#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت 53 تا
63 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یستعجلونک
بالعذاب و لو لا اجل
مسمی لجاء ھم العذاب و
لیاتینھم بغتة وھم لایشعرون
53 یستعجلونک بالعذاب وان جہنم
لمحیطة بالکٰفرین 54 یوم یغشٰہم العذاب
من فوقھم ومن تحتِ ارجلھم ویقول ذوقوا
ماکنتم تعلمون 55 یٰعبادی الذین اٰمنوا ان ارضی
واسعة فایای فاعبدون 56 کل نفس ذائقة الموت ثم
الینا ترجعون 57 والذین اٰمنوا وعمل الصٰلحٰت لنبوئنھم
من الجنة غرفا تجری من تحتہاالانھٰر خٰلدین فیہا نعم اجر
العٰملین 58 الذین صبروا وعلٰی ربھم یتوکلون 59 وکاین من
دابة اللہ لاتحمل رزقھا اللہ یرزقھا وایاکم وھوالسمیع العلیم
60 ولئن سالتھم من خلق السمٰوٰت والارض وسخرالشمس والقمر
لیقولن اللہ فانٰی یؤفکون 61 اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادهٖ
ویقدرله ان اللہ بکل شئی علیم 62 ولئن سالتھم من نزل من السماء ماء
فاحیابه الارض بعد موتھا لیقولن اللہ قل الحمد للہ بل اکثرھم لایعقلون 63
اے ھمارے رسُول ! مُنکرینِ قُرآن جو اپنے انکارِ قُرآن کی سزا کے لیۓ جلدی
مچاۓ ہوۓ ہیں وہ قُدرت کے اِس قانُون سے بے خبر ہیں کہ قُدرت نے ہر قوم کے
ہر جُرم کی سزا کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ھے ، اگر یہ وقت مقرر کیا ہوا نہ
ہوتا تو مُنکرینِ قُرآن کا یہ مطلوبہ عذاب اِن کی طلب سے پہلے ہی آچکا ہوتا
اِس لیۓ آپ اِن لوگوں پر یہ اَمر واضح کردیں کہ زمین کی جس قوم پر خُدا کا
جو بھی عذاب آتا ھے وہ اپنے مقررہ وقت پر آتا ھے ، جب بھی آتا ھے تو اَچانک
ہی آتا ھے اور اُس مُجرم قوم کی بیخبری میں آتا ھے ، اگر یہ لوگ اپنے
اَحوال و ظروف کا جائزہ لینے کے اہل ہوتے تو اِن کو معلوم ہو جا تا کہ یہ
لوگ تو اپنے اعمالِ حال کی بدولت اپنے لَمحہِ حال میں بھی خُدا کے ایک عذاب
میں گھرے ہوۓ ہیں ، جس دن یہ عذاب اِن کو زمین کی بلندیوں اور پستیوں سے
ظاہر ہو کر اپنی گرفت میں لے گا تو وہ خود ہی کہے گا کہ اَب تُم دل کھول کر
اُس عذاب کا مزہ چَکھ لو جس کے آنے کے لیۓ تُم مرے جا رھے تھے ، اے میرے
بندو ! جب زمین کے کسی خطہ زمین پر تُمہارے لیۓ عرصہِ حیات تنگ ہوجایا کرے
تو تُم اُس خطہِ زمین کو چھوڑ کر کسی دُوسرے خطہِ زمین میں چلے جایا کرو ،
میری زمین تُمہارے لیۓ بہت کشادہ ھے اور یاد رکھو کہ تُم کسی قوم یا زمین
کے غلام نہیں ہو ، صرف میرے غلام ہو اِس لیۓ تُم صرف میری غلامی میں رہو ،
تُم جیتے جی بھی میرے غلام ہو اور مرنے کے بعد بھی تُم نے میرے پاس ہی آنا
