پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کے افسانے ’’ دخمہ ‘‘ پر ایک نظر

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
پارسیوں کے ایک شہر سے متعلق دخمہ ( پارسیوں کا قبرستان ) ایک المیہ افسانہ ہے جس کا آغاز ہی اس کے مرکزی کردار ایک پارسی شخص ’’ سہراب ‘‘ کی اچانک موت سے ہوتاہے ۔ اس افسانے میں بے ساختہ انداز میں سامنے آنے والی تکنیک کا تنوع قاری کو حیرت زدہ کر دیتاہے ۔ افسانہ نگار نے قوت حافظہ ،جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی وادی میں گھوم کر جو مواد سمیٹاہے اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ اس شہر سے مصنف کے ماضی کی متعدد یادیں وابستہ ہیں۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے افسانہ نگار نے اس شہر سے وابستہ یادوں کو افسانے میں سمو دیاہے ۔ افسانہ نگارنے تجسس کی فضابرقرار رکھتے ہوئے اِن یادوں کی مشعل تھام کرسفاک ظلمتوں میں روشنی کا سفر جاری ر کھتے ہوئے کہانی کو ایک نیا موڑ دیاہے جس میں اپنی مر حومہ بہن ،مرحوم بہنوئی اور اپنی کا ذکر کیا ہے جو اسی شہر نا پرساں میں رہتے تھے ۔ افسانہ نگار کی بھانجی بھی اپنے شوہر کے ساتھ اسی شہر میں مقیم تھی ۔سہراب ایک قحبہ خانے کا مالک تھاجسے گردِ شِ ایام نے مکمل انہدام کے قریب پہنچادیا۔ مے کدہ میں آنے والے سب لوگ سہراب کی مہمان نوازی اور اس کی خوش اخلاقی کے معترف تھے ۔ افسانے ’’ دخمہ ‘‘ میں شعور کی رو کو رو بہ عمل لاتے ہوئے جذبات ،احساسات ،گردشِ ایام اور میزانِ صبح و شام کے ساتھ جو تجربہ کیا گیاہے اس کاکرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے۔ اپنے اس مقبول افسانے میں پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کی ہے وہاں لمحہ ٔ موجود کے حالات کو بھی پیش ِ نظر رکھا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ قاری کو آنے والے دور کی دُھندلی سے تصویر بھی دکھائی ہے ۔ ،اس افسانے میں بلاواسطہ دروں بینی کے مظہر تکلم کے سلسلے ،بالواسطہ قلبی کیفیات کا اظہار ،افسانہ نگار کی وسعت ِ نظراور اپنے قلب کے ساتھ پیہم جاری ر ہنے والے افکارِ تازہ کے مظہر معاملات قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ افسانے میں بات کو آگے بڑھانے کے لیے افسانہ نگار نے آزاد تلازم کا بر محل استعمال کیا ہے۔ اپنی فنی مہارت سے افسانہ نگار نے نہ صرف شعور کی ہر احتیاج کو ملحوظ رکھاہے بل کہ آزاد تلازم کے وسیلے سے اِ سے رنگ ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے تمام استعاروں کا مخزن بنا دیاہے۔

افسانہ نگار نے واحد متکلم کے صیغے میں چٹان پر تعمیر کیے گئے اپنی بہن کے خوب صورت گھر ،کچھ فاصلے پر مسجد ، اس سے آگے گرجا ، اس سے آگے ڈرامہ تھیٹر کی عمارت ، انگریزوں کی ریز یڈنسی ،مجرد گاہ اورشہر سے کچھ دُور شہر کے رئیس راجا صاحب کی بہت بڑی حویلی کے قریب سہراب کا ’’ مے کدہ ‘‘ جیسے مقامات کی اس مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ قاری چشمِ تصور سے وہ تمام مقامات دیکھ لیتاہے جن کی جانب اشارہ کیا گیاہے ۔ دخمہ کے بارے میں ایک کردار چاچا نے نو عمر بچوں کو گول عمارت ’’ دخمہ ‘‘کے بارے میں بتایا :
’’ یہ ’’ دخمہ ‘‘ اِس کی چھت درمیان سے اُونچی ہوتی ہے اور چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔مرد کی نعش بیرونی دائرے میں ،عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تا کہ ان پر تیز دُھوپ پڑے اور گِدھوں کو دُور سے نظر آجائے ۔‘‘
اس افسانے میں ’’ چاچا‘‘ ایک جہاں دیدہ کردار ہے جو ہر اُلجھن کو سُلجھا دیتاہے پُر اسرار کتے کے بارے میں چاچا نے بتایا:
’’ اِسے ’’ سگ دِید ‘‘ کہتے ہیں ۔چار آ نکھوں والا کتا۔۔۔اِس کی چار آ نکھیں نہیں ہیں لیکن آ نکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آ نکھیں نظر آتی ہیں ۔یہ ’’ سگ دید ‘‘ ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ کرتاہے ۔‘‘
چاچا جانتاہے کہ یہ بچے معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔معاشرتی زندگی میں انسان شناسی ایک کٹھن مرحلہ ہے اس کے لیے بہت تپسیا درکار ہے ۔کم عمر بچے بہ ظاہر چار آ نکھو ں والے ایک عجیب الخلقت کتے ’’ سگ دِید ‘‘ کے بارے میں یہ جان کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ ایک پُر اسرار کتا کسی آدمی کے نیک یا بد ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت کیسے رکھتاہے ۔ نو خیز بچوں کے سوال سُن کر چاچا کا جواب حقائق کا آ ئینہ دار ہے :
’’ جب بڑے ہو جاؤ گے تو خود ہی پتا چل جائے گا۔‘‘
سہراب کامے کدہ بند ہو جانے کے بعداُس کو جان کے لالے پڑ گئے مگر شہر نا پرساں میں کسی نے اُس کے دِل شکستہ اور چشم تر کی جانب توجہ نہ دی ۔اس کے بعد وہی ہوا جس کی تو قع تھی ایک دن چپکے سے سہراب زینۂ ہستی سے اُترگیا۔
موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔مے کدہ بند ہو جانے کے بعدسہراب نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کی تمنا میں سہراب جیسے الم نصیب جگر فگار انسانوں کے رنج و کرب کی جو تصویر پیش کی ہے وہ قاری کو خون کے آ نسو رُلاتی ہے ۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہء جاں معطر ہو گیا ۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کو مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتے تھے کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی تخلیقات کے اسلوبیاتی مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتے تھے کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی تخلیقات میں نُدرت ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے اُنھیں سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنے میں ہمیشہ انہماک کا مظاہر کرتے تھے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی تخلیقی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔اُن کے دل کش ،حسین اور منفرد اسلوب میں ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُن کا مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا ہے ۔ مثال کے طوروہ تاریخ کے پیہم رواں عمل ،معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز ،تہذیب و ثقافت کی کیفیات ، پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی تخلیقات کو گنجینہ ٔمعانی کا طلسم بنا دیتے ہیں ، بھنورکے بھید ،خیال کی جوت ،جھرنے کا ساز،کوئل کی کوک ،گیت کی لے ،وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں جیسا تصور زندگی کی کم ما ئیگی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتے چلے جاتے ہیں۔انھیں اچھی طرح معلوم تھاکہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوتے بل کہ نہایت جرأت کے ساتھاپنی تخلیقات کو تزکیہء نفس کا وسیلہ بنانے پر توجہ مرکوزرکھتے تھے ۔ حرفِ صداقت سے لبریز پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کی تخلیقات اُن کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہیں ۔موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتے ہیں وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ا ُن کے افسانوں کے مطالعہ کے بعدقاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کوپیرایہ ٔاظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔
سال 1904ء میں قائم ہونے والے سہراب کے مے کدہ میں شاعر اور ادیب اکٹھے ہوتے اوریہاں بیٹھ کر معاشرتی زندگی کے مسائل اور نئی تخلیقات پر اظہار ِخیا ل کرتے تھے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اس افسانے میں پارسی ڈشوں کا بھی ذکر کیاہے ۔دسترخوانوں پر سجائے جانے والے مختلف طعام کسی قوم یا علاقے کی قدیم تاریخ اور تہذیب کے بارے میں مثبت شعور وآ گہی پیداکرنے کاسب سے موثر وسیلہ ہیں۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کو اس بات کا قلق ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں قدیم عمارات اپنی شناخت سے محروم ہو گئیں۔ اس افسانے میں انھو ں نے کھیتوں اور کھلیانوں سے سر اُٹھاتی کچی آبادیوں کو پورے علاقی کی تہذیبی اور ثقافتی پہچا ن کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے ۔ پس نو آبادیاتی دورمیں حیدر آبادکے وسیع علاقے میں حالات نے جو رُخ اختیار کیا افسانہ نگار نے اس کی صحیح تصویر کشی کی ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد دکن میں سیاسی رسہ کشی کے نتیجے میں جو عدم استحکام پیدا ہوا اس کے بارے میں پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے سچ کہا ہے :
