جمعہ نامہ: کونو انصاراللہ کا مفہوم اور تقاضے

سورۂ آل عمران میں حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت کا مقصد یوں بیان ہواہےکہ :’’اور میں اُس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اِس وقت میرے زمانہ میں موجود ہے اوراس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض اُن چیزوں کو حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں دیکھو، میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں‘‘ اس مختصر تمہید کے بعد دعوت کے تقاضے بیان کیے گئے :’’ لہٰذا اللہ سے ڈرو (تقویٰ اختیار کرو) اور میر ی اطاعت کرو‘‘۔ ایسا کیوں کیا جائے ؟ اس سوال کے دو جوابات یہاں دئیے گئے ۔ پہلا یہ کہ :’’اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو‘‘۔ یعنی بندگی کا حقدار تو رب کائنات ہی ہے اس سے زیادہ نامعقول بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے رب کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی بجا لائے ۔ اس سوال کادوسرا جواب یہ ہے کہ ’’ یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔ عام خیال یہ ہے کہ دین حق کا راستہ طویل ہے اور دیگر راہیں شارٹ کٹ ہیں مگر ریاضی کا معمولی طالب علم بھی اس بات سے واقف ہے دونکات کے درمیان صراط مستقیم ہی مختصر ترین فاصلہ ہوتا ہے۔

ان معجزات و دلائل کے جواب میں :’’ جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو انہوں نے کہا ’کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہوتا ہے؟‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یا اس کا رسول کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مخاطبین کو اس کارِ خیر میں شامل ہونے کی پیشکش اور موقع عطا فرماتا ہے۔ کونو انصاراللہ کی پکار دراصل ایک عظیم سعادت ہے جس پر لبیک کہہ کر اہل ایمان اپنی دنیا اور آخرت سنوارتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے پکار پر:’’ حواریوں نے جواب دیا، "ہم اللہ کے مددگار ہیں‘‘۔ قیامت تک جب بھی یہ آواز لگائی جائے گی تو سعید روحیں آگے آئیں گی لیکن اس دعوت پر لبیک کہنے کے تقاضوں کو سمجھناضروری ہے۔ حواریوں نے اپنے متعلق پہلی بات تو یہ کہی کہ :’’ ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں‘‘۔ گویا ایمان اور اسلام یعنی غیر متزلزل یقین و کامل اطاعت و فرمانبرداری اس کا اولین تقاضہ ہے۔ آگے اس کی مزید وضاحت دعا میں یوں کی گئی کہ:’’مالک! جو فرمان تو نے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی قبول کی، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘ سورۂ صف میں کونوانصاراللہ کا تقاضہ قرآن کی سنت کی پیروی کے ساتھ دعوت و جہاد کی ذمہ داری بیان کی گئی ہے ۔

ارشادِ قرآنی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو‘‘۔ اس کے بعد وہی بات جو اوپر بیان ہوئی :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا: "کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟" اور حواریوں نے جواب دیا تھا: "ہم ہیں اللہ کے مددگار" اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے ‘‘۔ یہاں اخروی فلاح کے ساتھ دنیوی غلبہ کی خاطر نصرت الٰہی کے لیے دعوت و جہاد شرطِ لازم ہے ۔ بقول اقبال ؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2128 Articles with 1479940 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.