سید علی ہمدانی ؒ سے سید علی گیلانی ؒ تک

(6صدیوں سے زائد پر محیط کشمیر کے مسلم تشخص کے بقا ء کی جدوجہد)


راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, [email protected]
"ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے" ایک سفید ریش بوڑھے کے یہ الفاظ وادی کشمیر میں شیر کی دھاڑ کی مانند گونجتے یہ وہ الفاظ تھے جنہوں اسلامیان کشمیر پہ سحر طاری کر رکھا تھا ۔ جو بھی ان لفظوں کی دھار کا شکار ہوا وہ چقماق پتھر بن گیا جس کی چنگاریوں نے ہر سمت میں شمع ہائےآزادی فروزاں کر دیں ۔ ان لفظوں نے ایک نعرے کی صورت اختیار کرلی اور ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں یہ نعرہ مستانہ گونجنے لگا۔یہ محض ایک جذباتی نعرہ بھی نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور ایک فکر تھی جو اسلامیان کشمیر کے دلوں میں رسوخ کر گئی ، ان کی روح میں سرائیت کر گئی اور ان کی سوچ کا محور بن گئی ۔اس نعرے نے اسلامیان کشمیر کے مسلم تشخص کو نہ صرف ابھارا بلکہ اسی مسلم تشخص کی حفاظت کے لیے انہیں تیار و کمربستہ بھی کیا ۔اہل کشمیر نے مسلم تشخص کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی لگائی اور مقابل میں نمرود ِزمانہ اور فرعون دوراں بھارت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ۔ نرم خو کشمیریوں کو باطل کے طوفان کے سامنے چٹان بنادینے والے اس بوڑھے شیر سے شاید ہی کوئی حریت پسند نا واقف ہو ۔ انٹرنیٹ کے کسی بھی سرچ انجن میں "ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے " لکھ کر تلاش کیجیے ایک ہی شخصیت کا نام سامنے آئے گا ۔یہ توانا آواز ہے سید علی شاہ گیلانی کی جس نے ملت اسلامیہ کشمیر کے ہر بچۂ شاہین کو پرِ پرواز عطا کیے ۔علامہ اقبالؒ کا مرد مومن کہیں یا مولانا مودودیؒ کا مرد مجاہد ،داعی الی اللہ کہیں یا جدوجہد آزادی کا استعارہ ، پیکر وفا کہیں یا صبر و استقامت کا پہاڑ ، اس قائد فقیدالمثال ، عالم با عمل نے زندگی ایسے جی ہے کہ اس کو بیان کرنے کے لیے لفظوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ اس سید زادے نے اپنی خاندانی نسبت کی لاج رکھتے ہوئے ہر فرعون کے دروازے پہ دستک دی ہے ہر نمرود کو للکارا ہے اور ہر یزید دوراں کے ستم سہے ہیں ۔ مستیٔ کردار سے سرشار اس مرد مجاہد کو نہ تو کوئی طاقت مرعوب کر سکی نہ ہی یہ دنیا کی چکاچوند سے مرغوب ہوا ۔ تادمِ مرگ اسکے موقف میں کوئی لچک نہیں آئی یہاں تک کہ اسکی موت نے بھی دشمن پہ ہیبت طاری کردی ۔اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کی خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے ۔
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دیے جلا گیا
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں نہ تو کسی محمد بن قاسم نے یلغار کا ذکر ہے ، نہ ہی قطیبہ بن مسلم نے یہاں کا رخ کیا اور نہ ہی غوری و غزنوی یہاں فتح کے جھنڈے گاڑھ سکے ۔یہاں اللہ نے دلوں کو فتح کرنے والے بھیجے جنہوں نے بغیر تیغ و تفنگ کے ہی ہزاروں دلوں کو مسخرکر لیا ۔کشمیر میں اسلام کو ریاستی مذہب بنانے اور یہاں اسلام کی تبلیغ عام کرنے کی ابتداء حضرت شرف الدین بلبل شاہ نے کی تھی ان کی دلکش شخصیت ریاست کے حکمران رینچن شاہ کو بھی مقناطیس کی طرح کھینچ کر دائرہ اسلام میں لے آئی ۔