Prohibition of Forced Conversion of Religion Bill
اخبارات اور سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر مذہب کی جبری تبدیلی کے انسداد کے
حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں ۔ ۲۰۱۶ میں سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل
پاس کیا گیا تھا جس میں ۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کے مذہب کی
تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔درمیان میں اس پر وقتا فوقتا بحث
ہوتی رہی تھی اب ایک مرتبہ پھر اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے اس پر بحث کی
جارہی ہے۔
گو اس بل کے حوالے سے سفارشات و ملاحظات پیش کرنا اسلامی نظریاتی کونسل کی
ذمہ داری ہے اور وفاقی شرعی عدالت بھی اس کی غیر شرعی شقو ںکو دور کرنے میں
اہم کردار اداکر سکتی ہے تا ہم بحثیت ایک پاکستانی شہری اور مسلمان کی
حیثیت سے اس سلسلے میں کچھ گزارشات پیش کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں اس
بل کے مسودہ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بل کے محرّکین اور حامیوں کا
بطور خاص دو باتوں پر زور ہے:
۱۔۱۸ سال سے کم عمر کے شہری کےمذہب کی تبدیلی کا اعتبار نہیں ہوگا۔(ملاحظہ
فرمائیں سیکشن 6کانمبر1اور2)
۲ ۔ ۱۸ سال کی عمر کے بعد اگر کوئی آدمی مذہب تبدیل کر لے گا تو اسے بھی
قانونی مراحل سے گزرنا پڑے گا (ملاحظہ فرمائیں سیکشن 3)
قبل اس کے کہ ہم ان پہلووں پر اظہارِ خیال کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
اسلام میں جبری طور پر کسی کو اپنے مذہب سے برگشتہ کر کےمسلمان کرنے کی
حیثیت کو دیکھا جائے اس سلسلے میں سورۃ البقرہ کی ایک آیت اس مسئلے پر
روشنی ڈالتی ہے :
لا ٓاکراہ فی الدین (البقرہ:۲۵۶)
دین کے معاملےمیں کوئی زبردستی نہیں
آنحضرت ﷺ اور آپ کے نائبین کے ذریعے ھدایت کو کفر اور باطل سے واضح کر
دیا گیا ہے اب اگر کوئی اسلامی تعلیمات کو دل سے قبول کر کے حلقہ بگوشِ
اسلام ہو جاتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے ، پھر بھی اگر شخص اسلامی
برادری میں شامل نہیں ہونا چاہتا تو اسکی مرضی ہےتا ہم اگر وہ اسلامی حکومت
کے تابع رہ رہا ہے تو اسے حکومت کے عائد کردہ قوانین کی پابندی کرنی پڑے گی
۔البتہ شخصی قوانین اور عائلی زندگی میں وہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار
سکتا ہے ۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمان جس کو اختیار کرنے کے بعد آدمی
مومن بنتا ہے اس کی تعریف میں تصدیق ِقلبی (دل سے سچ مان لینا)کو ضروری
قرار دیا گیا ہے پھر اس قلبی تصدیق کے عملی اور زبانی اظہار کو اسلام کہتے
ہیں ۔لہذا جب تک دل سے اسلامی عقائد و اعمال کو سچ جان کر مان نہ لے اس وقت
تک اسلام معتبر ہی نہیں ہو گا غور فرمائیے کہ ایسی حالت میں جبری تبدیلی
مذہب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں چونکہ دل کی تصدیق ایک چھپی ہوئی چیز
ہے لہذا اسے معلوم کرنے کے لئے زبان سے اظہار کروایا جاتا ہےلیکن اس تصدیق
ِقلبی کی اہمیت اتنی ہے کہ اگر جان بچانے کے خوف سے ایک آدمی زبان سے کلمہ
ءکفر کر بھی دے جب کہ اس کا دل ایمان سے پُر ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے
نزدیک وہ مومن و مسلم ہی رہےگا۔ اس کے بر عکس زبان سے لاکھ اظہارِ اسلام
کرنے کے باوجود دل اگر منکِر ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر سمجھا جائے
گا ۔
زباں سے کہ بھی دیا لآالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
پاکستانی اقلیتوں کے جن نمائندگان اور ان کے تائید کرنے والے مسلمانوں نے
اقلیتوں کے جبری تبدیلی ءمذہب کو روکنے کے حق میں آواز اٹھائی ہے انہوں نے
اندرونِ سندھ اور کراچی کے ہندو اور مسیحی برادری کی عورتوں کو زبردستی
مسلمان بنا کر شادی کر لینے کے واقعات نقل کئے ہیں ۔ان واقعات میں اگر تو
