قصہ نوح و ابراہیم علیہ السلام

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعنکبوت ، اٰیت 14 تا 22 {{{{{{{{ قصہِ نُوح و ابراہیم }}}}}}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد ارسلنا
نوحا الٰی قومهٖ
فلبث فیھم الف
سنة الّا خمسین عاما
فاخذھم الطوفان وھم
ظٰلمون 14 فانجینٰه واصحٰب
السفینة وجعلنٰھا اٰیة للعٰلمین 15
وابرٰھیم اذقال لقومهٖ اعبدوااللہ واتقوه
ذٰلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون 16 انما تعبدون
من دون اللہ اوثاناوتخلقون افکا ان الذین تعبدون
من دون اللہ لایملکون لکم رزقافابتغوا عنداللہ الرزق و
اعبدوه واشکروله الیه ترجعون 17 وان تکذبوافقد کذب امم
من قبلکم وما علی الرسول الّاالبلٰغ المبین 18 اولم یرواکیف یبدئ
اللہ الخلق ثم یعیده ان ذٰلک علی اللہ یسیر 19 قل سیروافی الارض
فانظرواکیف بداالخلق ثم اللہ ینشئ النشاةالاٰخرة ان اللہ علٰی کل شئ قدیر
20 یعذب من یشاءویرحم من یشاء والیه تقلبون 21 وما انتم بمعجزین فی الارض
ولا فی السماء ومالکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر 22
اے ھمارے رسُول ! انسانی تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ ھم نے نُوح کو جب اُس کی قوم کی طرف بہیجا تو اُس نے مُسلسل ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کے درمیان دعوتِ حق کا فریضہ اَنجام دیا اور اُس کی قوم نے مُتواتر اُس کی دعوت کا انکار کیا یہاں تک کہ انکارِ حق کی سزا کے طور پر اُس ظالم قوم پر ایک سیلابِ عظیم آیا جس میں نُوح کے ساتھ سفینہِ نُوح میں سوار ہونے والے چند اَفراد کے سوا قومِ نُوح کے سارے اَفراد اُس سیلاب میں غرق ہو کر نقشِ عالَم پر ایک نشانِ عبرت بن گئے اور پھر ایک طویل زمانے کے بعد ھم نے ابراہیم کی قوم میں ابراہیم کو مامُور کیا تو ابراہیم نے بھی اُسی قدیم دعوتِ حق کا اعادہ کرتے ہوۓ اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے اور اللہ کی بندگی کرنے کی تلقین کی اور اپنی قوم کو بتایا کہ اگر تُم سمجھ دار لوگ ہو تو یہ بات سمجھ لو کہ تم اللہ کی بندگی چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بناۓ ہوۓ جن جُھوٹے بتوں کی جُھوٹی بندگی کرتے ہو اور جن بے جان و بے اختیار بتوں کو تُم اپنا روزی رساں سمجھتے ہو وہ بے جان بُت زمین کی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور وہ بے اختیار بُت تمہیں زمین پر زمین کی کوئی چیز دینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے اور تُم سے کوئی چیز لینے کا اختیار بھی نہیں رکھتے اِس لیۓ تُم اُن بتوں سے قطع تعلق کر کے صرف اُسی اللہ سے رجوع کرو ، اُسی اللہ کی بندگی کرو ، اُسی اللہ سے روزی مانگو اور اُسی اللہ کا شکر ادا کرو جس اللہ نے تمہیں زندگی دی ھے اور زندگی کے یہ سارے وسائل بھی دیۓ ہیں جن کو تُم استعمال میں لاتے ہو ، اگر تُم اللہ کے اِن اَحکامِ نازلہ کی تکذیب کرو گے تو پہلی تکذیب کرنے والی اَقوام کی طرح صفحہِ ہستی سے مٹا دیۓ جاؤ گے ، ایک رسُول کی ذمہ داری اِس سے زیادہ کُچھ نہیں ہوتی کہ وہ اللہ سے جو حُکم پاۓ اور اُس حُکم کو وہ اپنی قوم تک پُہنچاۓ اور میں نے اللہ کا حُکم تُم تک پُہنچا کر اپنی ذمہ داری پُوری کردی ھے ، حیرت ھے کہ یہ لوگ جو بار بار ہرنبی کی دعوتِ حق کا انکار کرتے آرھے ہیں کیا اِن لوگوں نے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا اور کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ اللہ زمین میں کس طرح مخلوق کی تخلیق پر تخلیق کر رہا ھے اور ہر تخلیق کی گئی مخلوق کا اعادہِ تخلیق بھی کر رہا ھے اور اے ھمارے رسُول ، آپ اِن لوگوں سے کہیں کہ وہ زمین کی چار جہات میں نکلیں اور ہر جہت پر اللہ کے پھیل کر سمٹنے اور سمٹ کر پھیلنے والے اُس سلسلہِ تخلیق و تدفین کا بار