ریاست کے حکمران کا اسلام قبول کرنا ایک انقلاب تھا جو یہاں برپا ہوا ۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنےحکمران کی پیروی میں اسلام قبول کر لیا ۔ یو ںریاست جموں و کشمیر ایک مسلم ریاست میں ڈھل گئی ۔اگرچہ کشمیر کےمسلم تشخص کی ابتداء تو حضرت بلبل شاہ ؒ نے کی لیکن بلا شبہ ریاست جموں و کشمیر کوسماجی ، ثقافتی ، اور علمی طور پر ملت اسلامیہ کا گہوارہ بنانے کا سہرا سید علی ہمدانی ؒ کے سر جاتا ہے ۔ سید علی ہمدانی کے ہاتھ پر 37000 سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا ۔ یوں سید علی ہمدانی نے کشمیر کے تشخص کو بدل ڈالا ۔ ریاست کی آبادی آپ کے کردار کی بدولت اسلام کی آفاقی تعلیمات سے روشناس ہوئی اور یہ خطہ مسلم اکثریت کا خطہ بن گیا ۔ اس خطے نے سید علی ہمدانی کی قیادت میں اپنا مسلم تشخص قائم کر لیا ۔ چودہویں صدی کے عظیم داعی حضرت امیرکبیر سید علی ہمدانیؒ نے کشمیر میں مذہب و سیاست، تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت اور علم و فضل کے میدان میں تاریخ ساز اور انقلابی تبدیلیاں رونما کیں۔آپ کی کشمیر آمد سے قبل اگرچہ ایک مستحکم مسلم ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی، لیکن اسلامی تعلیمات ابھی تک عام نہیں ہوئی تھیں کشمیر میں جو مسلمان آباد تھے، ان کی دینی حالت بھی شریعت کے مطابق نہ تھی، صدیوں سے کفر و شرک اور بت پرستی سے ظلمات کی دبیز تہہ میں لپٹی سرزمین کشمیر توحید کے لئے تڑپ رہی تھی اور کسی ایسے درویش و خضر راہ کی منتظر تھی۔
اس صورتحال میں ہمدان کے گورنرکے یہ چشم و چراغ حج کی نیت سے مکہ مرمہ پہنچتے ہیں اور پھر مسجد نبوی ﷺ پہ حاضری دیتے ہیں یہیں ان کو خواب میں نبی ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور حکم ہوتا ہے کہ کشمیر کی جانب جاؤ اور لوگوںکو اسلام سے روشناس کراؤ ۔ میر سید علی ہمدانی ؒ ایک بڑے سیاح ہونے کی وجہ سے، اس وقت کی اسلامی دنیا کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔میر سید علی ہمدانی ؒ نے کشمیر میں اشاعت اسلام کے امکانات کا جائزہ لینے کیلئے سید حسین سمنانی اور تاج الدین کو اس خطہ میں روانہ کیا اور خود 774ھ میں پہلی بار ایران سے کشمیر اسلام کی اشاعت کا عزم لے کر تشریف لائے۔ حضرت شاہ ہمدانؒ مفسر، محدث، فقیہ، مبلغ، صوفی، شاعر، عارف ربانی، داعی اسلام، سیاست دان اور معمار اخلاق تھے۔ آپ نے جہاں عام کشمیریوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کیا، وہیں حکمرانوں کی اصلاح بھی کی اور انہیں اسلامی ریاست کے تقاضوں سے آگاہ کیا کیونکہ آپ حکومت کو شریعت کی تابع دیکھنا چاہتے تھے۔ شاہ ہمدانؒ نے ایک کامیاب سیاسی، سماجی و معاشی رہنما کے طور اپنی درخشندہ زندگی گزاری۔ انہوں نے بادیہ پیمائی کے مرحلوں اور آبلہ پائی کی تمام صعوبتوں کے ساتھ وادی کشمیر میں ورودِ مسعود فرما کر یہاں کے عوام کو اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے روشناس کرایا۔ پہلی بار آمد کے بعد آپ نے لوگوں کے عقائد ، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کی غرض سے انہیں تعلیم دی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کی تہذیب و تمدن اور معیشت و سیاست کا جائزہ لے کر ان کی اصلاح کا منصوبہ تیار کیا ۔ 