مولاناجلا الدین رومی سے علامہ اقبال کو جو نسبت تھی وہ
کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔صدیوں کے بعد ِ مکانی کے باوجود روحانی مر شد کا جو
مقام مولانا روم کامقدر بنا تھا وہ اہل نظر کیلئے حیران کن تھا۔اتنی طویل
مسافت کے بعد کسی کو اپنا مرشد مان لینا غیر معمولی واقعہ تھا۔صدیوں کے
انسانی سفر میں انسانی ارتقاء کتنی منازل طے کر کے کہاں کا کہاں پہنچ چکا
تھا لیکن اس کے باوجود کسی مخصوص انسان کی فکر ی جلا کا خود کو پیرو کار
بنانا واقعی عقل و فہم و فراست سے بالا تر نظرآتا تھا ۔انسانی زندگی میں
کبھی کبھی وہ کچھ بھی وقوع پذیر ہو جا تاہے جوظاہر ی طور پر عجیب لگتا
ہے۔علامہ اقبال کے مولانا روم کو اپنا مرشد مان لینے کے اتنے بڑے فیصلے کی
توجیہ تلاش کرنا کسی کیلئے بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سچ یہی ہے
کہ مولانا روم علامہ اقبال کے روحانی مرشد تھے اور انہی کی رہنمائی میں
علامہ اقبال نے سیرِ افلاک کا سفر طے کیا تھا۔مثنوی کے خالق اور جاوید نامہ
کے خالق کی علمی رفعت پر کسی کو کوئی کلام نہیں ہے ۔تاریخ ِ عالم کی ادبی
دنیا کا یہ انتہائی انوکھا واقعہ ہے جو اپنے اندر انتہائی جاذبیت کا حامل
ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو ہرکس و ناکس کو نہیں ملا
کرتا تو شائد زیادہ مناسب ہو گا۔ روح سے روح کی ہمکلامی کا پرتو جنم لے تو
پھر ایسا ممکن ہوا کرتا ہے۔اہلِ قلم اور بھی تھے،اہلِ نظر اور بھی تھے،اہلِ
عشق اور بھی تھے،اہلِ دل اور بھی تھے تو پھر صدیوں کے تعطل کے باوجود علامہ
اقبال نے مولانا روم کا انتخاب کیوں کیاتھا؟ کیوں انھیں اپنی رہنمائی کیلئے
چن لیا تھا؟کیوں ان سے فیضیاب ہونے کاقصد کیا تھا؟ہے کوئی جواس عقدہ کو
کھول سکے؟ مولانا روم کون تھے ، کیا تھے اور اقبال کی نظر میں ان کا مقام
کیا تھا علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں سب کچھ سمو کر رکھ دیا ہے ۔اس ایک
شعر سے انسان پر خاندانی تفاخر اور نسلی امتیاز کی ساری حقیقت کھل جاتی ہے
اور انسانی جوہر کی درخشانی کی چمک دمک بھی عیاں ہو جاتی ہے ۔جوہر کیا ہے
اور کہاں سے عطا ہو تا ہے یہی اس شعر کی روح ہے؟جو سمجھنا چاہے گاسمجھ
جائیگا لیکن جس کی آنکھوں پر امتیاز کی پٹی بندھی رہے گی وہ اس راز کو کبھی
جا ن نہیں پائیگا ۔(نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے ۔،۔ وہی آب
و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی)۔مٹی کی نسبت ،علاقے کی نسبت،خاندان کی نسبت
،نسل کی نسبت،شہر کی نسبت ، دولت کی نسبت ، عہدے کی نسبت شہرت کی نسبت اور
خاندانی تفاخر کی نسبت کو علامہ اقبال کے ایک شعر نے ملیا میٹ کر کے عظمتِ
انسانی کی آفاقیت پر مہر ِ تصدیق ثبت کر دی ہے ۔ قدرت جب کسی پر مہر با ن
ہو جائے تو گڈری میں لعل پیدا ہوتے ہیں۔ معمولی گھرانے کا کوئی انسان عظمت
