چین قابل تجدید توانائی کا گلوبل لیڈر

چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے شہر ہامی کا شمار ایسے علاقوں میں کیا جاتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔یہاں کی آب و ہوا مختلف ذرائع سے توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے انتہائی موزوں ہے۔بالخصوص یہاں شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور انہی خوبیوں کو عمدہ طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے ہامی شہر میں ایک وسیع وعریض شمسی توانائی صنعتی پارک قائم کیا گیا ہے۔اس پارک کے دورے کے دوران بتایا گیا کہ یہاں اکیس کمپنیاں فعال ہیں اور نہ صرف ہامی شہر بلکہ چین کے دیگر علاقوں کو بھی قابل تجدید وسائل سے پیدا شدہ بجلی فراہم کی جا رہی ہے ۔پارک کی چاروں جانب آپ کو سولر پینلز کا ایک میدان نظر آئے گا ۔ روایتی سولر پینلز کے ساتھ ساتھ چینی ماہرین کی جانب سے یہاں انتہائی جدید سولر پینلز بھی نصب کیے گئے ہیں جن کی خوبی یہ ہے کہ سورج مکھی کے پھول کی طرح یہ سولر پینلز بھی تیز دھوپ کی جانب خودکار طور پر گھوم سکتے ہیں یا اپنا رخ تبدیل کر لیتے ہیں۔یہ بات قابل زکر ہے کہ ہامی شہر میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی شفاف یا قابل تجدید توانائی پر مشتمل ہے۔چین 2024 تک شمسی توانائی کے حوالے سے اپنے سسٹم میں 370 گیگا واٹ تک اضافہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

شفاف توانائی کے حوالے سے چین کی اعلیٰ قیادت کا وژن بھی قابل ستائش ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں سیشن سے اپنے خطاب میں دنیا پر زور دیا تھا کہ ایک "سبز انقلاب" کی جستجو کی جائے ، ترقی اور زندگی کے لیے سرسبز راہ کا انتخاب کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ چین 2025 تک ہوا سے بجلی کی پیداوار اور شمسی توانائی کو 11 فیصد سے 16.5 فیصد تک بڑھانے کا خواہاں ہے۔ چین کا عزم ہے کہ پیرس موسمیاتی معاہدے کی روشنی میں سال 2030 تک ملک میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 800گیگا واٹس سے1000گیگا واٹس تک بڑھایا جائے جو امریکہ میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے مساوی ہے۔چین نے گھریلو سطح پر کوئلے پر انحصار کم کرنے کے لیے بھی مختلف پالیسیاں متعارف کروائی ہیں۔

اس وقت چین ہائیڈروجن انرجی بنانے کے طریقوں پر کام کر رہا ہے۔اس طریقہ کار کے تحت ہائیڈروجن بنانے کے لیے پانی کو الیکٹرولائز کرنے کی خاطر شمسی توانائی استعمال کی جاتی ہے جو کہ اس وقت توانائی پیدا کرنے والے عناصر مثلاً کوئلے کی جگہ لے لے گی ۔ اگرچہ یہ طریقہ کار کافی مہنگا ہے لیکن چین کی کوشش ہے کہ گرین ترقی کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جائے۔ چین نے حالیہ عرصے میں ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ پیرس معاہدے پر صحیح معنوں میں عمل درآمد اس شعبے میں عالمی تعاون کے لیے اہم ہوگا۔چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2060 تک کاربن نیوٹرل کی منزل حاصل کرے گا۔ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے فعال "کلائمیٹ ایکشن ٹریکر" کے مطابق اگر چین یہ ہدف پورا کر لیتا ہے تو عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کے درجے میں 0.2سے0.3سینٹی گریڈ تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔چین نے نہ صرف سبز ترقی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں بلکہ اپنے تجربات کو دوسرے ممالک کے ساتھ بھی شیئر کیا ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے چین بھر میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی ، فضائی آلودگی کی روک تھام ،حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی انحطاط کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔صنعت سازی کے میدان میں دنیا کے لیے فیکٹری کا درجہ رکھنے والے چین نے ابھی حال ہی میں ملک میں کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ بھی لانچ کی ہے۔چین جیسے بڑے ملک میں اس ماحول دوست پیش رفت کو اہم انوویشن قرار دیا جا رہا ہے جس کے تحت کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی میں مدد ملے گی۔اس کاوش میں چین کے مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں جو کاربن اخراج میں کمی کے لیے بینک کرنسی سے متعلق پالیسی سازی کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ مالیاتی حمایت فراہم کی جا سکے ۔چین کی کوششوں کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے اور گزشتہ برس 2019میں "ناسا" کی سترہ برس تک جاری رہنے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2000سے سال2017تک دنیا بھر میں قائم شدہ نئے گرین علاقوں میں سے ایک چوتھائی چین نے تعمیر کیے ہیں لہذا چین اس اعتبار سے دنیا میں سرفہرست ہے۔چین کی کوشش ہے کہ آئندہ پانچ برسوں کے دوران کم کاربن پر مبنی شہری و دیہی ترقی کو فروغ دیا جائے ، پائیدار ٹرانسپورٹ نظام کے تحت گرین شہر آباد کیے جائیں ،ماحول دوست اسمارٹ عمارتیں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع استعمال کیے جائیں۔اس ضمن میں گرین مصنوعات اور گرین ترقی کے لیے سازگار پالیسیاں ترتیب دی جائیں گی جس میں گرین ٹرانسپورٹ ،گرین کمیونیٹیز وغیرہ اہم اقدامات ہیں ۔ اس جدوجہد میں نئی شفاف توانائی کی گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ، کم کاربن بجلی کی پیداوار ،گرین ڈویلپمنٹ فنڈ کا آغاز ، گرین فنانس کی سہولت ، نقل و حمل ، عمارتوں اور مینوفیکچرنگ جیسے اہم شعبوں میں توانائی کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے اسمارٹ ٹیکنالوجیز کے لئے نئے مواقعوں کی فراہمی سمیت کاروباری اداروں میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق شعور اور آگاہی نمایاں عوامل ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے جدید نظام کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہامی شہر میں ایک پیشہ ورانہ اسکول جانےکا اتفاق بھی ہوا جہاں چینی طلباء کو تکنیکی ہنر مثلاً گاڑیوں کی مرمت ، خطاطی ،موسیقی اور دیگر ہنر سکھائے جا رہے تھے۔ طلباء کو تعلیم سمیت رہائش کی سہولت بھی بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہے ،اس اقدام کا مقصد زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہنر مند افرادی قوت کی مانگ کو پورا کرنا ہے۔یوں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ و تکنیکی تعلیم نوجوانوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے کاروبار یا روزگار کے حصول سے خود کو ملک کا ایک کارآمد شہر بنا سکیں۔چینی قیادت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اُن کے نزدیک عوام سب سے مقدم ہیں ، تعلیم ،صحت ،رہائش اور روزگار سمیت مفاد عامہ پر مبنی دیگر کامیاب پالیسیوں کی بدولت ہی آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک اہم عالمی قوت ہے ۔چین کی گورننس کا یہ ماڈل یقیناً ترقی پزیر ممالک کے لیے قابل تقلید ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1324 Articles with 615292 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More