#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{.سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 1
تا 9 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓم 1
احسب الناس
ان یقولوااٰمنا وھم
لایفتنون 2 ولقد فتنا
الذین من قبلھم فلیعلمن
اللہ الذین صدقواولیعلمن
الکٰذبین 3 ام حسب الذین
یعملون السیاٰت ان یسبقوناساء
مایحکمون 4 من کان یرجوالقاء
اللہ فان اجل اللہ لاٰت وھوالسمیع
العلیم 5 ومن جاھد فانما یجاھد لنفسهٖ
ان اللہ لغنی عن العٰلمین 6 والذین اٰمنوا
وعملواالصٰلحٰت لنکفرن عنھم سیاٰتھم ولنجز
ینھم احسن الذی کانوایعملون 7 ووصیناالانسان
بوالدیه حسنا وان جٰھدٰک لنشرک بی مالیس لک بهٖ
علم فلاتطعھما الیّ مرجعکم فانبئکم بما کنتم تعملون
8 والذین اٰمنواوعملواالصٰلحٰت لندخلنھم فی الصٰلحین 9
اے محمد ! اللہ نے زمان و مکان کے ہر ایک ثانیۓ اور ہر ایک دورانیۓ سے یہ
کلامِ ماضی آپ کے لیۓ جمع کیا ھے تاکہ آپ کے اتباع کاروں پر یہ اَمر واضح
کر دیاجاۓ کہ علم و عمل کی اِس کتاب کے نزول کے بعد اِس کتاب کے علمی
تقاضوں کی عملی آزمائش سے گزرے بغیر اُن کا زبان سے اتنا کہہ دینا ہی کافی
نہیں ہوگا کہ ھم ایمان لے آۓ ہیں بلکہ اِس علمِ کتاب کے بعد اُن کا اِس
علمِ کتاب کی عملی تربیت سے گزرنا بھی لازم ہو گا کیونکہ زمان و مکان کی ہر
تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ اِس سے قبل بھی ہر ایک زمانے اور
ہر ایک زمین کی ہر ایک قوم کے صدق و کذب کی مقدار کو اُس کے قول و عمل کے
اسی معیار سے جانچ کر ہی ہمیشہ یہ معلوم کیا جاتا رہا ھے کہ کون سے لوگ
اپنے کس خیال کے تحت ھمارے سامنے بدعملی کرتے ہیں اور کون سے لوگ اپنے کس
تصور کے تحت ھماری قُوت و قُدرت سے آزاد ہونے کی کوشش کر رھے ہیں ، پھر اُن
اَقوام میں سے جس قوم کے دل میں ھم نے اپنے رَب سے ملنے کی جو آس دیکھی ھے
تو اُس آس کو بھی ھم نے اپنی اسی آزمائش سے جانا اور سُنا ھے یہاں تک کہ جس
قوم کے جس فرد نے اپنی ذات کے لیۓ کوئی سعیِ حیات کی ھے تو اُس پر بھی ھم
نے ایک نگاہ ضرور ڈالی ھے حالانکہ جو چیز دُنیا کی نگاہ سے نہاں ہوتی ھے وہ
اللہ کی نگاہ میں ہمہ وقت عیاں ہوتی ھے ، اسی طرح جس زمانے اور جس زمین کی
جو قوم اللہ پر ایمان لائی ھے اور وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق
آزمائشِ حیات سے گزری ھے تو اُس قوم کو بھی ھم نے اُس کے عمل خیر کی جزاۓ
خیر دی ھے اور ھم نے ہر زمانے میں ہر زمین کے انسان کو اِس اَمر کی بھی
ھدایت کی ھے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہر حال میں بَھلائی کرے اور ہر حال
میں اُن کا کہا بجاۓ لاۓ سواۓ اِس ایک اَمر کے کہ اگر وہ اللہ کی ذات کے
ساتھ تمہیں کسی کو شریکِ اختیار و اقتدار بنانے کا حُکم دیں تو اُن کے اُس
حُکم سے انکار کر دیاجاۓ کیونکہ تُم سب نے اللہ کے پاس جانا ھے اور تُم سب
نے اپنے اُن سب اعمالِ خیر و شر کا جواب دینا ھے جو اعمالِ خیر و شر حساب
کے دن اللہ تُم پر ظاہر کرے گا اور تُم سے اُن سب اعمال کے بارے میں سوال