’’ پولس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیاتھا۔مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پور ی قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر نئی حد بندیاں کی گئیں ۔ریاست کے تین ٹکڑے کر دئیے گئے۔برسوں گزر جانے کے بعدبھی یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے ۔اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے ۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حد بندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔دو مختلف کلچر !!جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اُس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی ۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا سیاسی دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے اُن کے ہاتھ آ گیا۔وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہو گئے ۔ ‘‘
اس افسانے میں ادیبوں کے مسائل کا ذکر قاری کو پس نو آبادیاتی دور کی کٹھن زندگی سے روشناس کرتاہے ۔سہراب کا مے کدہ در اصل ادیبوں کے مِل بیٹھنے کی ایسی جگہ تھی جہاں وہ ایک گونہ بے خودی کی جستجومیں مے سے لطف اندوزہوتے تھے۔شہر کے ادیبوں کے مل بیٹھنے کا واحدمرکز’’مے کدہ ‘‘ بندہوا تو شہر کے ادیب بھی منتشر ہوگئے ۔سیل ِزماں کے تھپیڑے سب کچھ بہا لے گئے اور کسی کو بھی یہاں کے مکینوں کا اتاپتامعلوم نہ تھا۔ بے حس معاشرے نے قوم کی دیدہ ٔ بینا کو حالات کی سنگینی دیکھنے سے روک دیاتھا۔ تیامت ،ابزواور عوج بن عنق قماش کے لو گوں کی سادیت پسندی کے باعث بے بس انسانوں پر کوہِ ستم ٹوٹااس کے نتیجے میں ہر طرف بے حسی کاعفریت منڈلارہاتھا۔سہراب کے ’’ مے کدہ ‘‘کے بند ہونے کے بعدکی دردناک کہانی کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے لکھا ہے :
’’ ’’ ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیاتھا،فرد کو مشین قرار دیا گیاتھااور تنہائی کو ہمارا مقدر !!یہ تسلیم کر لیا گیا تھاکہ تاریخی، تہذیبی،قومی،معاشرتی،جذباتی و ذہنی ہم آ ہنگی کی سار ی روایتیں منہدم ہو چکی ہیں۔پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا۔‘‘
پس نو آبادیاتی دور میں حیدر آباد میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر شکست وریخت کا جو سلسلہ شروع ہوا افسانہ ’’ دخمہ ‘‘ میں اِس سانحہ پر دِلی رنج و کرب کا اظہار کیا گیاہے ۔سیلِ زماں کی زد میں آنے کے بعد بھی یہاں کے زعما ٹس سے مس نہ ہوہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز بد ل گئی اور بے حس دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔حیدر آباد کے مکینوں نے نسل در نسل اذہان کی تطہیر وتنویر اورمحاسن اخلاق کی تقطیرسے کردار ،تصورات اور تعلقات کو اس قدر وسعت اور تنوع سے آ شنا کیا کہ یہاں کے باشندے تہذیبی ترفع کے ہمالہ کی بلند ترین چوٹی تک جا پہنچے۔ وہ خطہ جو حریت فکر و عمل کے اعجاز سے صدیوں تک تہذیبی و ثقافتی اقدار کا مر کز رہا پس نو آبادیاتی دور میں وہاں سیاسی انتشار اور افراتفری نے زندگی کی درخشاں روایات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔جہد و عمل اورصبر و استقامت سے مزین پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس کا اسلوب فروغِ علم و ادب اور معاشرتی اصلاح کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہواہے ۔ ایک با کمال افسانہ نگار کی حیثیت سے افسانے ’’ دخمہ ‘‘ میں پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے تہذیبی و ثقافتی انہدام کو روکنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے ۔انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ تہذیبی انحطاط کایہ مسموم ماحول کہیں اس خطے میں موجود نسل انسانی کی کشت ِجاں کو ویران اور اُمیدوں کی فصل کو غارت نہ کردے ۔