بار مشاھدہ کریں جو کہیں پر بار بار اِس طرح پھیل رہا ھے اور جو کہیں پر بار بار اِس طرح سمٹ رہا ھے کہ جو کُچھ پیدا ہو رہا ھے وہ بار بار فنا بھی ہو رہا ھے اور جو کُچھ فنا ہو رہا ھے وہ بار بار پیدا بھی ہو رہا ھے کیونکہ وہ اپنی ہر تخلیق کو بار بار بنانے مٹانے اور بار بار مٹانے بنانے پر پُوری قُوت و قُدرت رکھتا ھے اور اُس کی جو مخلوق زندگی کے حلقے یا موت کے دائرے میں جہاں پر بھی ہوتی ھے وہ ہر لَحظہ و ہر آن اُس کی دسترس میں ہوتی ھے ، وہ اُس مخلوق و افرادِ مخلوق کو جُرم کرنے پر سزا بھی دیتا رہتا ھے اور جُرم سے رجوع کرنے پر رحم و کرم بھی کرتا رہتا ھے ، تُم سب نے مرنے سے پہلے جیتے رہنے اور مرنے کے بعد پھر جینے اور جیتے رہنے کے لیۓ اُسی کی طرف رجوع کرنا ھے ، تُم عاجز لوگ زمین و آسمان کے کسی مقام پر بھی اُس غیر عاجز ہستی کو ہرگز عاجز نہیں کر سکتے اور تمہیں زمین و آسمان کے کسی مقام پر بھی اُس کی پکڑ سے اُس کے سوا کوئی اور نہیں بچاسکتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم اپنی کتابی ترتیب میں انسان کی معلوم تاریخ کے مطابق انسان کے لیۓ عموما اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کے جو تاریخی اَحوال بیان کرتا ھے اُن تاریخی اَحوال میں پہلے نُوح علیہ السلام کا ذکر کرتا ھے جن کا عھدِ نبوت سیدنا محمد علیہ السلام کے عھدِ نبوت سے 2919 سال قبل کا عھدِ نبوت ھے ، اُس کے بعد قُرآن ھُود علیہ السلام کے زمانہِ نبوت کا ذکر کرتا ھے جن کا زمانہِ نبوت سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانہِ نبوت سے 3400 پہلے کا زمانہ ھے ، اُس کے بعد قُرآن صالح علیہ السلام کا تذکرہ کرتا ھے جن کا دورِ نبوت سیدنا محمد علیہ السلام کے دورِ نبوت سے 2900 سال قبل کا دورِ نبوت ھے اور اِس کے بعد قُرآن ابراہیم علیہ السلام کے عھد کا تذکرہ کرتا ھے جن کا عھدِ نبوت سیدنا محمد علیہ السلام کے عھدِ نبوت سے 1996سال قبل کا عھدِ نبوت ھے لیکن سُورَةُالعنکبوت میں اُس عمومی ترتیب کے برعکس یہ خصوصی ترتیب اختیار کی گئی ھے کہ اِس سُورت میں جن اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کے اَحوال بیان کیۓ گۓ ہیں اُن میں پہلے نُوح و ابراہیم ، اُس کے بعد ابراہیم و لُوط ، اُس کے بعد اسحاق و یعقوب اور اُس کے بعد مُوسٰی وشعیب کا ملا جلا ذکر کیا گیا جس میں ابراہیم علیہ السلام اور لُوط علیہ السلام کا ذکر تو ذکرِ مُفصل ھے لیکن اسحاق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کا ذکر محض براۓ حوالہ ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ اِس سُورت کے اِس مقام پر اُس انسانی تاریخ کا تذکرہ مقصود نہیں ھے جس انسانی تاریخ کا تذکرہ آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر محمد علیہ السلام کے تذکرے تک پر پُہنچتا ھے بلکہ اِس سُورت کے اِس سلسلہِ کلام میں نبوت کے اُس خاص انقلابی دور کا تذکرہ مقصود ھے جو دور ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ گرامی سے شروع ہو کر سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر مُنتج ہوتا ھے اور نوح علیہ السلام کے زمانے میں نُوح علیہ السلام کی قوم پر آنے والے عذاب کے بعد ھُود و صالح کی اقوام پر آنے والے عذاب کے دو زمانوں کا ذکر نہ کرنے کی ایک یہ وجہ بھی رہی ہو کہ نُوح علیہ السلام کے زمانے سے لے کر ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک کا سارا عرصہ انسان کو عذاب میں ڈُوبا ہوا نظر آۓ تو وہ اللہ کی رحمت کی آس سے بالکُل ہی بے آس نہ ہوجاۓ ، اٰیاتِ بالا میں آنے والا پہلا عقلی عجوبہ عُمرِ نُوح ھے جو بائبل کی روایت کے مطابق 950 برس تھی لیکن قُرآنِ کریم کے مُحوّلہ بالا بیان سے معلوم ہوتا ھے کہ 950 کی برس کی یہ مُدت نُوح علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کی