ڈھولکی کی تھاپ ،گھنگروں کی جھنکار گانے کی خوبصورت بولوں
کے ساتھ رقصاں اس کا بدن محفل کی رونق کو دو چند کئے ہوئے تھا۔افراد خانہ
مہمان محفل کی رنگا رنگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔نذرانوں اور ویلوں کی
خوب برسات ہو رہی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے نوٹوں کا ایک انبار سا لگ گیا۔خوشی
سے لہک لہک کر چھیمی کبھی اگلے تو کبھی پچھلے مہمان سے ویلیں بٹورتا جھومتا
پھرتا ۔محفل وزیر بی بی کے پوتے کی لوری کی تھی محفل کے اختتام پر چھیمی
کہتا ہے: اے بی بی اکیس روپے تے اک تھالی آٹے دی تے جوڑا کپڑیاں دا لوں گی
۔ہاے وے اللہ تیرا بھلا کرے اکیس روپے تے تھالی آتے دی تھوڑی اے۔جوڑا فیر
کیسے موقعے تے لے لئیں میرے کولوں ہنستے ہوئے بولی ۔نہ نہ بی بی ایسے ای
ٹیم دے دے فیر کنے ویکھی اے (تھوڑی ضد کرتے ہوئے)لے پھڑ آتے دی تھالی جوڑا
تے 21 روپے ہون خوش ہوجا "وہ ساری چیزیں اور ویلوں کا ڈھیر سمیٹے خوشی سے
نہال دل میں سوچ رہا تھا کہ ہفتہ آرام سے گزر جائے گا آگے اللہ مالک ہے ۔چھیمی
ایک خوبرو مردانہ وجاہت کا خواجہ سرا تھا ۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون
ہے ؟کہاں سے آیا ہے ؟اس کا مذہب کیا ہے ؟وہ مذاہب کے تفرقات ،ذات پات کی
زنجیروں سے بالاتر تھا ۔محبت امن وآشتی اس کا دھرم تھا ۔محبت ایک لافانی
جذبہ ہے جو رنگ ونسل ذات پات کے بنائےگئے امتیازات سے آزاد ہوتی ہے ۔محبت
تو عین فطرت ہے جو ہر ذی روح مردو زن حتی کہ جانوروں میں بھی یہ موجود ہوتی
ہے۔وہ تو پھر انسان تھا ۔۔۔کیا ہو ا خدا نے اسے پورامرد اور ایک مکمل عورت
تخلیق نہیں کیا تھا۔
چھیمی سراپا محبت تھا بچوں ا سے خاص انس و لگاؤتھا ۔ہر کسی سے خندہ پیشانی
سے ملنا شایداس کی فطرت میں تھا بچے جہاں مل جاتے پیار کرتا کھانے پینے کی
چیزیں لے کر دیتا ۔بچے بھی اس سے بڑے مانوس تھے ۔گاؤں کے جس گھر میں بھی
کسی کی شادی ہوتی بچے کی پیدائش ہو خوشی کے ہرموقعے پر وہ ان کے گھر دھائی
لینے پہنچ جاتا تھا ۔ان مواقعوں کے علاوہ وہ ہندووں سکھوں اور مسلمانوں کے
گھروں میں بھی بلا روک ٹوک چلا جایا کرتا تھا ۔لوگ اسے "اللہ لوگ" کہتے
خواتین تو یہ بھی کہتیں کہ اس کی دعا اور بد دعا بڑی لگتی ہے۔
اونچی حویلی کی مالک وزیر بی بی بیٹے بہو پوتے کے ساتھ رہتی تھی۔ بہو کو
لاہور سے بیاہ کر لائی تھی جس کے تمام رشتے دار لاہور میں ہی رہائش پذیر
تھے ۔
دو سالوں میں ایک آدھ چکر لاہور کا لگ جایا کرتا تھا ۔گاؤں کے علاوہ چھیمی
وزیر بی بی کے گھر اکثر آتا جاتا تھا اس کی وجہ اس کا چار سالہ پوتا تھا جس
سے وہ بہت محبت کرتا اس کو کھلونے اور کھانے کی چیزیں دیتا اس کے ساتھ
کھیلتا تو بی بی کہتی "وے چھیمی تو بچہ وی ہیں بچے نال بچہ بن جانا اے