ایسا زبردستی کیا گیا ہے تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔پھر اگر متاثرہ
خواتین نے صرف زبانی دباومیں آ کر اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا ہے تو
درحقیقت وہ مسلمان ہی نہیں ہوئیں ،لیکن اگر عدالت یا پنچائت وغیرہ میں وہ
اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر کرتی ہیں تو پھر ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا
۔اب صرف اتنی بات سے کہ ان کی عمر ۱۸ سال سے کم ہے انہیں مسلمان نہ ماننے
کا کوئی جواز نہیں اسلامی شریعت میں تکلیفِ احکام یعنی حکموں کی پابندی
کرنے کا معیار بلوغت کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ عمر کو۔ لڑکے اور لڑکی کے
بالغ ہونے کا بھی ایک معیار مقرر ہے جس کی رو سے لڑکی ۹ سال کی عمر میں بھی
بالغ ہوسکتی ہے اور لڑکا ۱۲ سال کی عمر میں بھی بالغ ہو سکتا ہے بالخصوص
جبکہ مشاہدات اور میڈیکل سائنس بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ بالغ ہونے کے
بعد لڑکا اور لڑکی شریعت کے حکموں کے پابند ہوتے ہیں ان کی بجاآوری پر
ثواب پاتے ہیں اور ان کی کوتاہی میں گناہ گار ہوتے ہیں اب اگر ایک لڑکا یا
لڑکی بالغ ہونے کے بعد مسلمان ہو کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اسلامی
برادری کے ساتھ رہ کر اسلامی معاشرت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا چاہتے ہیں
تو کیا وہ ۱۸ سال کی عمر تک انتظار کریں گے کہ پہلے انہیں قانون مذہب تبدیل
کرنے کی سند دے تب وہ مسلمان ہوں ۔ جس کے دل میں اسلام کی حقانیت پیوست ہو
گی وہ یقینا اس سے پہلے بھی اسلامی عقائد و اعمال کو اختیار کریں گے ۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ قبولِ اسلام کیلئے بلوغت کی بھی شرط نہیں
ہے۔چنانچہ خود آنحضرت ﷺ کا بچوں پر اسلام پیش کرنا ثابت ہے۔امام بخاری
رحمۃ اللہ علیہ نے باب قائم کیا ہے
إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ
يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَم
جب بچہ اسلام لا کر مرجائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا
بچے پر اسلام پیش کیا جائے گا
اس عنوان کے تحت امام صاحب ایسے واقعات لائے ہیں جن میں آپ ﷺ نے بچوں کو
اسلام کی دعوت دی۔ شارحِ بخاری حافظ ا حجر رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ یہ
عنوان بچے کے اسلام کی درستگی پر باندھا گیا ہے (فتح الباری ،221/3،بیروت)
پغمبر ِاسلام ﷺ کی سیرت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے
اپنی دعوت ہر عمرکے لوگوں کے سامنے پیش کی چھوٹے بچے بھی آپﷺ کی دعوت و
تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ان نو مسلموںمیں ایسے بھی تھے جنہیں ان
کے گھر والوں نے بے گھر کر دیا تو آپﷺ نے ان کو اپنے دامنِ رحمت میں پناہ
دی ۔آپﷺ نے کبھی بھی اپنی دعوت سے ۱۸ سال سے کم عمر بلکہ نابالغوں تک کو
مستثنٰی قرار نہیں دیا بلکہ بہت سے نوجوانوں نے آپ ﷺ کی دعوت و دین کو
تقویت پہنچائی ۔متعدد جلیل القدر صحابہ ء کرام ہیں جن کو بچپن میں قبولِ
اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔
انسداد ِجبری تبدیلیء مذہب کےبل کے حامیوں کا شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ
لائنسس ۱۸ سال سے پہلے جاری نہ ہونے کی مثال دینا غیر مفید ہے وہ صرف ایک
انتظامی چیز ہے جبکہ دین اور مذہب کا مسئلہ انفرادی روحانی اور اخروی
پہلووں پر حاوی ہے۔ایک آدمی جو حلقہ بگوش ِاسلام ہونا چاہے اس کے لئے
آسانیاں مہیا کرنا ایک مسلمان معاشرےاور اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ
داریوں میں سے ہے۔ آئین پاکستان بھی اسلامی تعلیمات کے فروغ کو حکومت کی
ذمہ داری قرار دیتا ہے ۔وہ شخص جو اسلامی تعلیمات کی خوبیوں سے متاثر ہو کر
مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کے لئے قانونی پیچیدگیاں پیدا کرنا اور جو لوگ اس