و منزلت کے ایسے بلند مقام پر متمکن ہو جاجاتا ہے کہ اس کی بلندی نگاہوں کو
خیرہ کر دیتی ہے۔ویسے بھی نرم و نازک اور آرام دہ ماحول میں نابغہ پیدا
نہیں ہواکرتے۔جس طرح نرگس کا پھول جوہڑ میں ہی کھلتا ہے اسی طرح دنیا کے
نابغہ ،مشکلات،تنگدستی اور نا مساعد حالات میں ہی پروان چڑھتے ہیں کیونکہ آ
لام ِ زمانہ کی کٹھا لیوں سے گزرے بغیر اس جوہر کی آبیاری نہیں ہوتی جو کسی
بھی انسان کو عظیم بنانے کیلئے ناگزیر ہوتی ۔وقت کی کٹھالیاں سیپ کو موتی
بنانے کیلئے سمندر کی بے رحم لہروں سے نبر آزما ہوتی ہیں تو تب کہیں جا کر
کسی ایک سیپ میں پانی کی قسمت موتی کا روپ اھارن کرتی ہے۔یہ کارِ دراز ہوتا
ہے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے والوں کا مقدر نہیں بنا کرتا۔قسمت کی دیوی
مہربان ہو جائے تو ایسا نادر لمحہ لباسِ زیست کا تمغہ بنتا ہے۔علامہ اقبال
نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا (کہ تو خود تقدیرِ الہی کیوں نہیں ہے)۔دنیائے
ادب کا ایک عظیم نام جس نے اپنی نگاہوں کے سامنے انسانی کشت و خون کو دیکھا
تھا اور اپنی ہی سلطنت کو اپنی نگاہوں کے سامنے بے توقیر ہوتے ہوئے اور
دستِ اغیار میں جاتے ہوئے دیکھا تھا ۔اس کی فکری پرواز جب احساسا ت و
مشاہدات کی بلندیوں کو چھونے لگی تو تب کہیں خونِ انسانی کی ارزانی کیاس
عینی شاہد غالب ؔ کو یہ دعوی کرنا پڑا تھا۔،۔
(آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔،۔ غالب صر یر خامہ ِ نوائے سروش
ہے)۔،۔
کہتے ہیں برگ و بار سے لدی ڈالیاں خود بخود جھک جایا کرتی ہیں تا کہ اس پر
لدے ثمرات سے انسان بہرہ ور ہو سکیں ۔ساسانی حکمران نوشیرواں عادل کے ایک
تاریخی قصے سے ہماری تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ایک دن نوشیرواں شکار
کیلئے نکلا تواس نے راہ میں ایک بوڑھے کسان کو درخت لگا تے ہوئے دیکھا
۔بوڑھے کا درخت لگانا نوشیرواں کو بڑا عجیب لگا کیونکہ وہ بوڑھا عمر کے
ایسے حصے میں تھا جہاں پر وہ اپنی زندگی میں اس درخت کو پھول و پھل سے لدا
ہوا دیکھ نہیں سکتا تھا۔نوشیرواں نے بوڑھے کسان سے کہاکہ جوپودا تم آج لگا
رہے ہو وہ تمھاری زندگی میں تو پھل دے نہیں سکتا توپھر تم ایسا کیوں کر رہے
ہو ؟ بوڑھے کسان نے جواب د یا ( اوروں نے لگائے، ہم نے کھائے )لہذا آج جو
کچھ ہم لگائیں گے اس سے آنے والی نسلیں مستفیذ ہوں گی ۔نوشیرواں کو بوڑھے
کسان کا جواب بہت پسند آیا لہذا اس نے خو ش ہو کر اسے انعام و کرام سے
نوازا تو بوڑھے نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا (کہ میر ا لگایا ہوا پودا اتنی
جلدی پھل دینا شروع کر دیگا )۔ نوشیرواں کو یہ جواب پہلے سے بھی زیادہ پسند
آیا لہذا خوش ہو کر بوڑھے کو مزید انعام و اکرام سے نوازا۔سچ تو یہ ہے کہ
آنے والی نسلوں کی فلا ح و بہبود ،ان کی نجات اور ان کی سہولت کاری ہی وہ