کرے گا اور اُس روز جس انسان کی جو ایمانی اہلیت اور جو عملی صلاحیت سامنے
آۓ گی اُس کی اُس اہلیت و صلاحیت کے مطابق ہی اُس صلاحیت کار انسان کو اُن
صلاحیت کار لوگوں میں شامل کیا جاۓ گا جن کے اعلٰی اَنجامِ خیر کے ساتھ اُس
کا بھی ایک اعلٰی اَنجامِ خیر ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
دین و ایمان کی رُو سے دُنیا میں اللہ تعالٰی کو ماننے یا نہ ماننے کا
مسئلہ ہی ہمیشہ دُنیا کا سب سے بڑا مسئلہ اور دُنیا کا سب سے اھم مسئلہ رہا
ھے کیونکہ اَزل سے اَب تک دُنیا کی تَخلیق کا مقصد ہی ہر جنسِ مخلوق اور ہر
فردِ مخلوق سے یہ اَمرِ حق تسلیم کرانا رہا ھے کہ اللہ تعالٰی کی اِس دُنیا
کا ، اِس دُنیا کی ہر جنسِ مخلوق کا اور ہر جنسِ مخلوق کے ہر فردِ مخلوق کا
خالق صرف اللہ تعالٰی ھے اور اللہ تعالٰی کی اِس ساری تخلیق میں اللہ
تعالٰی کی کسی مخلوق کی کوئی جنس اور کسی جنس کا کوئی فرد بھی اللہ تعالٰی
کی اِس تخلیق میں اُس کا شریکِ علم بھی نہیں رہا ھے اور شریکِ عمل بھی نہیں
رہا ھے ، دُنیا میں اللہ تعالٰی کے جتنے بھی اَنبیاۓ کرام تشریف لاۓ ہیں وہ
سب کے سب اللہ تعالٰی کی اسی تخلیق کی تصدیق اور اُس کی اسی تعلیم کی ترویج
کے لیۓ تشریف لاۓ ہیں ، قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم کی دُوسری بہت سی
سُورتوں کی بہت سی اٰیتوں کی طرح قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اِن اٰیات
میں بھی انسانی عبرت کے لیۓ دُنیا کا وہ اَحوالِ ماضی اور اُس اَحوالِ ماضی
کی اُن تاریخی تمثیلات کو اُن کی واقعاتی تفصیلات کے ساتھ پیش کیا ھے تاکہ
انسانی نگاہ میں اُس تخلیق اور اُس تعلیم کا وہ پُورا نقشہ آجاۓ جس نقشے
میں انسان کو اپنا وہ پُورا ماضی اور اپنا یہ پُورا حال نظر آجاۓ جس کے
دونوں حاضر و غائب کناروں کو دیکھ کر وہ اپنے مُستقبل کا وہ عملی نقشہ بناۓ
جو اُس کو راستی کے ساتھ اُس راستے پر چلاتا چلا جاۓ جو اُس کو اُس کے اُس
مطلوبہ مقامِ نجات تک لے جاۓ جس تک جانا اُس کا مقصدِ حیات ھے ، اِس سُورت
کا موضوعِ سُخن یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کی اِس مادی دُنیا میں بے شمار علمی و
فکری اور بے شمار خیالی و بصری مادی طاقتیں موجُود ہیں جن میں سے ہر طاقت
کو ابتدائی زمانے کا ابتدائی انسان اِس دُنیا کی سب سے بڑی طاقت جان کر اُس
کے سامنے اپنا سر جُھکاتا رہا ھے یہاں تک کہ جب انسان کو اللہ تعالٰی کے
اَنبیاۓ کرام کی تعلیمات کے ذریعے اللہ تعالٰی کے تنہا قائم بالذات ہونے کا
یقین بھی حاصل ہو گیا تو اِس یقین کے بعد بھی وہ انسان اِن مادی صورتوں کی
خیالی طاقتوں کو اپنے خیال سے نہیں نکال سکا بلکہ اُس نے اِن میں سے کُچھ
طاقتوں کو اللہ تعالٰی کا مُقرب بنا کر اپنے اِس احمقانہ خیال سے اللہ
تعالٰی کا شریکِ اقتدار و اختیار بھی بنالیا کہ دُنیا کی یہ طاقتیں اگرچہ
دُنیا کی خالق تو نہیں ہیں لیکن دُنیا کے خالق سے کُچھ اتنی زیادہ دُور بھی
نہیں ہیں کہ وہ انسان کی فریاد نہ سُن سکیں اور انسان کی جو فریاد سُن سکیں
تو وہ فریاد سُن کر اللہ تعالٰی تک نہ پُہنچا سکیں اور جو فریاد اللہ
