سَفرِ خیر و زَادِ خیر و مَنزلِ خیر !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 64 تا 69 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ماھٰذه
الحیٰوة
الدنیا الّا لھو
و لعب وان الدار
الاٰخرة لھی الحیوان
لوکانوا یعلمون 64 فاذا
رکبوا فی الفلک دعوااللہ
مخلصین له الدین فلما نجٰھم
الی البر اذاھم یشرکون 65 لیکفروا
بما اٰتینٰھم ولیتمتعوا فسوف یعلمون 66
اولم یرواانا جعلنا حرما اٰمنا ویتخطف الناس
من حولھم افبالباطل یؤمنون وبنعمة اللہ یکفرون
67 ومن اظلم ممن افترٰی علی اللہ کذبااوکذب بالحق
لماجاء الیس فی جھنم مثوی للکٰفرین 68 والذین جٰھدوا
فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین 69
اگر انسان جاننا چاہتا ھے تو جان لے کہ دُنیا کی حقیقت اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے کہ یہ انسان کا دُنیا کو عملِ خیر دینے اور دُنیا سے عملِ خیر لینے کا ایک عملی مقابلہ ھے جس میں وہی انسان کامیاب قرار پاتے ہیں جو اِس دُنیا کو عملِ خیر دے کر اور اِس دُنیا سے عملِ خیر لے کر اُس دُنیا میں جاتے ہیں جس دُنیا میں اِن کے عملِ خیر کا اَجرِ خیر دیا جاتا ھے لیکن اِس دُنیا کی عملی صورتِ حال یہ ھے کہ اِس دُنیا کے لوگ جس وقت سمندر میں سفر کر رھے ہوتے ہیں تو اُس وقت وہ صرف اور صرف اللہ کی توجہ طلبی کا عملِ خیر اَنجام دے رھے ہوتے ہیں اور جس وقت سمندر سے نکل کر خُشکی پر آجا تے ہیں تو اُس وقت وہ دوبارہ شرک کے عملِ شَر میں مُبتلا ہو جاتے ہیں تاکہ ھمارے قانُونِ حیات سے انکار بھی جاری رکھیں اور ھمارے وسائلِ حیات سے فائدہ بھی اُٹھاتے رہیں لیکن اِن لوگوں کو جلدی ہی اِن کی زندگی خود بتادے گی کہ خالق کے قانُون سے سرکشی کا اَنجام کیا ہوتا ھے ، کیا یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ ھم نے شہرِ مکہ کو اِن کے لیۓ ایک محفوظ شہر بنا رکھا ھے حالانکہ مضافاتِ مکہ کے اکثر لوگ اکثر ہی اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں سے وہ زَک اُٹھاتے رہتے ہیں جو زَک یہ لوگ نہیں اُٹھاتے ہیں ، آخر یہ لوگ اِس اَمر پر کیوں نہیں غور کرتے کہ جس انسان نے انسان کی موجُودہ زندگی کا اور جس انسان نے انسان کی موعُودہ زندگی کا جو اَحوال بیان کیا ھے وہ اُس انسان نے اللہ کی اُس وحی سے بیان کیا ھے جو وحی اللہ نے اُس پر نازل کی ھے ، پھر بَھلا اُس انسان سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا کہ جو اپنے جُھوٹ کو سَچ ثابت کرنے کے لیۓ اللہ کی ذات سے منسوب کر دے اور اُس انسان سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس سَچ آجاتا ھے تو وہ اُس سَچ کو جُھٹلانے پر تُل جاتا ھے ، جو لوگ حق کے ساتھ اِس کفر کا ارتکاب کرتے ہیں تو اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہوتا ھے لیکن جو لوگ ھماری راہ پر آتے ہیں اور پھر ھماری راہ پر چلنے کی دُھری مُشقت اُٹھاتے ہیں تو ھم اُن کو اُن کے اَجرِ عمل کی راہ ضرور دکھاتے ہیں کیونکہ ھم اپنے بَھلے بندوں کے ساتھ ہمیشہ سے یہی بَھلا سلوک کرتے آۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا آغازِ کلام جن تین باتوں کے ساتھ کیا گیا تھا اُن میں پہلی بات یہ تھی کہ اہلِ زمین پر علم و عمل کی اِس کتاب کے نزول کے بعد اِس کتاب کے علمی تقاضوں کی عملی آزمائش سے گزرے بغیر اہلِ زمین کا یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہو گا کہ ھم اِس کتاب پر ایمان لے آۓ ہیں بلکہ اہلِ زمین کے لیۓ اِس علمی کتاب کی عملی تربیت سے گزرنا بھی لازم ہو گا ، اُن تین باتوں میں سے دُوسری بات یہ تھی کہ علم و عمل کا یہ التزام کُچھ اِسی اُمت کے لیۓ خاص نہیں ھے بلکہ اِس سے پہلے بھی ھم ہر اُمت کو اُس کی کتابِ نازلہ کے اِن ہی علمی تقاضوں اور اِن ہی عملی آزمائشوں سے گزارتے رھے ہیں اور اِن تین باتوں میں سے تیسری بات یہ تھی کہ ھم نے اِس علمی و عملی آزمائشوں سے گزارنے کے بعد جس قوم کے دل میں اپنے رَب سے ملنے کی اُمید دیکھی ھے تو ھم نے اُس قوم کو ہمیشہ ہی اپنی رحمت و مہربانی کی ایک بر وقت نوید بھی دی ھے ، قُرآنِ کریم نے جس طرح اپنی اِس سُورت کا آغازِ کلام تین باتوں سے کیا تھا اسی طرح اُس نے اپنی اِس سُورت کا اَنجامِ کلام بھی تین باتوں پر کیا ھے جن میں سے پہلی بات دُنیا کی حقیقت ، دُوسری بات نبوت کی حقیقت اور تیسری بات اعمالِ نبوت اور اتباعِ اعمالِ نبوت کی حقیقت ھے ، اِن تین باتوں میں دُوسری دو باتیں چونکہ قُرآنِ کریم کے اُس عمومی بیان کا وہ لازمی حصہ ہیں جو بیان اِس سے پہلے بھی قُرآن کے اکثر مقامات پر آتا رہا ھے اور جو بیان اِس کے بعد بھی اکثر مقامات پر آتا رھے گا اِس لیۓ اُن دو باتوں کی توضیحِ مزید کو ھم اُن مزید مقامات پر اُٹھا رکھتے ہیں جو قُرآن کے پہلے مقامات کی طرح بعد کے مقامات پر بھی آتے رہیں گے لیکن جہاں تک دُنیا کی حقیقت کا تعلق ھے تو دُنیا کی جو حقیقت اِس سُورت کی اِس اٰیت 64 کے اِس مقام پر بیان ہوئی ھے وہی حقیقت سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 32 ، سُورَةُالاَحقاف کی اٰیت 20 اور سُورَةُالحدید کی اٰیت 20 کا مُشرکہ مضمون ھے اور اِن چار سُورتوں کی اِن چار اٰیات کے اِس مُشرکہ مضمون میں اللہ تعالٰی نے انسان کو زندگی کا جو دو لفظی پروگرام دیا ھے اُس کا پہلا لفظ کہیں پر " لہو " اور کہیں پر "لعب" ھے جو فعل لعب یلعب سے وہ حاصل مصدر ھے جس کا معنٰی ایک ترقی یافتی کھیل ہوتا ھے جو اہلِ عرب کے اِس معروف محاورہِ کلام "استعلبة النحل" سے اخذ کیا گیا ھے اور یہ محاورہ اہلِ عرب اُس وقت بولتے ہیں جب وہ کسی درخت پر اُس کے معمول کے خلاف پہلا پَھل موجُود ہونے کے باوجُود دُوسرے پَھل کے دُوسرے شگُوفے آتے ہوۓ دیکھتے ہیں اور اُن کے اِس قول کا مقصد اِس اَمر کا اظہار ہوتا ھے کہ پہلے پھل کی موجُودگی میں دُوسرے پھل کے نئے شگُوفے پیدا کرنے والا یہ درخت پھل پیدا کرنے میں ایک ترقی یافتہ حیثیت اور اہمیت کا حامل بن چکا ھے کیونکہ اِس پر پہلا پھل ختم ہونے سے پہلے ہی دُوسرا پھل آنا شروع ہو گیا ھے ، اِس اٰیت کا ایسا ہی دُوسرا لفظ "لہو" فعل "الھٰی یلھی" سے حاصل مصدر ھے اور اِس حاصل مصدر کا معنٰی کسی کا کسی کھیل میں انہماک ، دل چسپی اور دل بستگی کے ساتھ حصہ لینا ہوتا ھے اور دونوں الفاظ کا مقصدی و مُرادی معنٰی وہ کھیل ھے جس کھیل میں اُس کھیل کے ختم ہونے کے رَنج سے پہلے ہی دوبارہ وہ خوشی شروع ہو جاتی جو کھیل میں شامل افراد کو کھیل کے کسی مرحلے میں بھی عدمِ دل چسپی کا شکار نہیں ہونے دیتی ، کھیل چونکہ اپنی اِس حقیقت ، اِس حیثیت اور اِس اہمیت کے اعتبار سے انسانی پسندیدگی اور انسانی دل چسپی کی ایک دل پسند مثال ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے دُنیا کو کھیل اور تفریح کا مُماثل قرار دیا ھے جس کا مقصد دُنیا کو ناپسندیدہ جان کر ترک کرنا نہیں ھے بلکہ پسندیدہ جان کر اِس طرح اختیار کرنا ھے کہ دُنیا میں رہتے ہوۓ کارِ دُنیا کو اِس دل چسپی کے ساتھ اختیار اور استعمال کیا جاۓ کہ دُنیا کو اپنے حصے کی خیر دی جا سکے اور دُنیا سے اپنے حصے کی خیر لی جا سکے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559262 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More