جوہرِ انسانی ہے جس میں انسانیت کا سارا حسن پوشیدہ ہے اور جسے ہر انسان
سراہتا ہے یہی کیفیت آد مِ خاکی کی بھی ہے کہ وہ عظیم بن کر عوام الناس
کیلئے ایسا طرزِ عمل اپنانا چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے گرویدہ ہو جائیں ۔عوام
الناس سے اٹوٹ محبت وہ بنیادی کلید ہے جو کسی بھی انسان کو دوسروں کے دلوں
میں جا گزیں ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔انسان کا ایغو ،انا پرستی،نسلی
امتیاز، خاندانی تفاخر، ذاتی جوہر ، بلند وبالا عہدہ اس کے دل و دماغ کو
اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور لہو کی مانند اس کی رگوں میں دوڑنے لگتا ہے
تو انسان برترمی کے زعم کا شکار ہو جاتا ہے اور یوں وہ عوام سے کٹ کرایک
محدود دائرے میں سمٹ کر عوام الناس کے دلوں سے اتر جاتا ہے۔لیکن وہ انسان
جو خدمتِ خلق کے جذبوں سے لیس ہو جائے وہ محبوبِ خلائق بن جا تا ہے ۔بقولِ
اقبال۔(خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے ۔،۔ میں تو
اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا)۔،۔
خدائی خدمت گار کی زندگی محنت،لگن، جفا کشی،علم و حکمت ، دیانت اور عوام
الناس سے سچی محبت کی امین ہوتی ہے اور جس پر چلنے کا صلہ صرف کامیابی ہی
ہوا کرتا ہے۔ بڑے خاندان کا چشم و چراغ ہونے کے باوجودجو لوگ نامساعد حالات
میں شاہراہِ زندگی پر اپنے نشاں ثبت کرتے ہیں قابلِ فخربن جاتے ہیں۔مالی
مشکلات اور معاشی تنگدستی کے باوجود کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونا کارِ
ہر دیوانہ نیست۔ایسا معدودے چندلوگوں کا مقدر ہوا کرتا ہے ۔ایسا انسان جو
دنیا پیدا کرتا ہے اس میں اس کی ذاتی تمناؤں ، آرزوؤں ،ریاضتوں اور محنتوں
کے ساتھ غیبی عطاؤں کا ہاتھ بھی ہوتا ہے ۔بڑے انسان کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ
وہ اپنے ذاتی جوہر کی نفی کرتے ہوئے عطا اور دعا کو ہی اپنی کامیابی کی
بنیاد سمجھتا ہے حالانکہ اس میں اس کا ذاتی جوہر،دانش،حکمت اور محنت بھی
شامل ہوتی ہے ۔سچ تو یہی ہے کہ اگر اگر نیلی چھتری والا مہربان نہ ہو تو
انسان کی ساری خو بیاں دھری کی دھری رہ جائیں ۔ چشمِ فلک مہربان ہو جائے تو
صحرا میں بھی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں،حالات کے تندو تیز ریلے خود بخود تھم جاتے
ہیں ،مخالفین کی ریشہ دوانیاں دم توڑ جاتی ہیں اور حاسدین کی سازشیں نقش بر
آب ثابت ہوتی ہیں۔ویسے تو خدا اپنی ساری مخلوق پر ہی مہربان ہوتا ہے لیکن
کچھ افراد کو وقت کو الٹ دینے کا جوہر عطا کر کے اپنی خصوصی نوازشوں کا
اظہار کرتا ہے ۔ بقولِ اقبال۔ (یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
۔،۔سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب، فرزندی ) ۔،۔ (میری مشاطگی کی کیا ضرورت
حسنِ معنی کو ۔،۔ کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی) ۔
|