میں اک منٹ کے لیے رُک جاتا ہوں اور غور سے اُس بچی کی
آنکھوں میں شرارتیں وہ بچپن وہ نادانی ڈھونڈھنے لگتا ہوں مگر وہ سات آٹھ
سال کی چھوٹی بچی اپنے ہاتھ میں پرام لیے میرے پاس سے گزر جاتی ہے، میں بے
بس ہو کہ الله پاک سے دعا کرتا ہوں یاالله مجھے امیر کی امیری اور غیرب کی
غریبی نا دکھا مگر انسان کو ﷲ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یہ نا چاہتے ہوۓ
بی دیکھنے سنُنے بولنے اور محسوس کرنے کی حِس رکھتا ہے، مگر نا جانے کیوں
یے بے وجہ اس سے انجان رہتا ہے،
میں بچی کی طرف واپس آتا ہوں اس بچی کا قصور کیا ہے یہی کہ وہ غریب گھر میں
پیدا ہوئ یا وہ غریب باپ کی بیٹی ہے ہم لوگ کب سے اس قدر بے ہس اور اندھے
ہو گۓ ہیں کہ ہم غیرب لوگوں کی بچییاں اپنے گھروں میں صِرف نوکرانی کہ طور
پہ ہی قبول کرسکتے ہیں،
جی ہاں میں نے جس بچی کو شاپنگ مال میں پرام گھماتے دیکھا وہ کوئ اور نہیں
کسی غریب گھر کی چھوٹی سی بچی اک نوکرانی کا فرض ادا کر رہی ہے، وہ بی اس
عمر میں جو عمر تو خود اس کے کھیلنے شراتیں کرنے یا پڑنھے کی ہے مگر افسوس
وہ پرام میں اک امیر گھرانے کے بچے کو جھولے جھلا رہی ہے اور وہ امیر
گھرانے کے لوگ ریستوران میں کھانے کا مزہ اڈا رہے ہیں،
بچی واپس مڑتی ہے مالکہ بچے کے منہ میں اک فرایز ڈالتی ہے اسی دوران ساری
فیملی تاڑیاں بجانے لگتی ہے بچی کو دوبار کہا جاتا ہے پرام اوپر سے گھما کے
لاو بچی حکم کی تکمیل کرتے میرے پاس سے گزر جاتی ہے، میں اس کی آنکھوں میں
وہ سب کچھ ڈھونڈتا ہوں جو مجھے نہیں مل سکتا اور سوچنے پہ مجبور ہوتا ہوں
کہ ہم کون لوگ ہیں ہمیں تو غریبوں مسقینوں یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے کا
حکم ملا تھا
مگرہم نے کیا-کِیا؟ ہم نے اِن سر پہ ہاتھ رکھنے کی بجاۓ اِن لوگوں کو اپنا
زاتی ملازم اپنا غُلام بنا لیا،
میں اس بچی کو نہیں جانتا وہ کون ہے کہاں سے ہے مگر میں اس کی عمر زرور
جانتا ہوں یہ عمر تو اس کے کھیلنے کودنے شرارتیں کرنے کی ہے مگر وہ اپنے
غریب باپ کی مجبوری والی تجوری بھرنے کے لیے اپنا بچپن اپنی ماصومیت اپنی
پڑھاٸ کی عمر اس امیرگھرانے کے بچے کو جھولے جھلانے میں وقف کر رہی ہے روز
دیکھنے میں آتا ہے بڑے بڑے امیر گھرانوں نے ایسی کئ چھوٹی بچیاں اپنے گھروں
میں کیرٹیکر یا آیا کے طور پہ رکھی ہیں،
کیوں؟ کیوںکہ یہ غیرب باپ کی بیٹاں ہیں جب پیدا ہوتی ہیں تو باپ کو لگتا ہے
ناتو وہ ان کی پڑھائ کا خرچ اٹھا سکتا ہے نا ہی اسے اگلے گھربیاہ سکے گا
پانچھ چھے سال کی عمر میں ان بچیوں کو امیر گھرانوں کے حوالے کر آتے ہیں
اور یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ہماری بچی ہمیشہ کے لیے آپ ہی کہ پاس رہے
گی اب آپ ہی اسکے ماں باپ قُل کائنات ہیں آپ ہی نے اس کی شادی بیاہ کا خرچ
اٹھانا ہے،
وہ تو یہ سوچ کے چُپ رہی ہو گی کہ میرا باپ مجھے اتنے بڑھے گھر میں چھوڑ
گیا جہاں میں جی بھر کہ کھیلوں گی اور پڑھ لکھ کے ڈاکر انجنیر یا کسی اچھے
گھر کی بہو بنوں گی مگر یہ سپنے تو اسُی وقت ٹوٹ کے چکنا چُور ہو جاتے ہیں
جب ان لوگوں سے پانچھ چھے سال کی اڈوانس رقم ہاتھ میں تھامے اُس کا باپ