ھے ، تُم میں سے جو لوگ مُجھ پر ایمان لائیں گے اور اپنی بہترین صلاحیتوں
کے ساتھ اعمالِ حیات اَنجام دیں گے تو وہ میرے پاس آنے کے بعد اُن حسین و
دلنشین جنتوں کے مکین بن جائیں گے جن کے باغوں میں ایک دائمی آبشار اور ایک
دائمی بہار ہوگی اور اِن جنتوں میں وہ اپنی دائمی اہلیت و صلاحیت کے ساتھ
ایک دائمی زندگی گزاریں گے اور جو لوگ میرے اِن اہلِ ایمان و اہلِ عمل
بندوں کی طرح صبر و توکل کو اپنا شعار بنائیں گے تو وہ لوگ بھی میرے پاس
پُہنچ کر اسی خوش گوار اَنجام کے حق دار ہوجائیں گے ، تُمہاری زمین کے وہ
بہت سے جان دار بھی تُمہارے لیۓ صبر و توکل کی ایک عمدہ مثال ہیں جو اپنا
رزق اُٹھا کر زمین میں مارے مارے نہیں پھرتے بلکہ وہ جہاں پر بھی اپنے خالی
ہاتھ لے کر جاتے ہیں وہاں پر اپنے رزق کے کُھلے ہوۓ خزانے موجُود پاتے ہیں
، تُم سب کا رزق اُسی رزاق کے پاس ھے جو ہرجگہ پر ہر تہی دست جان دار کی ہر
ایک پُکار کو سُنتا ھے اور جو ہر جگہ پر اُس کی ضرورت کے مطابق اُس کو روزی
بھی دیتا رہتا ھے ، اُس کی اُس خالق و رازق ہستی نے اپنی خلّاقی و رزاقی کا
خیال اپنی ہر مخلوق کی فطرت میں بھی ڈال دیا ھے تاکہ اُس کی ہر مخلوق اپنی
فطرت کے مطابق اپنی ہر ضروت کے لیۓ اپنے اُسی فاطر کو یاد رکھے اور اُسی کی
ذات سے اپنی آس و اُمید لگاۓ رکھے ، تُم چاہو تو اہلِ زمین سے پُوچھ کر
دیکھ لو کہ زمین و آسمان کا خالق کون ھے اور شمس و قمر کس کے حُکم سے روشن
ہوتے ہیں تو وہ تمہیں بتائیں گے کہ اِس عالَم کی یہ ساری اَشیاۓ عالَم اللہ
کے قبضے میں ہیں اور اللہ کے حُکم کے تحت ہی حرکت و عمل میں مصروف ہیں ،
اُس کی اِس مخلوق میں سے جو جو مخلوق اور جس جس مخلوق کا جو جو فردِ اپنی
محنت و صلاحیت کے مطابق اُس سے جتنا کشادہ رزق چاہتا ھے وہ اُس سے اتنا ہی
کشادہ رزق پاتا ھے کیونکہ وہ اپنی ہر ایک مخلوق کی ہر ایک خواہش اور خوشی
کو بذاتِ خود جانتا ھے ، تُم چا ہو تو اہلِ زمین سے یہ بات بھی پُوچھ لو کہ
زمین پر آسمان سے بارش کون برساتا ھے اور اُس بارش سے خزاں زدہ زمین کی
رگوں میں زندگی کی بہار کون لاتا ھے تو وہ کہیں گے کہ یہ کام بھی اللہ ہی
کرتا ھے اور اے ھمارے رسُول ! آپ اِن لوگوں کو بتادیں کہ یہ عالَم اُسی
اللہ کے تعارف کے لیۓ وجُود میں لایا گیا ھے اور اِس عالَم کی ہر شئی کے
تعارف کا حق دار وہی اللہ ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات میں قُرآن و صاحبِ قُرآن کے پیغامِ حق کا ذکر کیا گیا تھا اور
اُس کے بعد موجُودہ اٰیات میں پہلے اُن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ھے کہ
