سنار اور لوہار کی جنگ

ایک سالک نے اپنے پیر کی صحبت میں ایک مدت گزاری – پیر اپنے اس مرید کی تربیت کرتا رہا اور ایک روز اس نے مرید سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے امتحان کے لیے تیار ھے ؟ پیر یہ پرکھنا چاہتا تھا کہ آیاں اس کی صحبت میں مرید نے کچھ سیکھا بھی کہ نہیں . پیر نے مرید کو یہ خوشخبری بھی دی کہ اگر وہ امتحان میں کامیاب ہوا تو اسے انعام میں خلافت ملے گی اور پھر وہ مزید طلبگاران حق کی تربیت کر پائے گا. مرید اس دن کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا لہٰذا اس نے اپنے مرشد کو اپنی مکمل تیاری سے آگاہ کیا .

درویش صفت پیر نے مرید سے پوچھا کہ اسے یہاں سے اپنے گھر جانے میں کتنا وقت لگتا ھے ؟

مرید بولا " تین مہینے "......

پیر بولا کہ اگر اللہ کی مرضی ہوئی اور اس امتحان میں وہ کامیاب ہوتا ھے اور اسے خلافت دے دی جاتی ھے تو کیا وہ یہ سفر طے کرنے کے لیے تیار ھے ؟

مرید بولا " اگر اللہ نے ایسا لکھ دیا ھے تو کیوں نہیں ".

پیر نے پوچھا کہ کیا تمہارے رستے میں خانہ بدوشوں اور بکروالوں کے علاقے آئیں گے اور کیا تم ان کے پاس سے گزرو گے ؟

مرید بولا " میں بالکل ان کے پاس سے گزروں گا ".

"اگر ایسا ھے تو پھر فرض کرو کہ ان بکر والوں کی خیمہ بستی کے پاس سے گزرتے ہوئے تم پر اچانک پانچ چھے بکروالی کتے حملہ کر دیتے ہیں تو تم کیا کرو گے " پیر بولا ! میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا اب تک تم میری تربیت ، قرآن کی تعلیم اور تاریخ کے علم سے کچھ سیکھ پائے ہو یا نہیں ؟ اگر تم درست جواب دے پائے تو مجھے اس بات کا یقین ھے کہ میری تربیت میں سیکھے گئے علم اور میرے بعد میری خلافت اور اللہ کے دیے ہوئے انعامات کے ثمر کا فائدہ ان سب کو ہو گا جن کی تم تربیت کرو گے اور جو تم سے فیض حاصل کریں گے.

مرید نے جواب دیا " میرے آقا و محترم اگر ایسا ہوا کہ مجھ پر خوں خوار کتوں نے حملہ کر دیا تو میں اپنی چھڑی سے انکا مقابلہ کروں گا !

یہ آسان نہیں ! وحشی کتوں کا مقابلہ چھڑی سے کرنا آسان نہیں تم ممکن ھے تین کو مار بھگاؤ مگر باقی تمہیں کاٹ کھائیں گے ، یہ کوئی جواب نہیں پیر بولا!

میں انھیں پتھروں سے مار بھگاؤں گا – مرید نے عرض کی !

یہ بھی ممکن نہیں – پیر نے جواب دیا .

تو پھر میں ھتیار کا استعمال کروں گا ، میں بندوق چلاؤں گا – مرید نے جذبات میں آ کہہ کہا .

پیر مسکرایا اور بولا پھر تو تم کبھی نہیں بچ پاؤ گے کیونکہ بکروالوں کے لیے ان کے کتے ان کے خاندانوں سے بھی اہم ہوتے ہیں. وہ ان کی بکریوں کی رکھوالی کرتے ہیں . بکروال تمہیں مار ڈالیں گے .

اب مرید بری طرح ناکام ہو چکا تھا اسکا کوئی بھی جواب درست نہ تھا . پیر نے بڑی شفقت سے اسے پاس بلوایا اور کہا " میرے بچے اتنے سالوں میں تم نے علم تو حاصل کیا مگر سمجھ کچھ نہ پائے ". اس نے مرید کو وقت دیا کہ وہ جائے اور سوچے کہ اس سوال کا صحیح جواب کیا ہو سکتا ھے .

کچھ روز گزرے اور مرید نے انتہائی بے چینی میں پیر کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے سہی جواب طلب کیا . پیر نے مرید کی الجھن کو دیکھتے ہوئے سمجھایا کہ " میرے بچے ! اگر تم اسطرح کی صورتحال سے دوچار ہو جاؤ تو کبھی بھی جنگلی اور وحشی کتوں سے مقابلہ خود نہ کرنا . ہمیشہ انکے مالکوں سے رابطہ کرو وہ انھیں بھگا دیں گے اور تم اپنا سفر جاری رکھ پاؤ گے . یہ یاد رکھنا کہ ظالم اور خونخوار ہمیشہ مخلوق خدا میں وحشی کتے ہوتے ہیں ان سے لڑا نہیں جاتا اور نہ ہی ان سے مقابلہ کیا جا سکتا ھے . انکی صفیں مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ ان کا مقصد ایک ہوتا ھے. ان ظالموں کا ظلم اگر حد سے بڑھ جائے تو اپنے پروردگار کو مدد کے لیے پکارو وہ مدد کے لیے پہنچے گا مگر جب تم ظلم کا بدلہ ظلم سے دو گے تو نہ صرف تمہارا سفر نامکمل رہے گا بلکہ یہ سفاک تمہیں کھا جائیں گے اور تمہیں اس بات کا علم بھی نہیں ہو گا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ھے ."

