#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالعنکبوت ، اٰیت 10 ،
13اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من الناس
من یقول اٰمنا
باللہ فاذااوذی
فی اللہ جعل فتنة
الناس کعذاب اللہ ولئن
جاء نصر من ربک لیقولن انا
کنا معکم اولیس اللہ باعلم بما
فی صدورالعٰلمین 10 ولیعلمن اللہ
الذین اٰمنوا ولیعلمن المنٰفقین 11 وقال
الذین کفرواللذین اٰمنوااتبعواسبیلنا ولنحمل
خطٰیٰکم وماھم من خطٰیٰھم من شئی انہم لکٰذبون
12 ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم ولیسئلن یوم
القیٰمة عماکانوایفترون 13
اور انسانوں میں کُچھ انسان وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ھم اللہ کی ذات پر ایمان
و یقین رکھتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کی ذات پر ایمان و یقین نہیں رکھتے
کیونکہ جب اُمت پر آزمائش کی گھڑی آتی ھے تو وہ آزمائش کی اِس گھڑی کو اپنے
لیۓ اور اہلِ ایمان کے لیۓ اللہ کے عذاب کی طرح ایک عذاب بنالیتے ہیں اور
اگر اِس دوران اُمت کو خُدا کی امداد مُیسر آ جاۓ تو وہ اُمت کو یہ یقین
دلانے لگتے ہیں کہ ھم تو آپ کے ساتھی اور آپ کے خیر خواہ ہیں کیونکہ یہ لوگ
یہ بات بھی نہیں جانتے کہ اُن کے سینوں میں جو کُچھ چُھپا ہوا ھے وہ اللہ
سے چُھپا ہوا نہیں ھے تاہَم اِن میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے تو اللہ اُن
کے ایمان کو ضرور ظاہر کرے گا اور جو لوگ منافق کے منافق رہیں گے تو اللہ
اُن کے نفاق کو بھی ضرور ظاہر کردے گا ، اِن لوگوں میں سے جو لوگ تاحال
قُرآن کے مُنکر ہیں اُنہوں نے ھمارے ایمان دار بندوں سے کہا ھے کہ ھم جانتے
ہیں کہ تُم ھمارے انکارِ قُرآن کی بنا پر ہمیں خطا کار سمجھتے ہو لیکن اگر
انکارِ قُرآن کے اِس کام میں تُم بھی ھمارے شریکِ کار بن جاؤ تو یومِ حساب
کے وقت ھم تُمہاری اِس کام کا بوجھ خود اُٹھالیں گے حالانکہ یہ جُھوٹے لوگ
بَھلا کسی اور کا بوجھ کیا اُٹھائیں گے جو خود اُس وقت اپنے اِس ایک جُھوٹ
کے ساتھ اپنے جُھوٹ کے اور بھی بہت سے بھاری بھاری پلندے باُٹھاۓ ہوۓ ہوں
گے اِس لیۓ یہ لوگ دُوسروں کا بوجھ اُٹھانے کی جو باتیں کر تے ہیں اُن کی
حقیقت اِن کے ذہن و زبان کے افترا سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِس ترتیبِ کلام میں آنے والی اِس اٰیت میں { ومن الناس من
یقول } کی لفظی تَمہید کے ساتھ جو مضمون مُجمل طور پر بیان ہوا ھے وہی
مضمون { ومن الناس من یقول } کی اسی لفظی تَمہید کے ساتھ سُورَةُالبقرة کی
اٰیت 8 سے لے کر اٰیت 20 تک ایک مُفصل مضمون کی صورت میں بیان ہوا ھے اور
پھر یہی مضمون { ومن الناس من یعبد اللہ } کے اسی لفظی عُنوان کے ساتھ
سُورَةُالحج کی اٰیت 11 و 12 اور اٰیت 13 میں بھی بیان ہوا ھے ، اِن ساری
اٰیات کا محلِ وقوع ، سیاق و سباق اور موضوعِ کلام مُختلف مگر مضمونِ کلام
وہی ایک ھے کہ مومن مُشکل گھڑی میں استقامت دکھاتا ھے اور منافق مُشکل گھڑی
میں بھاگ جاتا ھے اور پھر جیسے ہی وہ مُشکل گھڑی گزرجاتی ھے وہ اجتماعی