کی کریاں مینوں چنگا لگ دا بچیاں نال کھیڈنا ۔ یہ شاید اس لیے تھا کہ کہ اس
نے اپنا بچپن عام بچوں کی طرح اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں گزرا تھا ہوش
سنبھالا تو خود کو خواجہ سراؤں کی ٹولی میں پایا ۔وہ ادھر ادھر کی بایتں
کرنے کے بعد: بی بی میں سنا ہے کہ آزادی ملن والی ہے اور ہندوستان
تےپاکستان دا بٹوارہ ہون والا ہے۔"ہاں سنا تے میں وی اے کہ انگریز پاکستان
تے ہندوستان دا بٹوارہ کر کہ واپس اپنے ملک نوں جان لگےنے
تے فیر اسیں وی پاکستان چلے جاواں گے ۔حیرت سے کہتی ہے تے توں کی کریں گا ؟
میں کی کرنا بی بی ساری دینا اپنا گھر اے ہندوستان کی تے پاکستان کی؟
تو پاکستان نہیں جاویں گا ؟ میرا کون ہے پاکستان ،میں تے ہندوستان ای رواں
گا ۔"
کچھ دنوں بعد پاکستان بننے کا اعلان ہو گیا۔ساتھ ہی دنگے فسادات کی لہر نے
ملک کو اپنی لیپٹ میں لے لیا۔مسلمان ہندو سکھ جو ہندوستان اور پاکستان میں
کئی پشتوں اور صدیوں سے آباد تھے تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہہی اپنے بھرے پرے
گھروں عزیزوں کو چھوڑ کر ہندوستان اور پاکستان جانے کو تیار ہو رہے
تھے۔فسادات کی زد سے وزیر بی بی کا گھر بھی محفوظ نہ رہ سکا ۔نا معلوم
افراد نے اس کے گھر پر حملہ کر کہ تمام گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
۔۔۔بچا تو صرف اس کا پوتا گھر میں ادھ موئے اور زخمی بدن سے کراہتے ہوئے
اپنے پوتے کو کسی مسیحا کے سپرد کرنےکا انتظار کر رہی تھی جو اس معصوم کو
پاکستان ان کے رشتہ داروں کے ہاں چھوڑ دے ۔اسی اثنا میں چھیمی وہاں
آگیا۔گھبرائے ہوئے پریشانی میں ہر طرف دیکھا ۔تمام گھر والوں کی لاشیں آنگن
میں لہولہان بکھری پڑی ہیں ۔بی بی نے خود کی پروا نہ کرتے ہوئے جھٹ سے پوتے
کہ اس کے سپرد کیا اور ایک پرچی پر لکھا ہوا پتہ ہاتھ میں تھما دیا اور
بولی: اینوں پاکستان چھڈآیئں اے تیرا مرے تے بڑا وڈا احسان ہووئے گا "
مزید کچھ کہتی ساتھ ہی بے جان ہاتھ زمین پر گر گیا ۔عجیب پریشانی و اضطراب
کی کیفیت میں بچے کو گود میں اٹھایا اور باہر آکر تمام صورت حال کا جائزہ
لیا ۔ایک حشر برپا تھا پریشان تھا کہ بچے کو اس کے رشتہ داروں تک کیسے
پہنچائے ۔۔رات اسی گھر میں لوگوں کی نظروں سے چھپ چھپا کر گزاری اور پھر اس
نے سنا کہ ایک سپیشل ٹرین چل رہی ہے جو رفیوجیوں کو لے کر لاہور جا رہی ہے۔
امید کی ایک کرن چمکی ۔۔۔۔اگلی شام وہ قافلے کے ساتھ جانے کے لیے اسٹیشن
پہنچ گیا ۔گاڑی میں بلا کا ہجوم تھا ۔چھت پر لوگ گھاس کی طرح اگے ہوئے تھے
اور باہر کھڑکیوں دروازوں پر چمگادڑوں کی طرح لٹکے ہوئے تھے ۔خوشی قسمتی سے
انہیں پچھلے ڈبوں میں سے ایک میں جگہ مل گئی وہ دونوں ایک تاریک سے کونے
میں دبک کر بیٹھ گئے ۔بچہ سہما ہوا اور بھوک سے نڈھال ۔گھر والوں کو وہ