781ھ میں آپ دوبارہ کشمیر تشریف لائے اور اس مرتبہ ڈھائی برس قیام فرمایا۔اس مرتبہ آپ 700 افراد کے قافلے کے ساتھ آئے جو آپ کے مرید تھے ، لوگوں کی اکثریت تک پہنچنے کے لئے انہوں نے اپنے پیروکاروں سے تلقین کی کہ وہ کشمیری زبان سیکھیں۔ ان 700 افراد کے قافلے میں ہر طرح کے دستکار اور مختلف صنعتوں کے ماہرین بھی شامل تھے اور مختلف الانواع فصلیں اور پھل بھی ہمراہ تھے ۔ اس قافلے نے کشمیر کا تمدن اور ثقافت ہی بدل ڈالی ۔ یہاں کے لوگ ان صنعتوں اور زراعت کے نئے طریقوں سے آشنا ہوئے اور کشمیر ایران صغیر بن گیا ۔ کشمیر سے ہندو اور بدھ معاشرے کے اثرات تک دھل گئے اور وہ ہر صورت میں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مماثلت اختیار کر گیا ۔ 785ھ میں تیسری مرتبہ کشمیر تشریف لائے اور 4 ماہ قیام کے بعد پکھلی کے راستہ زیارت حرمین الشرفین کی نیت سے واپس ہوئے۔ 6 ذی الحجہ 786ھ بمطابق 19 جنوری 1385ء کو ’’کنار‘‘ جو کہ پکھلی کے مضافات میں واقع ہے انتقال فرمایا اور ترکستان کے شہر ختلان کے کولاب میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے ساتھ جو 700 سادات تشریف لائے تھے۔ انہوں نے وادی کشمیر اور اس کے اطراف و اکناف میں اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ 1394ء میں آپ کے فرزند سید میر محمد ہمدانیؒ کشمیر تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ 300 رفقاء بھی تھے۔انہوں نے کشمیر میں 22 برس تک قیام فرمایا اور اپنے والد محترم کے تبلیغی مشن کو دوام بخشا۔
حضرت شاہ ہمدانؒ نے اہل کشمیر کو وعظ و تلقین کے اصول، فطرت انسانی کے انواع اور ان پر اخلاقی گرفت، تربیت کے اصول، خدام و خواتین سے سلوک، بازار و راستے کے آداب، دعوت و محافل کی کیفیت، منکرات سے اجتناب کے طور طریقے، حکمرانوں کی ذمہ داری، رعایا کے حقوق، مسلم و غیر مسلم رعایا سے حسنِ سلوک کے اخلاقیات سے بہرہ ور کیا۔ بقول قلمکار زیڈ جی محمد امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ نے کشمیر میں دو درجن سے زیادہ دستکاریاں رائج کرنے کیلئے وسیع اور ترقی پسند پروگرام روبہ عمل لائے۔ انہوں نے اس سرزمین کو معاشی استحکام بخشا۔ اْن کے اپنے کشمیر کے پہلے دورے کے بعد بقول عبدالمجید عظمی ’’ختلان‘‘ کی خانقاہ میں اپنے مواعظ کے دوران دست کاروں کو کشمیر آنے کیلئے متحرک کرتے رہے، تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کو مختلف دستکاریوں کی تربیت دے سکیں، تربیت دینے والوں کو کشمیر روانہ کرنا ان کا ایک نمایاں کارنامہ بن گیا تھا، جس کسی کو بھی دستکاری کیلئے مقامی طور پر خام مال دستیاب ہوتا تھا تو اس کیلئے ہر اس شخص کو تربیت دی جاتی تھی، جس نے اسلام قبول کیا تھا، یہ مذہبی تربیت گاہیں پیشہ وارانہ تربیتی مرکزوں کے طور پر کام کیا کرتی تھیں، جہاں اسلامی تعلیم کے علاوہ طلباء کو مختلف ہنروں کی تربیت دی جاتی تھی، وہ قانونی طور پر جائز اجرتوں پر زندگی گذارنے میں یقین رکھتے تھے۔ میر سید علی ؒہمدانی یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اْن کے پیروکار معاشرے پر طفیلی بن کر رہیں بلکہ انہوں نے کشمیریوں سے کہا کہ وہ ایک باعزت زندگی گذارنے کیلئے محنت کریں، وہ خود ٹوپیاں بنا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ انہوں نے روایتی طرز کی خانقاہی زندگی کو خیرباد کہا۔ ان کی خانقاہ میں اوقات کار صرف صبح اور بعد از مغرب ہوا کرتے تھے۔ دن کے دوران لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کی اقتصادی اصلاحات کی بدولت 6 صدیاں گذرنے کے بعد بھی یہ عمل مسلسل طور پر پھل پھول رہا ہے ۔ اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں زراعت و دستکاری کو ریاستی معیشت میں دوسرے اہم شعبہ کی حیثیت حاصل ہے۔میر سید علی ہمدانی ؒ کو انکی بے انتہا کاوشوں کے نتیجے میں ’’محسن کشمیر‘‘ کا فخریہ لقب بھی دیا جاتا ہے۔
کشمیر میں سید علی ہمدانی ؒکی اولاد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ لوگ سادات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔انہی سادات کے ہاں اللہ نے ایک اور سخصیت کو اٹھایا جس نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم چلتے ہوئے کشمیر کے اس مسلم تشخص کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ اس کے تحفظ کے لیے دور جدید کی سامراجیت کے خلاف کمر بستہ بھی ہوئے ۔ یہ شخصیت سید علی گیلانی ہیں جو بیسویں صدی کے اوائل میں ریاست جموں کشمیر کے علاقے سوپور میں اس وقت پیدا ہوئے جب یہ خطہ ڈوگروں کے ہاتھوں مشق ستم بنا ہوا تھا ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کی اور مشہور مورخ محمد دین فوق کی وساطت سے لاہور آئے ۔ یہیں انہوں نے اورئینٹل کالج سے علوم شرقیہ میں اسناد حاصل کیں ۔ لاہور قیام کے دوران ہی علامہ اقبال سے متعارف ہوئے اور ان کی مجالس سے فیض پایا ۔کشمیر واپس آگر مدرس کے طور پر قوم کی رہنمائی کرنے لگے ۔ سرینگر میں قیام کے دوران مولانا مسعودی سے کسبِ فیض کیا ۔مولاناسعد الدین کے ذریعے سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ سے متعارف ہوئے اور جماعت اسلامی کا دامن ایسے پکڑا کہ تادم مرگ اسی سے وابستہ رہے ۔ جماعت اسلامی کے ہمہ وقت کارکن کی حیثیت سے سرگرم رہے اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے تین بار ممبر اسمبلی بھی منتخب ہوئے ۔
سید علی گیلانی ؒ علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودی ؒ کی تعلیمات سے متاثر تھے لہذا خود کو ایک چلتی پھرتی تحریک بنا ڈالا تھا ۔ اقبال کو مستیٔ کردار سے لبریز جو مرد مجاہد درکار تھا سید علی گیلانی اس کی مجسم صورت تھے ۔ اسی طرح مولانا مودودی جس نوع کے داعیان تیار کرنے جا رہے تھے سید علی گیلانی مولانا کے خوابوں کی تعبیر تھے ۔سید علی گیلانی نے تمام عمر جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور وادی کے کوچے کوچے میں تجدید و احیائے دین کا فریضہ انجام دیا۔ اقبال نے کشمیریوں کو خانقاہون سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کو کہا تھا سید علی گیلانی نے کشمیریوں کو رسم شبیری ادا مرنے کے قابل بنایا اور انہیں بھارتی سرکار کے سامنے لا کھڑا کیا ۔ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج بھی ان مجاہدین کو دبا نہیں سکی ۔ سید علی گیلانی نے شیخ عبداللہ کے چلسم میں مبتلاء کشمیری قوم کو جگایا اور انہیں ان کی منزل کی طرف رہنمائی کی ۔ کشمیر کا مسلم تشخص ابھارا اور کشمیریوں کو امت مسلمہ کا حصہ بننے کی طرف مائل کیا ۔ سید علی گیلانی نے کشمیری مسلمانوں کو باور کرایا کہ کشمیر کی سرسبز وادی اسلام کا کفر اور شرک کے صحرا کے ساتھ دور دور کا کوئی تعلق نہیں ۔ کشمیر امت مسلمہ کا حصہ ہے اور کشمیر کا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے ۔ بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کو ان کے اس موقف سے ہٹانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے لیکن یہ اقبال کا شاہین اور مودودی کا شیر نہ کسی طاقت سے مرعوب ہوا اور نہ ہی کسی لالچ نے اسے مرغوب کیا۔ عزیمت کا یہ پہاڑ اپنی آخری سانس تک ایک موقف پہ کھڑا ریا اور چٹان کی طرح مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا۔
سید علی گیلانی نے ہر پلیٹفارم سے کشمیری ملت کی رہنمائی کی ۔ انہوں نے سیاست کے ذریعے قوم کو حق خود ارادیت دلانا چاہا اور چار بار اسمبلی ممبر کی حیثیت سے اسمبلی میں صدائے حق بلند کی ۔ آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کو ان کی منزل سے روشناس کرایا ۔ آپ کی خطابت اور آپ کی تحریر نے کشمیری مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنائی ۔ آپ کشمیر کے ہر دلعزیز قائد بن گئے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ بھارتی سرکار پہ دلائل کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے کشمیریوں کو الیکشن سے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرنے کو کہا ۔ سید علی گیلانی کی کال پر کشمیریون نے بائیکاٹ کیا اور صرف 2 فیصد ووٹ پڑے ۔ بھارتی سرکار اور عالمی اداروں نے اس طرف بھی کان نہ دھرے تو سید علی گیلانی نے قوم کو ہتھیار اٹھانے کا کہا ۔ قوم نے اس پہ بھی لبیک کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کی بستی بستی میں بھارتی فوج کے خلاف مجاہدین برآمد ہونے لگے ۔ آپ کے اشارے پر میدان کارزار میں نکلنے والے مجاہدین حزب المجاہدین کی چھتری تلے جمع ہوئے اور ہندوستان کو ناکوں چنے چبوائے ۔ آپ کے تیار کردہ شاہین آج بھی ہندوستان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کی لاکھوں افواج کشمیری عوام اور مجاہدین کا جذبہ حریت سرد کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔
سید علی گیلانی ؒ کے مطابق ریاست جموں کشمیر پہ بھارتی تسلط اس کے مسلم تشخص کو فنا کرنے کی علامت ہے ۔ آپ نے کشمیری مسلمانوں پہ واضح کر دیا تھا کہ کشمیر میں اقامت دین کا تصور ہندوستان کے زیر تسلط ممکن ہی نہیں ۔ کشمیر کے مسلم تشخص کی بقا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق میں ہی سمجھتے تھے ۔ ان کے اس موقف میں ذرا سی لچک بھی دیکھنے میں نہ آئی ۔ ہندوستان نے جمہوریت اور سیکولر ازم کا نقاب اوڑھ کر جہاں کو بے وقوف بنایا ہے سید علی گیلانی نے بھارت کے چہرے سے نقاب اتار کر اسکا کریہہ چہرہ دنیا کو دکھایا۔ آر ایس ایس کے عزائم سے دنیا کو آگاہ کیا جس نے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر جموں میں قتل عام کیا اور لاکھوں مسلمان شہید کر ڈالے ۔ اس قتل عام سے جموں میں ہندو مسلم تناسب ہی بدل گیا ۔ اب یہی کھیل ہندوستان کشمیر کے دیگر علاقوں میں بھی کھیلنا چاہتا ہے ۔ اسی مقصد کے لیے ہندوستان نے 5 اگست 2019 کو آئینی ترامیم کے ذریعے کشمیر کی آئینی حیثیت ہی بدل دی ۔ سید علی گیلانی اور ان کے رفقاء نے اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کی ۔ سید صاحب نے اپنے سخت موقف کی بنیاد پر ایک تنظیم "تحریک حریت جموں و کشمیر " کے نام سے قائم کی ۔ جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ وہ معتدل موقف اپنا کر سیاسی میدان میں کردار ادا کر سکیں گے ۔ لیکن سید صاحب کا موقف درست ثابت ہوا ۔ بھارت نے آئینی ترامیمم سے پہلے ہی جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی اور کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا ۔ ہندوستان کسی صورت میں حق کی آواز کو برداشت نہیں کر سکتا خواہ آپ معتدل ہوں یا تیکھے ۔
سید علی گیلانی نے اپنے موقف کی وجہ سے تکالیف برداشت کیں ان کی عمر کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزرا ۔ انہیں ذہنی و جسمانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کی قیدو بند کا سلسلہ تیس برس سے زائد دورانیے کا ہے ۔ ان کی جدوجہہد آزادی کا موازنہ اگر نیلسن منڈیلا سے کیا جائے تو یقینا سید علی گیلانی کی جدوجہد نیلسن منڈیلا کی جدوجہد سے زیادہ اور شدید ہے ۔ سید علی گیلانی بھارتی فوج کی موجودگی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے پاکستان کا پرچم لہراتے رہے اور قوم کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے رستے پہ چلاتے رہے ۔ آپ نے پیرانہ سالی میں بھی بھارتی قید کا سامنا کیا ان کی زندگی کے آخری بارہ برس گھر پہ نظر بندی ہی میں گزرے ۔ دوران قید وہ اپنے انتہائی قریبی عزیزوں کے جنازون میں بھی شرکت نہ کر سکے ۔ ان کی جوانی بھی بھارتی فرعونیت کوللکارتے گزری ، ان کے بڑھاپے میں بھی ہندوستان ان سے خائف رہا اور یہاں تک کہ ان کی موت نے بھی بھارت پہ لرزا طاری رکھا ۔ ان کی وفات پر کرفیو لگا دیا گیا ۔ پاکستانی پرچم میں لپٹی انکی میت کو بھارتی فوج ان کے ورثاء سے چھین کر لے گئی اور تاریکی میں دفن کر دی گئی ۔ کسی کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی ۔
تم انقلاب کی لہروں کو روکتے ہی رہو
اسی طرح تو یہاں انقلاب ابھریں گے
سید علی ہمدانی کے قائم کردہ کشمیر کے مسلم تشخص کو زندہ رکھنے کے لیے سید علی گیلانی نے اپنی زندگی وقف کر دی اور جرات و عزیمت کا استعارہ بن کر اس دنیا سے کوچ کیا ۔ سید علی گیلانی نے پاکستان کے کسی بھی شہری سے بڑھ کر خود کو پاکستانی ثابت کر دکھایا ۔ انہوں نے پاکستان کا پرچم وادی کشمیر کے ہر مسلم کے دل میں لہرا دیا ۔ سید علی گیلانی کی پاکستان سے محبت اور بے مثال جدوجہد کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں پاکستان کےسب سے بڑےسول اعزاز " نشان پاکستان " سے نوازا۔ سید علی گیلانی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب دیکھا لیکن ان کی آنکھیں اس کی تعبیر دیکھے بغیر ہی بند ہو گئیں ۔ اب یہ اسلامیان کشمیر اور پاکستان کے عوام و خواص کی مجموعی ذمہ داری ہے کہ سید علی شاہ گیلانی کی خواہش کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلوایا جائے اور کشمیر کے مسلم تشخص کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے ۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105170 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More