سہولت سے فائدہ اُٹھانے کے لیۓ پُوری ڈٹھائی کے ساتھ واپس آجاتا ھے ،
عُلماۓ تفسیر نے اِن تینوں سُورتوں کی اِن 17 اٰیات میں بیان ہونے والے اِس
مضمون سے بجا طور پر منافقین کی وہ جماعت مُراد لی ھے جو عھدِ رسُول کی
اسلامی ریاست میں موجُود تھی لیکن قُرآنِ کریم نے سُورَہِ اٰلِ عمران کی
اٰیت 167 ، سُورَةُالنساء کی اٰیت 61 ، 88 ، 138 ، 140 ، 142 ، 145 ،
سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 35 ، سُورَةُالاَنفال کی اٰیت 49 ، سُورَةُالتوبة
کی اٰیت 64 ، 67 ، 68 ، 73 ، 101 ، سُورَةُالاَحزاب کی اٰیت 1 ، 12 ، 24 ،
48 ، 60 ، 73 ، سُورَةُالفتح کی اٰیت 6 ، سُورَةُالحدید کی اٰیت 13 ،
سُورَةُ المنافقون کی اٰیت 1 ، 7 ، 8 اور سُورَةُالتحریم کی اٰیت 9 کے اِن
25 مقامات پر منافقین کے اِس طبقے کو نام زد کر کے اُس کا ایک اَلگ اور ایک
مُستقل بالذات موضوع کے طور پر ذکر کیا ھے ، مطالعہِ قُرآن کی اِن 42 اٰیات
میں سے پہلی 17 اٰیات میں ایک تو تفسیری منافقین کی وہ جماعت نظر آتی ھے جس
کا مُفسرین نے مُتعلقہ اٰیات کے مفہوم اور اُس مفہوم کے سیاق و سباق کے
مطابق ذکر کیا ھے اور دُوسری 25 اٰیات میں منافقین کی وہ دُوسری جماعت نظر
آتی ھے جس کا اَحوال اللہ تعالٰی نے بذاتِ خود بیان کیا ھے ، اہلِ لُغت کے
نزدیک جس انسان کی زبان پر ایک بات اور دل میں کوئی دُوسری بات ہوتی ھے وہ
انسان اپنے مُتضاد اَحوال کی رُو سے ایک منافق انسان ہوتا ھے اِسی لیۓ اہلِ
شریعت اُس شخص کو منافق کہتے ہیں جو اپنے دل میں اپنا کفر چُھپاۓ ہوۓ ہوتا
ھے مگر اہلِ ایمان کے سامنے اپنی زبان سے اپنے ایمان کا اظہار کرتا رہتا ھے
لیکن منافقت کے اِس لُغوی مفہوم کے مطابق ہر وہ شخص منافق ہوتا ھے جس کے دل
میں کُچھ اور رہتا ھے اور زبان سے وہ کُچھ اور کہتا ھے ، قُرآنِ کریم نے
اپنے مُحوّلہ بیانیۓ میں جن منافقین کا ذکر کیا ھے اُن میں کُچھ منافق تو
وہ عادی منافق ہوتے ہیں جو منافق لوگوں کے درمیان رہنے سہنے اور اُٹھنے
بیٹھنے کی وجہ سے منافق لوگوں کی طرح منافقانہ گفتگو کرتے رہتے ہیں اور یہ
لوگ ہر مُلک کی ہر قوم میں ہر وقت موجُود ہوتے ہیں اِس لیۓ عھدِ نبوی میں
بھی یہ لوگ موجُود تھے جو اپنے مطلب کی بات اپنے دل میں رکھ کر اہلِ ایمان
و اہلِ کفر دونوں سے ملتے رہتے تھے اور دونوں کے ساتھ اپنی مطلب برآری کے
لیۓ اپنے مطلب کی باتیں کرتے رہتے تھے ، قُرآنِ کریم نے اپنی پہلی 17 اٰیات
کے سلسلہِ کلام کی اٰیت 10 میں اِن منافقین کی اِس منافقانہ عادت کو اِن کے
دل کا مرض قرار دیا ھے اور ظاہر ھے کہ دل کے مرض کا تعلق انسان کے جسم و
جان کے ساتھ ہوتا ھے انسان کے اعتقاد و ایمان کے ساتھ نہیں ہوتا ھے ، اہلِ
تفسیر نے اپنی تفاسیر میں جن تفسیری منافقین کا ذکر کیا ھے اُس سے اہلِ
نفاق کی یہی جماعت مراد ھے جو اُس وقت اُس مرضِ دل کا شکار ہو چکی تھی جس
مرضِ دل نے اُس جماعت کو اُس عادتِ بَد کا عادی بنایا ہوا تھا جس عادت کے
زیرِ اَثر وہ کافر و مُسلم دونوں کے ساتھ اسی طرح دوغلی باتیں کیا کرتے تھے
