چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی
(Muhammad Faisal, Karachi)
مطالعہ کا ذوق بھی ایک نشہ کی مانند ہے جو انسان کو دنیا و مافیہا سے بیخبر کردیتا ہے لیکن کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اس کے رنگ میں بھنگ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ |
|
منجملہ دیگر امراض دیرینہ و مخصوصہ کے یہ
علت بھی احقر کے دامنِ گیر ہے کہ مطالعہ کی لت کسی طورنہیں چھوٹتی۔ شوق تو
کتابی چہروں کے خدو خال پڑھنے کا بھی بہت ہے مگر اذن شرعی اس سے مانع ہے اس
لیے ہر علم وفن کی ورق گردانی باعث تسکین دل ہے، مگر جوں جوں عمر کی منزلیں
آ گے کو بڑھتی جاتی ہیں نظر کی کمزوری بھی بڑھتی جارہی ہے اس لیے بسا اوقات
گو ہاتھ میں ساغر نہیں آ نکھوں میں تو دم ہے والی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا
ہے کہ ٹک دیکھ لیا دل شاد کیا مگر ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا جو کہا گیا
ہے غلط نہیں کہا گیا سو دل حزیں پر صدہا صدمات اس ضمن میں گذرتے رہتے ہیں،
ہر نئی کتاب کوہ ندا سے آ نے والی پراسرار آ واز کی طرح اپنی طرف کھینچتی
ہے لیکن ملک عزیز کی ہوشربا مہنگائی ظالم سماج کی مانند سامنے آ دھمکتی ہے،
اب بندہ ضروریات زندگی پر اپنی خون پسینے کی کمائی خرچ کرے یا دل کی دیرینہ
خواہش پر، اس تذبذب کے عالم میں زمینی حقائق دفعتاً اس کی آ نکھیں کھول
دیتے ہیں اور وہ زیر لب تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے گنگناتا ہوا
اور اپنی ناکام حسرتوں پر آ نسو بہاتا ہوا پھر آ ٹے دال کے بھاؤ میں مصروف
ہوجاتا ہے۔ گو اسمارٹ فون کی نیرنگیوں نے زمانے کے صبح و شام بہت کب کچھ
بدل ڈالے ہیں مگر جن کے دل میں کتابوں کا سودا سمایا ہوا ہے وہ ان خرافات
کو خاطر میں نہیں لاتے اور فرصت کے لمحات میسر ہوتے ہی مجھ کو تو تم پسند
ہو اپنی نظر کو کیا کروں کا راگ الاپتے کسی من پسند کتاب کو اپنی آ غوش
محبت میں چھپائے ہمہ تن مطالعہ میں مستغرق ہو جاتے ہیں، اس عالم مدہوشی میں
خاتون خانہ کی حسب عادت کائیں کائیں سے سر پہ ذرا بھی جوں نہیں رینگتی اور
اس سنگین نوعیت کے جرم کا نتیجہ تیسری عالمی جنگ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے
اور فتح ہمیشہ ان غاصب قوتوں کی ہوتی ہے جو چار ازواج کی ممکنہ مشترکہ
ملکیت پر تنہا بلا شرکت غیرے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش مند ہوتی
ہیں،گو کہنے کو مقابلہ دل ناتواں بھی خوب کرتا ہے اور کشمیر کی آزادی تک
جنگ رہے گی جنگ رہے گی کے نعرے بلند کرتامیدان میں ڈٹا رہتا ہے مگر عموماً
دل کے ارماں آ نسووں میں بہہ جاتے ہیں۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ پر بات
کہیں کی کہیں جا نکلی سو آ مدم بر سر مطلب کہ فی زمانہ دیگر اشیاء کی
قیمتوں کی طرح کتابوں کی قیمتیں بھی آ سمانوں کو چھو رہی ہیں، مانا کہ
پیٹرول کے مہنگے ہونے کے بد اثرات ہر شے پر کورونا وائرس کی طرح مرتب ہوتے
ہیں مگر سماجی فاصلے کے اس زمانے میں جہاں ہر کوئی فاصلے سے منہ چھپائے
ملتا ہے اگر کتاب بھی بندہ کے دسترس میں نہ رہے تو پھر جائیں تو جائیں کہاں۔
اس عقدہ کو حل کرنے میں ارباب دانش رہنمائی فرمائیں تو نوازش ہوگی۔
|
|