سے صارفین کو آگاہ کیا جائے۔

جہاں کہیں غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام ہوتا دیکھیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ طلب کرنے کے لیے ایسوں کی تصاویر ویڈیوز کو شئیر کر کے اسکی سخت مذمت کی جائے۔

آخر میں یہ کہ ہر شخص کی وقار اور رازداری کا تحفظ انسانی حقوق کی بنیاد ہے۔ کسی کی ذاتی ملکیت، ڈیٹا، تصاویر، ویڈیوز کو سر عام نا کیا جائے اور کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں من گھڑت اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے بجائے پرائویسی اور ریپوٹیشن کا خاص خیال رکھا جائے۔ میرا یہ یقین ہے کہ تبدیلی ہمیشہ اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے، لمبی چھلانگیں لگانے سے پہلے اپنے گھروں میں آمن پیدا کریں اپنے بچوں سے موبائل اور ٹیکنالوجی چھیننے کے بجائے اسکا صحیح استعمال وقتاً فوقتاً بتاتے رہے اور سخت نگرانی رکھیں۔ جب تک ہمارے پیارے برائی کو اچھائی کی جا نب گامزن نہیں کریں گے تب تک ہم بیرونی دنیا میں پر بھاشن دیتے اچھے نہیں لگیں گے اور نہ کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

یاد رکھیں!! قومیں ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ اچھے کردار سے بنتی ہیں۔
 

Zarmeen Yousuf Khan
About the Author: Zarmeen Yousuf Khan Read More Articles by Zarmeen Yousuf Khan: 11 Articles with 13124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.