اپنے گھر کی راہ لیتا ہے، چار پانچھ ہزار روپے ماہہانہ پہ چھوڑ کے جانے
والی بچی کو کیا خبر کہ اس کی زندگی کا کھیل اب ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے
جہاں سارا دن بچوں کو جھولےجھلانا فرش دھونا اور ہر وقت مالکہ کی باتیں
سننا شامل ہو گا، مجھے یہ بات سونے نہیں دیتی کہ ان بچیوں کا مسقبل کیا ہو
گا جو پیدا تو اپنے گھروں میں رانیوں کی ترہہ ہوتی ہیں اوران کا مسقبل کچھ
ہی ہاتھوں میں جاتے نوکرانیوں جیسا ہو جاتا ہے، افسوس بے ہد افسوس کے کہ ہم
نے پاکستان تو بنا لیأ ایٹم بم بی بنا لیا مگر ہم آج تک کسی غریب باپ کی
بیٹی کا مسقبل نا بنا سکے، میں پاکستان کے کچھ ادروں اور انسانی حقوق کہ
ٹھیکداروں سے یہ ریکویسٹ کرنا چاہتا ہوں کہ چایلڈ لیبر لا کے مطابق (اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 11 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ "چودہ
سال سے کم عمر کا کوئی بچہ کسی بھی فیکٹری یا کسی اور خطرناک ملازمت میں
مصروف نہیں ہوگا)
اس قانون میں بچوں کے ساتھ ( بچیوں ) کے نام کا اضافہ کیا جاۓ ان چھوٹی
بچیوں کو گھریلو ملازمہ رکھنے پر پابندی عاید کی جاۓ ان کے کسی بی شاپنگ
مال ریستوران میں اپنی مالکہ یا اس کہ بچوں کے ساتھ آنے پر بی پابندی عاید
کی جاۓ،
جو لوگ ان بچیوں کے لیے اک برگر افوڈ نہیں کر سکتے وہ ان کو ہر وقت ساتھ
رکھنے کے بی پابند نہیں، گورمنٹ پاکستان ان غریب بچیوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنا
شروع کرے، یہ غربت کے ہاتھوں ستاۓ ہوۓ لوگ ہیں ہمیں ان غریب معصوم کم عمر
چھوٹی بچیوں کے مستقبل کے لیے کوشش کرنی چاہیے یہ کوئ بہت مشکل کام نہیں
اس کام کے لیے ہم مردم شماری کا سہارا بی لے سکتے ہیں فام میں اک اضافی
خانہ ترتیب دے کر ان بچیوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جا سکتا ہے،
پولیو ٹیم کے ورکر بی اس کام کے لیےاچھی چوایس سابت ہو سکتے ہیں پولیو ٹیم
کا نمائندہ اک سادہ فام پہ ان کا نام پتہ عمر لکھ کہ نادرا میں جمع کروانا
شروع کرۓ کچھ ہی مہینوں سالوں میں یہ بچیاں رجسٹڑ ہو جایں گیں، گورمنٹ
پاکستان ان بچیوں کہ خاندان کو پانچ سات ہزار روپے ماہنہ الاؤنس لگا دے
تاکہ یہ اپنے گھروں میں رہتے ہوۓ عزت والی زندگی گزاریں اور اپنی پڑھای
جاری رکھ سکیں، اس سے ہم آنے والی نسلوں کو پڑھی لکھی بیٹیاں بہویں تو دے
سکتے ہیں۔ نہ کہ مستقبل کی نوکرانیں۔
میرا نام صدام حسین ہے میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کا رہاشی ہوں میں
اک چھوٹے سے پرایویٹ ادرے ٹریول ایجنسی پے ٹکٹنگ کا کام کرتا ہوں،
کالم نگاری سے لگاؤ کے باعث ارد گرد میں ہونے والے حالات و واقعات پر گہری
نظر رکھتا ہوں
میرا کالم\یا بلاگ میرے نام کی بجاۓ مڈل کلاس کے نام سے شاعیہ کیا جاۓ
کیوںکہ میں خود مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور ان کے درد دل سے بی
خوب واقف ہوں
مستقبل کی نوکرنیاں میرا پہلا کالم/یا بلاگ ہے اگر نادانی میں لفظوں میں
کوی غلطی کوتاہی ہو گئ تو براہ کرم اسے درست اور مجھے معاف فرمایے گا کوشش
کروں گا کہ آپ کے لیے دوبارہ اچھے سے اچھا لکھوں، شکریہ |