کے قبول اسلام کا ذریعہ بنیں ان کے سامنے بھی قانونی خدشات پیدا کرنا دعوت
ِ اسلام میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔قبول ِاسلام کے لئے شریعت نے صرف ایک شرط
رکھی ہے ۔وہ یہ ہے کہ آدمی دل سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی ء اکرمﷺ کی
رسالت کو مان لے اور کفر سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے زبان سے کلمہ ءشہادت
پڑھ لے تو وہ مسلمان ہو جائے گا ۔اس کے لئے مسجد و مدرسے کی بھی ضرورت نہیں
بلکہ یہ معاملہ جلد سے جلد پورا کر لینے کا ہے تاکہ دنیا سے بغیر اسلام کے
رخصت نہ ہو جائے۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا عدالتی اور قانونی نظام
کچھ اس نوعیت کا ہے کہ آسان معاملہ بھی الجھتا چلا جاتا ہے اب اگر سیکشن 3
کے مطابق اس بات کا انتظار کیا جائے کہ پہلےایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں
تبدیلیء مذہب کے سرٹیفیکیٹ کے حصول کی درخواست دی جائے ۔پھر ایڈیشنل سیشن
جج مذہب تبدیل کرنے والے شخص کی درخواست پر مذہبی رہنما سے ملاقات کروائے۔
پھرمتعلقہ جج اپنی صوابدید پراسے نوّے دن مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے
لیے دے۔اس کے بعددوبارہ عدالت میں حاضر ہونےپر ایڈیشنل سیشن جج تبدیلیء
مذہب کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے اور آدمی کو نئے مذہب کا پیرو کار اسی دن سے
سمجھا جائے جس دن سے سرٹیفیکیٹ ایشو ہوا تو عام حالات میں قبولِ اسلام کا
یہ معاملہ لٹک جائے گا ۔نیز قبولِ اسلام کے خواہش مند پر اس کے افراد
خاندان کا دباؤاتنا بڑھ چکا ہو گا جو اس کا حوصلہ پست کر سکتا ہے سیدھی سی
بات یہ ہے کہ جب اقتدار اعلیٰ کے مالک اللہ تعالیٰ نے ایسی پابندیاں نہیں
لگائی بلکہ آسانی دی تو زمین پر بھی آسانی دی جائے ۔
مذہب کی جبری تبدیلی کے انسداد کا بل پیش کرنے والوں کو یہ شکایت ہے کہ ان
کی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان سے شادی کر لی جاتی ہے یوں وہ اپنے
خاندان سے بھی کٹ جاتی ہیں ۔ہم شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ قرآن ِ کریم کے
مطابق دین قبول کروانے میں زبردستی نہیں ہے۔اگر یہ واقعات درست ہیں تو
اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ہیں ۔اس کی ذمہ داری علاقے کی
انتظامیہ پر عائد ہوتی ہیں کہ وہ ایسے واقعات (اغواء ، ورغلانا وغیرہ) کی
روک تھام کر ے اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عزت ، مال اور جان وغیرہ کا
تحفظ دیا جاتا ہے تا ہم اگر ایک با شعور لڑکی یا لڑکا خود اپنے فیصلے سے
مسلمان ہوتے ہیں تو پھر بھی ان پر پابندی لگانا نہ صرف غیر اسلامی اور غیر
شرعی ہے بلکہ شخصی آزادی کے بھی خلاف ہے ہر شخص اپنے لئے ایک راستہ متعین
کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس پر جبر کے ذریعے سے اس راستے سے ہٹانا یا روکنا
غیر انسانی بھی ہے۔ ۱۸ سال سے کم عمر میں جب سائنس یا آرٹس ، میڈیکل
کمپیوٹر وغیرہ مضامین چننے کا اختیار تسلیم شدہ ہے تو پھر مسلمان ہونے کا
اختیار بھی تسلیم کیا جائے گا اور اس پر قدغن لگانا عقل و انصاف کے تقاضوں
کے خلاف ہو گا۔ ہم نے یہ وضاحت ان لوگوں کے لئے کی ہے جو ایک عاقل بالغ
لڑکا یا لڑکی کے مسلمان ہونے پر پابندی لگانا چاہتے ہیں اگر کوئی کسی کو
اعتراض ہو کہ ایک مسلمان عاقل بالغ مرد ،عورت اپنا مذہب تبدیل کر کے غیر
مسلم ہو جائے تو پھر آپ اسکا یہ حق کیوں تسلیم نہیں کرتے ۔ہم اس کے جواب
میں مختصراً اتنا عرض کریں گے کہ ہم اس کی اس تبدیلی ء مذہب کو تسلیم کر
لیں گے لیکن چونکہ اس کے اس عمل سے اسلامی معاشرے میں ایک افراتفری عدم
توازن اور بگاڑ پھیلتا ہے نیز اس کا یہ عمل خدائی احکامات سے رو گردانی اور
بغاوت بھی ہے لہذا اس کے سدِّباب کیلئے کتاب و سنت کی روشنی میں لائحہ عمل
بھی طے کیا جائے گا۔
|