پہلے ہی کھو چکا تھا اس لیے اب وہ چھیمی کے ساتھ بندریا کے بچے کی طرح چمٹا
ہوا تھا ایک لمحے کے لیے بھی اس الگ نہ ہو ا۔
قریب دو تین گھنٹے بعد گاڑی میں ذرا حرکت پیدا ہوئی آہستہ آہستہ گاڑی چلنے
لگی گاڑی کی اندرونی لائٹس اتنی مدھم تھیں کہ انسانی شکل تو دور کوئی بڑی
چیز تک دکھائی نہ پڑتی " لوگ اندھیرے میں ہی اندازے لگا رہے تھے کہ بس جی
خیر آباد نکل گیا ۔"
اور دو گھنٹوں تک لاہور پہنچ جائیں گے "
اچانک اندھیری اور سنسان جگہ پر گاڑی رک گئی ۔لوگوں میں ہلچل سی مچ گئی
۔خدا جانے کہاں سے پندرہ بیس مسلح افراد نے گاڑی پر دھاوا بول دیا ۔آن کی
آن میں ڈبے میں مو جود لوگوں کو گھائل اور شہید کرنا شروع کر دیا ۔کچھ نے
گاڑی سے نیچے چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں بچائیں۔گاڑی کے آخری ڈبے دبکے ان
کی دشمنوں کو کیسے خبر ہو گئی انہوں نے ڈبے میں وجود مسافروں کو کرپانوں کے
وار سے لہو لہان کر کر دیا ۔خون کی اس ہولی میں چھمیمی بھی شدید زخمی ہو
گیا ۔لیکن اس نے بچے کو خود سے جدا نہ کیا ۔حملہ آور اپنی طرف سے ان کو
مردہ جان کر چلے گئے ۔لیکن چھیمی میں ابھی بھی زندگی کی رمق باقی تھی ۔
زخموں سے بہتے خون کو دیکھ کر بچہ رو رہا تھا "
ہچکیاں لیتے ہوئے چچا اپ کو کیا ہو گیا ہے ؟
کچھ نیں مرے بچے "
تو پھر اپ ہائے ہائے کیوں کر رہے ہو؟ بس کچھ نیں میں ٹھیک آں تو میری فکرنہ
کر آجا سو جا "
بھوک سے بےتاب بچہ رو رو کر نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلا گیا اور وہ
لاہور آنے کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا گھنٹہ صدیوں کی مسافت پر محیط لگ
رہا تھا ۔خدا خدا کر کہ لاہور آگیا ۔غیر ہوتی حالت کے ساتھ وہ جلدی سے اترا
۔دعا کی الہی اس بچے کو اس کے رشتہ داروں تک پہنچانے کی مہلت دے دے پھر
چاہے اٹھا لینا ۔ اسٹشین پر ہر طرف بڑے بڑے کیمپ لگے ہوئے تھے ۔وہ لڑکھڑاتے
قدموں سے ایک کیمپ میں گیا اور جیب سے پرچی نکال کر ایک آدمی کو دی اور
ہاپنتے کاپنتے بچے کی طرف اشارہ کر کہ بولا:اس کو اس پتے پر چھوڑنا ہے
۔کیمپ کے متنظم نے کہا ادھر جاؤ امرت سے آنے والے سارے رفیوجی انہی میں
مقیم ہیں ۔ہاتھ کے اشارے سے پتہ سمجھایا ۔۔ گرتے پڑتے اس نے بچے کو سینے سے
لگایا اور دوسرے کیمپ میں گیا جہاں ادھیڑ عمر شخص نے پوچھا کہاں سے آئے ہو
؟کہاں جانا ہے ؟
بولنے کی تمام قوت سلب ہو چکی تھی باوجود اس کے اس نے اپنی تمام قوت کو
متجمع کر کے ہلکی سی آواز میں بولا:امرت سر سے آئی ہوں ۔اور ہاتھ میں پکڑی
پرچی آگے بڑھا دی اس بچے کو اس پتے۔۔۔۔ انہی الفاظ کے ساتھ وہ دھڑام سے
زمین پر گر گیا ۔اسی لمحے چھیمی کی روح اس کے بدن سے پرواز کر گئی ۔کیمپ
میں کھڑا بچہ زور زور سے رونے لگا ۔
|