مُدت تھی اور خُدا ہی بہتر جانتا ھے کہ اِس دعوت و تبلیغ سے پہلے نُوح علیہ السلام کی عُمر کیا تھی اور طوفانِ نُوح کے بعد نُوح علیہ السلام کتنے برس تک بقیدِ حیات رھے ہیں اور اٰیاتِ بالا میں دُوسرا عقلی عجوبہ سفینہِ نُوح ھے جس کا سُورَہِ ھُود میں ذکر ہوا ھے اور سُورَہِ ھُود کی اٰیت 44 کے مطابق سفینہِ نُوح ایک طولانی و طوفانی مُدت کے بعد خُشکی کے جس مقام پر رُکا تھا وہ مقام جُودی نام کی ایک بلند ترین پہاڑی پر تھا تاہَم اہلِ تاریخ کے دعوے کے مطابق سفینہِ نُوح کے کُچھ آثار تو اہلِ تاریخ کو ملے ہیں لیکن اُس کے اجزا ابھی تک کسی کو نہیں مل سکے ہیں ، نُوح علیہ السلام کی طویل عُمری یقینا قُرآنِ کریم کی دی ہوئی ایک حیرت انگیز خبر ھے لیکن اللہ کے اِس عالَم میں جنتے معلوم اور زیرِ تحقیق غیر معلوم حیرت کدے آباد ہیں اُن کے موجُود ہوتے ہوۓ نُوح علیہ السلام کی طوالت عُمری ایک سوال تو ضرور ھے لیکن یہ سوال اتنا بڑا سوال بھی نہیں ھے کہ انسانی ذہن اِس کی حیرت سے باہر ہی نہ آسکے کیونکہ یہ سوال اِس سوال سے زیادہ تحقیق طلب ھے کہ نُوح علیہ السلام کی وہ قوم کتنی اور کیسی ترقی یافتہ قوم تھی کہ جس کے قصر و محلات کو مسمار کرنے کے لیۓ زمین بھی ایک مُدت تک اپنے بڑے بڑے دھانوں سے پانی اُگلتی رہی اور آسمان بھی اپنی بے کنار وسعتوں سے ایک مُدت تک پانی برساتا رہا تب جا کر کہیں اُس قوم کے امصار و اقصار پیوندِ زمیں ہوۓ ہیں لیکن اُس قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی تھی کہ وہ اللہ تعالٰی کے بجاۓ وَد و سواع ، یغوث و یعوق اور نسر نام کے اُن ناپاک پنج تن کی پرستش کیا کرتی تھی جن میں سے ایک بُت یغوث کی شکل آج بھی یاغوث کے نام سے پُوجی جا رہی ھے ، اٰیاتِ بالا کا دُوسرا اھم حصہ ابراہیم علیہ السلام کا وہ عقلی و مَنطقی طرزِ استدلال ھے جو اُنہوں نے اپنی قوم کے سامنے اِس طرح پیش کیا تھا کہ انسان تو اپنی فطرت کے اعتبار سے اُس ہستی کی پرستش کرتا ھے جس ہستی نے انسان کو پیدا کیا ھے لیکن تُم تو ایسی اُلٹی کھوپڑی کے مالک لوگ ہو جو اپنے بُت خود تخلیق کرتے ہو اور پھر اپنے ہاتھوں سے پیدا کی گئی اُسی خود ساختہ مخلوق کو اپنا داتا ، اپنا ابدال اور اپنا اوتار بنا کر اُس کی پرستش کرتے ہو جس کو قیامت تک یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کون ھے جو اُن کی پرستش کر رہا ھے اور کیوں کر رہا ھے ، اسی طرح انسان اُس ہستی کی پرستش کرتا ھے جو اُس چیز کا مالک ہوتا ھے جس چیز کو وہ اپنی مرضی سے کسی کو دے سکتا ھے لیکن تُم تو اُن بتوں بے اختیار بتوں کے پُجاری ہو جن کے قبضے میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ھے جو وہ کسی کو دے سکیں یا وہ کسی سے وہ چیز لے سکیں اور اسی طرح انسان اُس ہستی کی پرستش کرتا ھے جو اُس کو کوئی نفع دے سکتی ھے یا کوئی نقصان پُہنچا سکتی ھے لیکن تُم تو اُن بتوں کے پُجاری ہو جو تمہیں کوئی نفع بھی نہیں دے سکتے اور تمہیں کوئی نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتے اور مزید براں یہ کہ تُم یہ بھی جانتے ہو کہ تُم جیتے جی بھی اِن بتوں سے کُچھ نہیں لے سکتے اور مرنے کے بعد بھی اِن بتوں سے کُچھ بھی نہیں پا سکتے تو پھر اللہ کی اُس ہستی کی طرف کیوں نہیں رجوع کرتے جس نے تمہیں زندگی دی ھے اور جس نے تمہیں موت دینی ھے اور موت کے بعد پھر زندگی دینی ھے ، اگر تُم نے اُس کو جاننا اور سمجھنا ھے تو عالَم کے مُختلف گوشوں میں جا کر انسان کے حیات میں آنے اور انسان کے حیات سے جانے کے لَمحہ بہ لَمحہ بدلتے ہوۓ اَحوال پر ہی ایک نگاہ ڈال لو تاکہ پہلے تُم اِس عالَم کے جسم کو اور پھر اپنے جسم کے اِس عالَم کو سمجھ سکو !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557767 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More