تعالٰی تک پُہنچا سکیں تو اللہ تعالٰی کے سامنے ھماری اُس فریاد کے بارے
میں کوئی سفارش بھی نہ کرسکیں ، قدیم انسان کا یہی وہ احمقانہ خیال تھا جس
خیال کے تحت عھدِ نبوی کے عرب مُشرکوں نے اپنے بہت سے خیالی دیوی اور دیوتا
، بہت سے خیالی فریاد رَس اور گنج بخش ، بہت سے خیالی جن اور انسان ، بہت
سے دستی بُت اور خیالی بُھتنے اور بہت سے پیر فقیر اور کرنی والے اپنے ایسے
حاجت روا و مُشکل کشا بنا رکھے تھے جن کے بارے میں اُن کا یہ گمان تھا کہ
اللہ تعالٰی اُن کی بد عملی کے باعث اُن کی زبان سے جو بات نہیں سُنتا ھے
تو وہ اُن کے اِن پیروں فقیروں اور اِن کے اِن کے اِن پنڈتوں پروہتوں اور
اِن کے اِن کرنی والے بابوں کی زبان سے ضرور سُن لیتا ھے اور اِن دُھلے دل
بابوں کی سفارش بھی مان لیتا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ دُنیا کی پہلی اور
آخری طاقت صرف اللہ تعالٰی کی طاقت ھے اور زمین و آسمان کی ہر مادی و
رُوحانی طاقت اللہ تعالٰی کی اُس اَزلی و اَبدی طاقت کے سامنے ہمیشہ سے
ہمیشہ کے لیۓ عاجز و لاچار ھے ، قُرآنِ کریم نے مُشرکین کی اِس مانگے تانگے
کی طاقت کے بارے میں بتایا ھے کہ یہ مُشرکین و فاسقین اگرچہ اپنے خیال کے
مطابق اپنی اِن خیالی بابوں میں سے ہر بابے کو اپنی ضرورت کے وقت اپنی سب
سے بڑی طاقت خیال کرتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کی
طاقت اُس کی اُس مخلوق کی ذات اور ضروت کی حد تک تو ضرور بڑی طاقت ہوتی ھے
لیکن جب اللہ تعالٰی کے حُکم سے کسی دُوسری طاقت ور مخلوق کی جو طاقت اُس
پر حاوی ہوتی ھے تو وہ طاقت اُس طاقت کو ایک لَمحے میں فنا کر دیتی ھے اور
اللہ تعالٰی نے اِس اَمر کی مثال یہ دی ھے کہ {عنکبُوت} یعنی مَکڑی Spidef
جو اُس کی ایک چھوٹی سی مخلوق ھے جو اپنے علمِ خُدا داد کے مطابق اپنا وہ
جالی نُما گھر بناتی ھے جو اُس کے خیال کے مطابق اُس کا ایک ایسا مضبوط گھر
ہوتا ھے جس کا بظاہر ایک آندھی بھی کُچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن جب اللہ
تعالٰی کے حُکم سے ہوا کا ایک فعّال جھونکا آتا ھے تو مکڑی کا وہ گھر
مُشرکین کے معبودانِ باطلہ بناۓ ہوۓ اُس کم زور دیو مالائی گھر کی طرح ایک
کم زور ترین گھر ثابت ہوتا ھے ، اٰیاتِ بالا میں جس بات کو زیادہ نمایاں
کیا گیا ھے وہ یہ ھے کہ زمانے کی بَھٹی میں جس طرح پہلی اُمتوں کے علم و
عمل کو آزمایا گیا ھے اسی طرح اِس اُمت کے علم و عمل کو بھی آزمایا جاۓ گا
تاکہ جس انسان کے جس ناکارہ علم و عمل کی بنا پر اُس کو جو جزا و سزا دی
جاۓ اُس پر کسی دُوسرے انسان کوئی نُکتہِ اعتراض اُٹھانے کا موقع نہ مل سکے
اور انسان کو عملی آزمائش سے گزارنے کے بعد جزا و سزا دینے کا یہی طریقہ
ھمارا قدیم اور مقررہ طریقہ ھے جس کے تحت ھم ہر قوم کو جزا و سزا دیتے رھے
ہیں اور جس طرح ھم پہلی اُمتوں کو اِس طریقے سے گزارتے رھے ہیں اسی طرح اِس
اُمت کو بھی جزا و سزا کے اسی طریقے سے گزاریں گے اور جزا و سزا کے دن اپنے
اُسی قدیم طریقے کے مطابق جزا اور سزا دیں گے !!
|