آپ کا اصل نام سفیر اﷲ صدیقی تھا جبکہ فلمی نام لہری تھا
اور لہری کے نام سے ہی آپ نے شہرت حاصل کی ہر سال تیرہ ستمبر کو لہری مرحوم
کی برسی کراچی میں منائی جاتی ہے آپ کو مداحوں سے بچھڑے نو برس ہو گئے ہیں
آپ2 جنوری 1929کو بھارت میں پیدا ہوئے لیکن تقسیم ہند کے بعد فوراً کراچی
ہجرت کر کے آ گئے اور یہاں بطور سٹینو ٹائپسٹ کے ملازمت اختیار کی آپ نے
اپنی فلمی سفر کا آغاز پچاس کی دھائی میں کیا تھا اس وقت بلیک اینڈ وائیٹ
کا زمانہ تھا آپ نے ریڈیو پر بھی صدا کاری کی 1956ء میں آپ کو ایک فلم
انوکھی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا جب آپ نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو
اس وقت منور ظریف،نذر،آصف جاہ اور یعقوب کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی
لیکن اس کے باوجود لہری نے اپنی جداگانہ انداز اداکاری سے فلم انڈسٹری میں
اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے پھر لہری صاحب کئی فلموں میں نظر آنے لگے
آپ نے جن فلموں میں کام کیا ان میں صائقہ،دل لگی،انسان بدلتا ہے،آگ کا دریا
،انجمن،دیور بھابھی،نئی لیلی نیا مجنوں،پیغام،کنیز،آج اور کل،نیا انداز
،بیوی ہو تو ایسی،صائمہ ،می وہ نہیں جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں آپ کی آخری
فلم دھنک تھی آپ کا فلمی سفر تیس برسوں پر محیط ہے اس عرصہ کے دوران لہری
مرحوم نے دو سو بیس فلموں سے زائد میں کام کیافن اداکاری میں آپ کی خدمات
کے صلے میں آپ کو 12نگار ایوارڈز سے نوازا گیا جب کہ 1996ء میں صدارتی تمغہ
برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا کیونکہ لہری مرحوم کا مکالمے بولنے کا
انداز سب سے منفرد اورجداگانہ تھا آپ کے مکالمے سن کر شائقین ہنس ہنس کر
لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے آپ نے ڈراموں میں بھی کام کیا آنگن ٹیڑھا اور سٹیج
ڈرامہ یس سر نو سر قابل ذکر ہیں لہری مرحوم جس انداز میں مکالمے ڈیلور کرتے
تھے یہی ان کی پہچان بنا یہ اگر پریشان بھی ہوتے تو بھی ان کے چہرے سے کبھی
بھی عیاں نہ ہوتا ہمیشہ ہی شائقین ان کے جملوں پر ہنستے آج تک کسی نے ان کے
مکالموں پر انگلی نہیں اٹھائی اور نہ کوئی ناراض ہوا ہے آپ اپنے جملوں اور
اداکاری کے کمال فن سے لوگوں تک مزاح کو پہنچایا کبھی بھی آپ نے ایسی کوئی
بھی جسمانی حرکت نہیں کی ہمیشہ اپنے مکالموں سے ہی لوگوں کو ہنسایا آپ
برصغیر کے واحد اداکار تھے جو اپنے مکالموں سے شائقین کے لبوں پر ہنسی
بکھیرتے تھے لہری مرحوم ایک اچھے اداکار تو تھے ہی لیکن آپ ایک اچھے انسان
بھی تھے ہر ایک کے ساتھ پیار و محبت سے ملتے تھے یہی وجہ ہے کہ سب ساتھی
فنکار و اداکار آپ کی عزت و احترام کرتے تھے لہری مرحوم کی اداکاری کو
دیکھتے ہوئے کئی اداکار اس فیلڈ میں آئے انہوں نے بھی لہری مرحوم کا انداز
اپنایا اور شہرت حاصل کی معین اختر مرحوم اور انور مقصود بھی لہری صاحب سے
متاثر ہیں
لہری مرحوم کو 1985میں دوران شوٹنگ فالج ہوا جس کے بعد ان کی طبیعت دن بدن
خراب ہی رہنے لگی اس فالج کے حملے کی وجہ سے آپ کی بینائی آہستہ آہستہ کم
ہونے لگی جس کی وجہ سے آپ نے فلموں سے بھی کنارہ کشی کر لی آپ کراچی میں
ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے ایک بار آپ کا بجلی کا بل کچھ زیادہ آ گیا
تو آپ نے میڈیا والوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجب بچوں نے مجھے بجلی کے بل
کی رقم دکھائی تو میں سمجھا کسی کا فون نمبر دکھا رہے ہیں ان کا کہنا تھا
کہ یہ مجھ پر ڈینگی وائرس سے بھی بڑا حملہ ہے پریشان ہوں کہ اب گذارہ کیسے
ہو گا لیکن آپ خود دار انسان تھے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتے تھے آپ طویل
بیماریوں میں مبتلا رہے آپ فالج کے ساتھ ساتھ شوگر کے بھی مریض تھے ان
بیماریوں نے آپ کو کمزور کر دیا اور روز براز آپ کی حالت خراب سے خراب تر
ہونے لگی شوگر کے مرض کی وجہ سے ہی آپ کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی آخری ایام میں
معین اختر مرحوم نے آپ کی دیکھ بھال کی جب پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا تو آپ
کو ہسپتال لایا گیا آخری وقت میں آپ کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا لیکن آپ کی
حالت نہ سنبھل سکی اور آپ 13ستمبر2012 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اﷲ
تعالی لہری مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا
فرمائے آمین ۔لہری مرحوم نے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار
چھوڑی ہیں۔
ہم نے کئی لیجنڈ اداکار ایسے دیکھے ہیں جن کی آخری زندگی بڑے کرب سے گزری
ہے آج کل عمر شریف بھی کچھ ایسی ہی حالت میں ہیں اور سخت بیمار ہیں ڈاکٹروں
نے ان کو باہر امریکہ لے جانے کا مشورہ دیا ہے جس کا خرچہ عمر شریف برداشت
نہیں کر سکتے انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ انہیں علاج کے لئے
حکومت پاکستان باہر بھیجے اس بار حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے
کہ ان کی زندگی بچ جائے اور وہ پھر سے اپنے وطن کے باسیوں کو ہنسانے لگیں
دعا ہے کہ اﷲ تعالی عمر شریف کو جلد روبصحت کرے آمین ہمیں ان فنکاروں کی ان
کی زندگی میں قدر کرنے کی ضرورت ہے مرنے کے بعد تو پھر چند الفاظ بول اور
لکھ دیے جاتے ہیں حکومت کو ان فنکاروں کے لئے فنڈ مختص کرنے کی بھی ضرورت
ہے تا کہ جب کسی فنکار یا اداکار کو ضرورت ہو تو وہ فنڈ ان کے لئے استعمال
کیا جا سکے عمر شریف کے لئے بھی فوری طور پر علاج کا بندوبست کیا جائے اس
سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔
|