سہراب جیسے بے بس لوگوں کے الم ناک حالات پر توجہ نہ دے کر اس شہر نا پرساں کے باشندوں نے تہذیبی سطح پر اپنے مفلس و قلاش ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔اس افسانے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سہراب کا مے کدہ تو بند ہو گیا مگر اس شہر ِ نا پرساں کے باشندے سہراب کو وہ عزت و احترام دینے سے بھی قاصر رہے جس کا وہ مستحق تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنے اس افسانے میں کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’چند برسو ں میں سب کچھ بدل گیا،جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچا سکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کوچھوڑ کر سر حد کے اُس پار جا بسے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہو گئے ۔ولی عہد نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنا لیا۔رعایا کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تو اس طر ح خوشی سے پاگل ہونے لگتے جیسے کوئی فاتح اپنی سلطنت کو لوٹاہو۔نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی ۔نہ امرا کو نہ عوام کو ۔‘‘
سہراب کی الم ناک موت اور دخمہ کی چھت پر اُس کی نعش پر بڑ ی تعداد میں جب غول در غول گِدھ پہنچے تو یہ لرزہ خیزاور اعصاب شکن منظر دیکھ کر قاری کی آ نکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔سہراب نے شادی نہیں کی تھی اس لیے وہ اجنبی اور بے نشاں بن کر رہ گیا تھا ۔میرا خیال ہے کہ ایسے مظلوم انسان کی موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی خالق کائنات کا فرمان ہے ۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے واضح کیا ہے کہ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس حصے کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔غیر مختتم محرومی، یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے اپنی تخلیقات میں قاری کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ بعض اوقاتہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟
اس افسانے کاکردار سہراب حالات کے مہیب پاٹوں میں پِس گیا اور ایک شام دم توڑ گیا۔
پارسی رسوم کے مطابق سہراب کی نعش ’’ دخمہ ‘‘ پر منتقل کر دی گئی ۔ فضا میں بڑی تعداد میں گِدھ منڈلانے لگے ۔یہ خوف ناک منظر دیکھ کر بچوں نے چاچا سے پُوچھا :
’’ اور چاچا یہ گدھ کہاں سے آ جاتے ہیں ؟‘‘
چاچانے جب یہ سوا ل سُنا تو بچوں سے یہ سوال پُوچھا:
’’ اگر فرش پر چینی گِر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں ؟‘‘
چاچا نے بچوں کے سوال کا جواب بھی سوال ہی میں دیا۔
فضامیں غول در غول گِدھ منڈلاتے دیکھ کر بچوں کے فکر وخیال میں جو ہلچل مچی تھی اُس نے انھیں مضطرب کر دیا۔ اُن کے ذہن میں دخمہ کی چھت پر رکھی سہراب کی نعش کا خیال تھا۔
بے حس معاشرے کے وہ سفاک باشندے جنھوں نے زندگی بھر سہراب کی خبر نہ لی سہراب کی موت کے بعد دخمہ پر رکھی اس کی نعش کو دیکھ رہے تھے اور انھیں اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ فضا میں گدھ کب اور کس طرف سے نمودار ہوتے ہیں ۔ پارسی اپنے رفتگاں کی نعش گِدھوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں تا کہ وہ انھیں نوچ کر کھا جائیں ۔طوفانِ یاس میں غرق پارسی اس تشویش میں مبتلاتھے کہ رفتہ رفتہ گِدھ معدوم ہو رہے ہیں اور اگر دخمہ کی چھت پر بڑ ی تعدادمیں گدھ نہ پہنچے تو پارسی رسوم کے مطابق سہراب کی نعش کوے کھائیں گے جوبہت بُر اشگون ہے ۔
’’ گِدھوں کا ایک جُھنڈ تیزی سے دخمہ کی طرف آ رہا تھا۔پارسیوں کے چہرے خوشی سے کِھل اُٹھے ۔بیس برس بعدیہ منظر لوٹاتھا۔‘‘
’’ پتانہیں کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ وہ ایک دوسر ے سے سوال کر رہے تھے
’’ اگر فرش پر چینی گِر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں ؟‘‘
چاچاکی آواز کی باز گشت سنائی دی ۔
ڈاکٹر محمد بیگ احساس نے افسانے کے اختتام پر اسی بات کی جانب متوجہ کیا ہے کہ ہر جان دار کی زندگی کا انجام ایک جیساہے مگر آخر ی رسومات الگ الگ ہیں ۔
’’ اپنا اپنا عقیدہ ہے کوئی دفن کرتاہے ۔کوئی جلا دیتاہے ۔یہ لوگ پرندوں کو کھلا دیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں ۔‘‘

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 607421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.