جنہوں نے نزولِ قُرآن کے با برکت زمانے میں قُرآن اور صاحبِ قُرآن پر ایمان
لانے کے بجاۓ نہ صرف قُرآن اور صاحبِ قُرآن پر ایمان لانے سے انکار کیا تھا
بلکہ صاحبِ قُرآن کے سامنے اِس بات پر بھی اصرار کیا تھا کہ اگر وہ اللہ
تعالٰی کے سَچے نبی ہیں تو وہ اُن پر اللہ تعالٰی کا وہی عذاب لے آئیں جو
عذاب آپ پر نازل ہونے والی کتاب کے مطابق ہر مُنکرِ حق قوم پر آتا ھے ، اِن
لوگوں کو اِن لوگوں کے اِس مطالبے کا قُرآن کے دُوسرے مُختلف مقامات کی طرح
قُرآن کے اِس مقام پر بھی یہی جواب دیا گیا ھے کہ حق کا انکار کرنے والی
قوموں پر اللہ تعالٰی کا عذاب آتا تو ضرور ھے لیکن اللہ تعالٰی کے نظامِ
جُرم و سزا میں اِس عذاب کے آنے کا جو مقررہ وقت ہوتا ھے وہ عذاب نہ تو اُس
مقررہ وقت سے ایک لَمحہ پہلے آتا ھے اور نہ ہی اُس مقررہ وقت کے ایک لَحظہ
بعد میں لایا جاتا ھے ، اگر حق کی کسی مُنکر قوم پر یہ عذاب حق کا انکار
کرتے ہی آنا ہوتا تو تُم لوگوں پر یہ عذاب تُمہارے مطالبہِ عذاب سے پہلے ہی
آچکا ہوتا کیونکہ تُم نے حق کا انکار پہلے کیا ھے اور وہ مطالبہِ عذاب اُس
کے بعد کیا ھے جس کی مُہلت کی مُدت ابھی شروع ہوئی ھے ختم نہیں ہوئی ھے ،
دُوسری بات یہ ھے کہ تُم اپنے لیۓ عذاب کا یہ مطالبہ ایک بار کرو یا ایک
لاکھ بار کرو اللہ تعالٰی کا عذاب تُم پر اُسی وقت آۓ گا جب اللہ تعالٰی
بذاتِ خود تُم پر وہ عذاب لانا چاھے گا ، تیسری بات یہ ھے کہ اللہ تعالٰی
کا عذاب خوشی کا کوئی ایسا خوش گوار عمل تو نہیں ھے کہ جس کے آنے سے پہلے
اُس کے آنے کا تمہیں کوئی دعوت نامہ دیا جاۓ گا اور اُس کے بعد تُم پر وہ
عذاب نازل کیا جاۓ گا اِس کے برعکس تُم پر جب بھی غم و اندوہ کا وہ عذاب آۓ
گا تو اَچانک ہی آۓ گا اور تُمہاری بے خبری میں آۓ گا اور آخری بات یہ ھے
کہ قُدرت کے نظامِ جُرم و سزا میں بعض ایسے دردناک عذاب بھی موجُود ہیں جو
اہلِ زمین پر بتدریج آتے رہتے ہیں اور جو جب بھی آتے ہیں تو اپنے جلو میں
درد و اَلم کی ایک طویل مُدت لے کر آتے ہیں اور ایک طویل مُدت تک حق کی اُس
مُنکر قوم کو رَولنے اور رُلانے کے لیۓ آتے ہیں ، اگر تُم میں بصیرت ہوتی
تو تُم ضرور دیکھ لیتے کہ اللہ تعالٰی کا وہ تدریجی عذاب تُم کو گھیر چکا
ھے اور جس دن خُدا کا وہ عذاب تُمہارے سر پر آۓ گا تو تُمہارے پیروں تلے سے
زمین کھسک جاۓ گی اور جب وہ خُدائی عذاب تُم کو پیر و سر کی دونوں اَطراف
سے گھیر گھار لے گا تو وہ خود بولے گا کہ اَب تُم دل کھول کر اُس عذاب کا
مزہ چکھ لو جس عذاب کے لیۓ تُم مرے جا رھے تھے تاہَم دھیرے دھیرے آنے والا
