#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 36 تا
44 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
الٰی مدین
اخاھم شعیبا
فقال یٰقوم اعبدوا
اللہ وارجواالیوم الاٰخرو
لاتعثوافی الارض مفسدین
36 فکذبوہ فاخذتھم الرجفة
فاصبحوافی دارھم جٰثمین 37 و
عاداوثمود وقدتبین لکم من مسٰکنھم
وزین لھم لشیطٰن اعمالھم فصدھم عن
السبیل وکانوامستبصرین 38 وقارون و
فرعون و ھامٰن ولقد جاءھم موسٰی بالبینٰت
فاستکبروافی الارض وماکانواسٰبقین 39 فکلا
اخذنابذنبهٖ فمنھم من اخذته الصیحة و منھم من
اغرقنا وماکان اللہ لیظلھم ولٰکن کانواانفسھم یظلمون
40 مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت
اتخذت بیتاوان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لوکانوایعلمون
41 ان اللہ یعلم مایدعون من دونهٖ من شئی وھوالعزیز الحکیم
42 وتلک الامثال نضربھاللناس وما یعقلھا الا العٰلمون 43 خلق اللہ
السمٰوٰت والارض بالحق ان فی ذٰلک لاٰیٰت للمؤمنین 44
اور ھم نے جب شعیب کو اُس کے قومی بھائی چارے میں شامل لوگوں کی ھدایت کے
لیۓ مدین میں مامُور کیا تو شعیب نے بھی پہلے نبیوں کی طرح اہلِ مدین سے
کہا کہ میں تُم لوگوں کے لیۓ اللہ کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں کہ تُم لوگ
غیر اللہ کی غلامی کو چھوڑ کر صرف اللہ کی غلامی قبول کرو اور یومِ آخرت کی
بَھلائی کی اُمید رکھو اور دُنیا میں فتنہ و فساد پھیلانے سے باز آجاؤ لیکن
پہلی گُم راہ قوموں کی اُس گُم راہ قوم نے بھی اللہ کے اُس پیغام کو رَد کر
دیا تھا جس کے نتیجے میں اُس کی بستی میں ایک زلزلہ آیا تھا اور وہ زندہ
قوم اپنے گھروں میں بیٹھے لیٹے ہی ایک مُردہ قوم بن کر رہ گئی تھی اور ھم
نے اسی نافرمانی کے باعث قومِ عاد اور قومِ ثمود کے غارت گروں کو بھی اسی
طرح پر غارت کیا تھا جن میں سے بعض کے بعض تباہ حال مسکن بھی تُمہارے راستے
میں نظر آتے ہیں حالانکہ وہ لوگ اپنے زمانے کے دانش ور لوگ تھے لیکن جب
شیطان نے اُن کے قبیح اعمال کو اِن کی نظر میں صحیح اعمال بنا کر پیش کیا
تھا تو اِن کی دانش وری بُھر بُھری مِٹی بن کر رہ گئی تھی ، مدین کے شعیب
کی طرح مصر کے مُوسٰی بھی قارون و فرعون اور ھامان کے پاس خُدا کی کُھلی
نشانیاں لے کر پُہنچے تھے لیکن اُن لوگوں نے بھی زمین میں سرکشی جاری رکھی
تھی لیکن جب اُن پر ھمارا عذاب آیا تھا تو اُن کی سرکشی بھی ھمارے عذاب کے
سامنے دھری کی دھری رہ گئی تھی ، اِن لوگوں میں سے کُچھ لوگوں کو ھم نے اُن
کے بُرے اعمال کے وبال میں پکڑ لیا تھا ، بعض کی بستیوں پر آسمان سے پتھر
گرا کر اُن کو فنا کیا تھا ، بعض کو ایک کان پھاڑ دینے والی آواز کے ذریعے
ملیا میٹ کیا تھا ، بعض کو زمین میں دھنسا دیا تھا اور بعض کو پانی میں ڈبو
