نماز مکمل ہوتے وقت جیسے ہی امام صاحب اسلام علیکم
ورحمتہ اللہ، اسلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتے ہیں نماز یوں کی اکثریت پچھلی
صفوں میں نماز کے لئے آئے ہوئے بچوں کے اوپر چڑھ دوڑتی ہے، اوئے چپ کرو، آپ
لوگوں کو مسجد کون لیکر آتا ہے، نماز میں شرارتیں کرتے ہو، آپ لوگوں کے
والدین کہاں ہیں؟ کتنے بدتمیز بچے ہیں، انکو عقل ہی نہیں ہے کہ نماز میں
باتیں نہیں کرتے، ہم سب کی نماز کو خراب کرتے ہو، چلو دفع ہوجاؤ یہاں سے،
آج کے بعد مسجد میں اپنی شکل مت دکھانا، اکثر اوقات ان بچوں پر تھپڑوں کی
بارش کردی جاتی ہے۔ بچوں کو بُرا بھلا کہنے والے حضرات نماز کے بعد مسنون
اذکارکرنا بھول جاتے ہیں۔ شوروغوغا اوربچوں کو تھپڑ مارتے ہوئے خود مسجد کے
تقدس کو پس پشت ڈال رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کراچی کی ایک
مسجد میں انتظامیہ کی طرف سے ایک نوٹس دیکھنے کوملا کہ وہ بچوں کے شور پر
صبر کریں اور مسجد میں آنے سے نہ روکیں،کیونکہ کل ہم اسی بچے کو منتیں کرکے
مسجد آنے کا کہیں گے۔ اور وہ بچہ مسجد میں جانے سے جان چھڑائے گا۔ راقم کو
اپنے بچپن کے واقعات میں اک واقعہ آج بھی یاد ہے نماز عصر کے لئے اپنے
دوستوں کیساتھ مسجد گئے اور مسجد میں ہلکی پھلکی بات چیت کررہے تھے، کیا
تھا کہ مسجد کے بہت ہی مشہور حاجی صاحب ہماری طرف لپکے اور دیکھتے ہی
دیکھتے ہم پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ آج اُس واقعہ کو تقریبا 30 سال سے زائد
عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی موصوف کے تھپٹروں کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اسی
طرح ایک اور واقعہ جو ہمارے محلہ کی مسجد میں وقوع پذیر ہوا۔ حسب روایت
نماز مکمل ہونے کی دیر تھی، بڑے بزرگوں نے بچوں کو للکارتے ہوئے مسجد سے
باہر نکل جانے کا کہنا شروع کردیا۔ انہی بچوں کے والد محترم بھی مسجد میں
نماز ادا کررہے تھے، بچوں کا والد انتہائی غصہ اور جذباتی ہوکر بولا کہ
مسجد میں موجود تمام افراد سے میرا سوال ہے کہ میں اپنے بچوں کو اگر مسجد
نہ لیکر آؤں تو کیا ان بچوں کو سینما گھر لیکر جاؤں۔ جذباتی باپ نے مسجد
میں موجود تمام افراد کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوا کہا کہ لوگو ں اللہ کا خوف
کیجئے، میں اگر اپنے بچوں کو مسجد میں لیکر نہ آؤں تو ڈر ہے کہ میرے بچے
بھی محلہ کے آوارہ بچوں کی طرح نہ ہوجائیں۔بچوں کے باپ کی یہ باتیں سننے کے
بعد بہت سے افراد شرمندہ ہوئے۔ حقیقت میں یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ
اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ڈائپر لگا کر سکول میں پری نرسری، پریپ، کے جی
وغیرہ پانچ چھ گھنٹوں کے لئے تو بڑے زور و شور سے بھیجتے ہیں مگر مسجد کے
معاملہ میں اتنے باادب بن جاتے ہیں کہ بچوں کا مسجد میں داخلہ بند کروانے
کے درپے ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ مسجد میں آنے والے یہ بچے محلہ
کے دیگر سینکڑوں بچوں سے کتنے افضل اور ممتاز ہوتے ہیں کہ جو محلہ میں کھیل
کود کی بجائے مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی
انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے جہاں نہایت ادب و احترام
کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوا جاتا ہے، لیکن اگر بچے مسجد میں اللہ کے
سامنے کھڑا ہونے یعنی نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑے بزرگ ان بچوں
کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں پر بجائے انکی اصلاح کرنے کے ان پر لعن طعن اور مار
پیٹ شروع کردیتے ہیں تو اس سے بچے کے نفسیات پر کیسے اثرات مرتب ہونگے یہ
شائد ہم نے کبھی سوچا نہیں ہے۔ مسجد میں ہونے والی لعن طعن مارپیٹ اور
تنقید سے بچوں کا مسجد سے باغی ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جہاں دین اسلام میں
مسجد میں بچوں کے بارے میں سختیاں ہیں تو انکے پیچھے ان بچوں کا انتہائی کم
عمر ہونا یعنی ایسے بچے جن کو پیشاب، پخانہ کرنے کی تمیز یا شعور نہیں
ہوتا۔ جب کہ مسجد میں آنے والے 7 سال سے اوپر کے بچے اتنا شعور رکھتے ہیں
کہ مسجد کے اندر گندگی نہ کی جائے۔ اور احادیث کی روشنی میں نماز کے لئے
بچے کو 7 سال کی عمر سے ترغیب دینے کا حکم ملتا ہے۔ عہدِ نبوی ﷺ میں جہاں
بچوں اور پاگلوں کو مسجد سے دور رکھنے کا حکم دیا گیا، وہیں خود حضرت حسن
اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مسجد میں آنا اور نماز کے دوران آپ
ﷺ کی کمر پر سوار ہوجانا بھی منقول ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ ہم آپ ﷺکے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدہ میں
تشریف لے گئے تو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ ﷺ کی کمر
پر چڑھ گئے، پھر جب آپ ﷺ سجدہ سے سرمبارک اٹھانے لگے تو انتہائی پیار سے
آہستہ سے انہیں کمر سے ہٹا کر زمین پر رکھا۔ اسی طرح آپ ﷺ کی نواسی حضرت
امامہ بنت ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہا بھی نماز میں آپ ﷺ کے کندھے پر
چڑھ جاتی تھیں، نیز ایک حدیث میں ہے کہ: اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ میں
بسا اوقات نماز میں بچوں کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز میں تخفیف
کردیتا ہوں؛ تاکہ کہیں اس کی ماں پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائے۔ان احادیث کی
روشنی میں یہ ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ مسجد میں آنے والے بچوں کی حوصلہ شکنی
یا مارپیٹ کی جائے۔ بدقسمتی سے مسجدیں پہلے ہی ویرانی کا منظر پیش کررہی
ہوتی ہیں ہزاروں کی آبادی والے محلہ کی مسجد میں نماز کے وقت بمشکل ہی سے
دو یا تین صفیں مکمل ہوتی ہیں۔ترکوں کی بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ مسجد میں
نماز کے دوران اگر بچوں کا شور سنائی نہ دے تو اپنی آنے والی نسلوں کی فکر
کریں وہ لادین ہوں گی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بچوں کو پیار و محبت سے مسجد کے
آداب سکھلائے جائیں نہ کہ لعن طعن اور تھپڑوں کی بارش کردی جائے۔ اللہ کریم
ہم سبکو ہدایت نصیب فرمائے اور مسجدوں کو آباد کرنے والا بنائے۔ آمین ثم
آمین
|