" ظالموں کے ظلم اور عزائم سے نبرد آزما ہونے کا ایک ہی طریقہ ھے اور وہ اپنے مالک سے مدد اور ہدایت کی طلب ھے ، کیونکہ اس دنیا میں ایک تنکا بھی اس پروردگار کی مرضی سے نہیں ہل سکتا . ظالم کا ہتھیار ظلم جبکہ مظلوم کا مسیحا اللہ کی ذات ہوتی ھے اور جب بھی ایک مظلوم اپنے مسیحا کی مدد چھوڑ خود ان کے ظلم کو مٹانے نکلتا ھے تو جانے انجانے اس سے بھی کچھ ایسا سرزد ہو جاتا ھے جو ظلم نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہوتا "

پیر کا درس کسقدر سچ تھا . عوامی تحریکوں اور انقلابات کہ جن کو انسانوں نے ظالموں کے خلاف شروع کیا کہیں نہ کہیں اپنے عروج پر خود ظلم کی داستانیں بن گئیں . دنیا کے وہ خطے جہاں اسلام نے اپنے علم بلند کیے اسلیے سلطنت اسلامی کا حصہ نہیں بنیں کہ وہاں مسلمان طاقت میں قوی اور تعدار میں زیادہ تھے بلکہ ان اللہ والوں کا اللہ پہ یقین ہی انکی قوت تھا .

باہر کا ظالم خطرناک نہیں ہوتا مگر اپنے گھر کا ظالم خطرناک اور بہت مشکل سے پہچانا جاتا ھے . آج کا پاکستان کہ جسمیں سینکڑوں پیر خانے ،ہزاروں سیاسی سکول اور خود کو ولی اللہ لکھنے والے سیاست دان موجود ہیں کسی لوہار کے ظلم کی داستان ہیں تو کہیں کسی ساہوکار کی مکاری کی مثال . سنار اور لوہار کی بیان بازی ختم ہوتی ھے تو اہل قلم اور فکر حلقے ان مظلوموں کو سڑک پہ آنے کو کہتے ہیں اور جب آگ لگ جاتی ھے اور عوام زندہ باد ،مردہ باد کے نعرے لگاتے خود ظالم بن جاتے ہیں تو یہ اہل علم بھی ہوائی جہاز کا ٹکٹ لیتے ہیں اور کسی صحت افزا ریاست میں چھٹیاں گزارنے چلے جاتے ہیں .

وہ قوم کہ جسکا اعتقاد رب پہ ہونا چاہیے تھا اب لوہار اور سنار کی جنگ کا ایندھن ھے . اور مزے کی بات یہ ھے کہ لوہار اور سنار نے بھی ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی سمجھا . یہ دنیا فانی ھے اور سب اپنے اصل کی جانب لوٹ رہے ہیں مگر وہ نہیں کہ جنکو یہ یقین ھے کہ یہ دنیا ہی انکا مقصد ھے اور سلطنت انسانی ہی انکی جنت ھے .

آج قرآن سیکھنے اور سکھانے والے کم اور اس کی بے حرمتی کرنے والے زیادہ ہیں . وحشی جابروں کے مقابل مظلوم آج خود وحشی ہو گئے ہیں . یہ وحشت زدہ جسم نوحے اور فریادیں کرتے ہیں ، تراکیب لڑا رہے ہیں مگر اپنے اصل مالک کو آج بھی نہیں پکار رہے. آخری حج کے موقع پر پیغمبر اسلامﷺ نے جو خطبہ پڑھا اسے سننے والوں میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ اس عظیم خطبے میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اصحابؓ کو حکم دیا کہ زمین پر پھیل جاؤ اور ان تک دین پہنچاؤ جن کے دلوں اور گھروں میں کفر کا اندھیرا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ﷺ کے اس حکم کے بعد دو سلسلے چل نکلے۔ ایک فتوحات کا اور دوسرا تبلیغ کا۔ کچھ عرصہ بعد فتوحات کا سلسلہ تو تھم گیا مگر تبلیغ جاری رہی۔وہ تمام اصحاب کرامؓ، تابعین اور طبع تا بعین اور پھر ان کے سلسلوں سے چلنے والے علماء و فقرأ کبھی مقیم نہ تھے۔ ان لوگوں نے علوم ظاھریہ اور باطنیہ کے حصول کیلئے اپنے گھر، وطن اور دیگر امور ترک کئے اورحجاز سے ہند، چین، ایران، بلخ، بخارہ اور نیشاپور تک پہنچے۔ یہ لوگ نہ صرف دین سیکھتے اور سیکھاتے تھے بلکہ رزق حلال کمانے کیلئے ہنر مندی بھی کرتے تھے۔۔۔۔۔۔

اسلام کا اساس اور اسلامی سلطنت کی بنیادیں کبھی کسی شخص کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ رب کا نظام ھے جسمیں رب کے بندے اسکے اصولوں پر کاربند رہیں تو سب اچھا ھے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ھے . دین سے دوری انسان کے اندر سے توکل ختم کر نے کی وجہ ھے اور پھر انجانے خوف کے سائے موت سے بھی بھیانک لگتے ہیں . جب تک سنار اور لوہار یا ساہوکار کا جھگڑا اور عوام کی ان کی جنگ میں شمولیت ھے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا .سالک کے پیر نے سچ ہی کہا تھا " ہم نے تعلیم تو بہت حاصل کی مگر سیکھا کچھ بھی نہیں " یہی ایک نقطہ سمجھنے کی ضرورت ھے اگر آجائے ...

ختم شدہ
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70838 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More