کر غرق کر دیا تھا لیکن اِن میں سے کسی قوم پر بھی ھم نے ظلم نہیں کیا تھا
بلکہ جس قوم کے ساتھ جس وقت جو کُچھ بھی ہوا تھا وہ اُس کے اپنے ہی اعمال
کا ایک نتیجہِ اعمال تھا ، یہ نظریہِ توحید کے اُن مُجرموں کا ماجرا ھے
جنہوں نے اللہ کی کارسازی کے مقابلے میں اپنے وہ خیالی کار ساز بنا رکھے
تھے اور جو یہ بات ہر گز نہیں جانتے تھے کہ اُن کے اِن مُشرکانہ گھروندوں
کی مثال تو مکڑی کے اُس گھر کی طرح ھے جو مخلوق کے سب گھروں میں ایک کمزور
گھر ہوتا ھے اور اللہ تو وہ حاکمِ غالب ھے جو اِن کے اُن تمام کمزور اور بے
زور کارسازوں کو جانتا ھے جن کو وہ شب و روز اپنی کارسازی کے لیۓ پُکارتے
رہتے ہیں لیکن اہلِ عقل کے سامنے ھم نے زمین کی سر کش اَقوامِ رَفتہ میں سے
چند اَقوام کی یہ چند مثالیں ہی پیش کی ہیں تاکہ اہل عقل اِن مثالوں سے کم
از کم اتنی بات تو ضرور سمجھ جائیں کہ اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو جس
مقصد کے لیۓ پیدا کیا ھے اُس مقصد کے دلائل اسی زمین و آسمان میں موجُود
ہیں جن دلائل کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیۓ انسان کو چشمِ بینا اور عقلِ
بیدار کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی اٰیت 14 سے لے کر اِس سُورت کی اٰیت 44 تک کی
30 اٰیات میں جو مضمون بیان ہوا ھے اُس مضمون میں قُرآنِ کریم نے کم و بیش
1362 برس کی وہ ساری تاریخ بیان کردی ھے جس میں نُوح علیہ السلام کے شرک و
بُت پرستی کے زمانے سے لے کر مُوسٰی علیہ السلام کے شرک و شخصیت پرستی کے
زمانے تک آنے والے چند جلیل القدر اَنبیاۓ کرام علیھم السلام کی سیرت و
کردار اور اُن کی مُنکر اَقوام کی ذلت و ادبار کا جو اَحوالِ عبرت بیان ہوا
ھے وہ یہ بتانے کے لیۓ بیان ہوا ھے کہ اعمالِ اصلاح و خیر کا اَنجام ہمیشہ
سے ہمیشہ کے لیۓ اصلاح و خیر ہونا اور اعمالِ فتنہ و شر کا اَنجام ہمیشہ سے
ہمیشہ کے لیۓ فتنہ و شر ہونا وہ طے شُدہ اَمر ھے جس کی تاریخی مثال نُوح
علیہ السلام کے زمانے سے لے کر مُوسٰی علیہ السلام کے زمانے تک پھیلا ہوا
وہ سارا زمانہ ھے جس زمانے میں زمانے کے جن قلیل اہلِ خیر نے اَنبیاۓ کرام
کی دعوتِ خیر قبول کی تھی اُن کا انجام ہمیشہ اصلاح و خیر پر مُنتج ہوا تھا
اور اُس کے زمانے کے جن کثیر اہلِ شر نے اَنبیاۓ کرام کی دعوتِ خیر رَد کی
تھی اُن کا اَنجام ہمیشہ ہی فتنہ و شر پر مُنتج ہوا تھا جو اِس بات کی ایک
قوی اور قطعی دلیل ھے کہ آنے والے زمانوں میں بھی جو لوگ اَنبیاۓ کرام کے
علمِ کتاب کی اتباع کریں گے اُن کا اَنجام بخیر ہو گا اور جو لوگ اَنبیاۓ
کرام کے علمِ کتاب سے اعراض کریں گے یا اُس علمِ کتاب کے ساتھ کسی اور
انسانی علم و کتابِ علم کو شامل کر کے اُس آفاقی و اَفلاکی دین میں تحریف