یہ وہ عذاب ھے جو حق کی کسی مُنکر قوم پر ہی نہیں آتا بلکہ اُس سرکش قوم پر
بھی آتا ھے جو علمی طور پر تو حق کو حق تسلیم کرتی ھے لیکن عملی طور پر حق
کے اَمرِ حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اِس تدریجی عذاب کا دائرہ اور دور
چونکہ بہت وسیع ھے اِس لیۓ اہلِ حق کو بتایا گیا ھے کہ اگر زمین کے کسی
خطہِ زمین پر کسی وقت تُمہارا جینا اور رہنا مُشکل بن جاۓ تو تُم کسی
دُوسرے خطہِ زمین میں چلے جایا کرو کیونکہ تُم اپنے دین و ایمان کی رُو سے
کسی مُلک یا کسی قوم کے غلام نہیں ہو بلکہ صرف اُس اللہ کے غلام ہو جس کی
زمین بہت وسیع ھے اور تُم جس جگہ پر بھی جاؤ گے وہاں پر اللہ تعالٰی کے
پیدا کیۓ ہوۓ وسائلِ حیات موجُود پاؤگے اور یہ وہی بات ھے جو اِس سے قبل
سُورَةُالنساء کی اٰیت 97 میں بھی اِس مضمون کے ساتھ گزر چکی ھے کہ جو لوگ
زمین میں اپنی ذات کے ساتھ آپ ہی ناانصافی کا ارتکاب کرتے ہیں تو جس وقت
اُن پر موت وارد ہو رہی ہوتی ھے تو فرشتے اُن سے سوال کرتے ہیں کہ تُم
دُنیا میں خوش حال رھے ہو یا بدحال رھے ہو اور جب اپنے ساتھ آپ ہی ظلم کرنے
والے وہ لوگ اُس وقت اپنی بدحالی کا شکوہ کرتے ہیں تو فرشتے اُن سے کہتے
ہیں کہ اللہ کی زمین تو بہت وسیع ھے ، تُم اُس بدحال جگہ کو چھوڑ کر کسی
حوش حال مقام پر کیوں نہیں چلے گۓ اور مزید براں یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ
تُم نے اپنے گزرے ہوۓ زمانے میں اپنی زندگی کو ایک معاشی جہنم کا عادی
بناکر رکھا ھے اِس لیۓ تُمہارے آنے والا زمانے میں بھی تُمہارے لیۓ ایک
معاشی جہنم تیار ہو چکا ھے ، عُلماۓ تفسیر نے اگرچہ اِن اٰیات سے مسلمانوں
کی مکے سے مدینے کی طرف کی جانے والی ہجرت ہی مُراد لی ھے لیکن اِس موضوع
کی جُملہ اٰیات میں وہ وسعت موجُود ھے جو ہر ستم رسیدہ انسان کو اُس کے
عملِ جلا وطنی کے اندھیرے میں ایک نئی صُبح کے نیۓ سویرے کی آس اور اُمید
دلاتی ھے ، ایک اور وسیع المفہوم بات جو اِن اٰیات میں واضح کی گئی ھے وہ
یہ ھے کہ انسان کی روزی قُدرت نے اُس کے جسم و جان کی عملی مُشقت کے ساتھ
مُنسلک کی ہوئی ھے اِس لیۓ جو لوگ اپنے آنے والے کَل کے لیۓ اپنے آج کو
محنت سے وابستہ کرلیتے ہیں تو اُن کے آنے والا ہر کَل اُن کے جانے والے ہر
کَل سے بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتا ھے اور اُن کا آنے والا یہی کَل وسیع تر
ہو کر اُن کی دُنیا کی زندگی کے بعد اُن کی آخرت کی زندگی تک پھیل جاتا ھے
بشرطیکہ اُن کی دُنیا کی زندگی اُن کے ایمان و عمل کی زندگی ہو ، بے ایمانی
اور بے عملی کی زندگی نہ ہو !!
|