جس طرح ہر معاشرے کے دوغلے لوگ دُوسرے لوگو کے ساتھ عموما دوغلی باتیں کیا
کرتے ہیں لیکن اِن عادی منافقوں کے مقابلے میں جو اعتقادی منافق ہوتے ہیں
وہ اپنی ایک عادتِ بد کے مطابق یہ منافقانہ باتیں نہیں کرتے بلکہ اپنے
اعتقادِ بد کے تحت یہ منافقانہ باتیں کرتے ہیں کیونکہ اُن کے دل ایمان سے
پُورے خالی لیکن کفر سے پُورے بھرے ہوۓ ہوتے ہیں اِس لیۓ جب وہ اہلِ ایمان
کے درمیان ہوتے ہیں تو ایمان کی باتیں کرتے ہیں اور جب اہلِ کفر کے درمیان
ہوتے ہیں تو صرف کفر کی باتیں کرتے ہیں ، اِن عادی منافقین اور اِن اعتقادی
منافقین کی اِس تفصیل کے بعد ھم اُمت کی عدالت میں اپنا یہ مقدمہ پیش کر
رھے ہیں کہ اَصحابِ محمد علیہ السلام کے درمیان منافقین کی اِن دونوں
جماعتوں کے اَفراد آتے اور جاتے تو ضرور تھے لیکن اَصحابِ محمد علیہ السلام
کے درمیان اَصحابِ محمد بن کر رہتے نہیں تھے اور دلیل اِس اَمر کی اٰیاتِ
بالا میں آنے والی یہ دُوسری اٰیت ھے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد
فرمایا ھے کہ اِن میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے تو اللہ تعالٰی اُن کے
ایمان کو ضرور ظاہر کردے گا اور اِن میں سے جو لوگ منافق کے منافق رہیں گے
تو اللہ تعالٰی اُن کے نفاق کو بھی ضرور ظاہر کردے گا اور ھمارا نُکتہِ
استدلال یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتاب میں اَصحابِ محمد میں سے
کسی ایک فردِ واحد کو بھی منافق کے طور پر نام زد کرکے ظاہر نہیں کیا ھے جس
کا مطلب یہ ھے کہ اَصحابِ محمد علیہ السلام میں کوئی ایک شخص بھی چُھپا ہوا
منافق نہیں تھا بلکہ ہر ایک شخص ایک پکا سَچا اور کھرا مُسلم تھا جس کی
مزید دلیل اللہ تعالٰی کا یہ اعلان ھے کہ { رضی اللہ عنھم ورضوا عنه } یعنی
اللہ تعالٰی اُن سب اَصحابِ محمد کے ایمان و یقین پر راضی و خوش ہو چکا ھے
اور وہ اَصحابِ علیہ السلام بھی سب کے سب اللہ تعالٰی کی اِس رضا پر راضی و
خوش ہو چکے ہیں ، آخر یہ کیسے ہو سکتا ھے کہ جس جماعت کے درمیان منافق
چُھپے ہوۓ ہوں اور اللہ تعالٰی اُس جماعت سے راضی و خوش ہونے کا اعلان کردے
اور ھماری اِس دلیل و نُکتہِ دلیل کا نتیجہِ دلیل یہ ھے کہ اَصحابِ محمد
علیہ السلام سارے کے سارے ایسے سَچے مومن و مُسلم تھے جن کے درمیان ایک بھی
منافق نہیں تھا اور اگر اِن کے درمیان کوئی بھی منافق ہوتا تو سیدنا محمد
علیہ السلام خطبہِ حجة الوداع کے موقعے پر اللہ تعالٰی کا پیغام اِن تک
پُہنچانے کی اِن سے گواہی ہرگز نہ لیتے کیونکہ منافق کی گواہی مُعتبر نہیں
ہوتی اور اِن نتائج کا مَنطقی نتیجہ یہ ھے کہ اہلِ روایت کے جن منافق
راویوں نے اَصحابِ محمد علیہ السلام کے نفاق کے جھوٹے قصے وضع کیۓ ہوۓ ہیں
وہ سب کے سب کم از کم اِس اُمت کی طرف سے اِس سزا کے مُستحق ہیں کہ اُن کی
ہر ایک تحریر اور ہر ایک تقریر کا مُکمل بائکاٹ کیا جاۓ تاکہ اُن کے اُس
شیطانی فتنے کا سَدِ باب کیا جا سکے جو شیطانی فتنہ اُنہوں نے اُمتِ مُسلمہ
میں صدیوں سے پھیلایا ہوا ھے !!
|