کا اتکاب کریں گے تو وہ بھی اُسی قسم کے کسی عذاب سے ہلاک ہوں گے جس قسم کے
عذاب سے نُوح علیہ السلام ، ھُود علیہ السلام ، ثمُود علیہ السلام ، صالح
علیہ السلام ، لُوط علیہ السلام ، شعیب علیہ السلام اور مُوسٰی علیہ السلام
کی مُنکرِ کتاب و مُنکرِ علمِ کتاب اُمتیں ہلاک ہوئی ہیں کیونکہ زمین کی
کوئی قوم اپنی نسل یا اپنے نسب کے اعتبار سے اللہ تعالٰی کی پسندیدہ قوم
نہیں ھے بلکہ ہر قوم اُس تعلیم کے اعتبار سے اللہ تعالٰی کی پسندیدہ قوم ھے
جو تعلیم اُس قوم کا نبی اُس قوم کے پاس لے کر آیا ھے اور اُس پیغام کو اُس
قوم نے قبول کیا ھے لیکن اپنے مقصد کے اعتبار سے یہ سارا مضمون انسان کے
عمل اور نتیجہِ عمل کا ایک مضمون ھے اِس لیۓ اِس مضمون کے بعد اِس سُورت کی
آنے والی 25 اٰیات میں جو مضمون آرہا ھے وہ انسان کے اُن اعمال کے اُن
اَحوال پر مُشتمل ھے جو اعمال اور جو احوال اللہ تعالٰی کی اُس آخری کتاب
پر عمل کرنے اور عمل کرانے مُمد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں جو کتاب اللہ
تعالٰی کے آخری نبی پر اللہ تعالٰی کے آخری پیغام کے طور پر نازل ہوئی ھے
لیکن آنے والے اُس مضمون سے پہلے آنے والے اُس مضمون کی مقصدی تعلیم و
مقصدی تفہیم کے لیۓ اٰیاتِ بالا میں قُرآنِ کریم نے اپنا جو مُختصر سا
بیانیہ پیش کیا ھے اور اُس بیانیۓ میں اللہ تعالٰی نے جو دو باتیں بیان کی
ہیں اُن دو باتوں میں سے پہلی بات یہ ھے کہ خالقِ عالَم نے اپنی ہر مخلوق
میں کار کردگی کی جو صلاحیت پیدا کی ہوئی ھے تو اُس صلاحیت کے مطابق اُس کی
جو مخلوق جو کام کرتی ھے اُس کام کو وہ مخلوق دُنیا کا سب سے زیادہ پائدار
کام سمجھتی ھے جس کی ایک مثال مکڑی کا وہ گھر ھے جس گھر کو مکڑی اپنے
محدُود علم ، اپنی محدُود اہلیت اور اپنی محدُود صلاحیت کے مطابق دُنیا کا
سب سے زیادہ مضبوط گھر سمجھتی ھے حالانکہ مکڑی کا وہ گھر دُنیا کا سب سے
زیادہ کمزور گھر ہوتا ھے ، اسی طرح جو مُشرک لوگ اپنی ناقص عقل کے مطابق
شرک کے جو خیالی گھر بناتے ہیں اور اُن خیالی گھروں میں اپنے جو خیالی کار
ساز سجاتے ہیں اُن کی محدُود عقل کے مطابق بھی وہ اُن کے بہت مضبوط کار ساز
ہوتے ہیں لیکن دَرحقیقت مُشرکین کے وہ خود ساختہ کار ساز مکڑی کے اُس گھر
کی طرح کم زور ہوتے ہیں جو ہوا کے ایک زور دار جھونکے کے ساتھ ہوا ہو کر
ہوا میں غائب ہو جاتے ہیں اور اِس مضمون میں دُودسری بات یہ بیان کی گئی ھے
کہ ھماری یہ بات اُن اہلِ عقل کے لیۓ ھے جو زمین و آسمان کی ساخت و پرداخت
پر غور و فکر کر کے اپنی عقل کو جِلا دیتے رہتے ہیں ، ھماری یہ بات اُن حمق
لوگوں کے فہم کی بات نہیں ھے جو اپنی جہالت کی وجہ سے اپنی فکری اور فطری
دانش و بینش کو بھی جَلا کر راکھ دیتے ہیں !!
|