اَخبارِ غیب و اَخبارِ عیب !! { 1 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالرُوم ، اٰیت 1 تا 7 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓمٓ 1
غلبت الروم 2
فی ادنی الارض و
ھم بعد غلبھم سیغلبون 3
فی بضع سنین للہ الامر من قبل
و من بعد ویومئذ یفرح المؤمنین 4
بنصر اللہ ینصر من یشاء وھوالعزیزالرحیم 5
وعداللہ لایخلف اللہ وعده ولٰکن اکثرالناس لایعلمون 6
یعلمون ظاھرا من الحیٰوة الدنیا وھم عن الاٰخرة ھم غٰفلون 7
عالَمِ غیب سے عالَمِ شہود میں ظاہر ہونے نازل ہونے والا یہ کلامِ غیب اللہ نے محمد علیہ السلام کے لیۓ جمع کیا ھے اور اِس کلامِ غیب کے مطابق قریب کی ایک زمین پر قریب کے ایک زمانے میں رُوم کا جو لَشکر ایران کے ہاتھوں سے مغلوب ہوا ھے وہ قریب زمانے کے چند برسوں بعد ہی ایران پر دوبارہ غلبہ حاصل کر لے گا جس سے مکے مسلمانوں کو دُھری خوشی حاصل ہو گی کیونکہ اِس عالَم کا اقتدار اِس سے پہلے بھی صرف اللہ کے پاس رہا ھے اور اِس کے بعد بھی صرف اللہ کے پاس رھے گا اور اللہ اپنے اِس عالَم میں اپنے وعدہِ مدد کے مطابق جس کو جس پر چاہتا ھے غالب کردیتا ھے اور جس کو جس کے ہاتھوں سے چاہتا ھے مغلوب کرادیتا ھے لیکن زمین کے اکثر غفلت گزیدہ اہلِ زمین صرف گزرنے والے زمانے کے اَحوال کو دیکھتے ہیں آنے والے زمانے کے اَحوال سے لاعلم ہوتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالرُوم اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے قُرآنِ کریم کی وہ پہلی سُورت ھے جو نبوت کے پانچویں سال 615 ء میں اُس وقت نازل ہوئی تھی اور اِس کی پہلی سات اٰیات شہرِ مکہ میں اُس وقت سُنائی گئی تھیں جب اُس زمانے کی ایک بڑی آتش پرست طاقت فارس اور اُس زمانے کی ایک دُوسری بڑی طاقت رُوم کے درمیان ایک بڑی جنگ برپا ہو چکی تھی اور اُس جنگ میں فارس کی وہ مجوسی طاقت رُوم کی اُس مسیحی طاقت کو ایک بدترین شکست دے چکی تھی ، فارس و رُوم کی یہ جنگ بعثت نبوی سے سات برس پہلے اُس وقت شروع ہوئی تھی جب فارس کوفہ و یمن اور عمان و بحرین پر قابض ہونے کے بعد عرب کے دُوسرے علاقوں پر بھی قبضے کے خواب دیکھ رہا تھا اِس لیۓ جب اُس نے 615 ء میں عرب کے سے متصل رُومی مقبوضات اُردن و شام اور فلسطین وغیرہ پر بھی قبضہ کر لیا تو فارس کے کسرٰی نے رُوم کے قیصر کو جو خط تحریر کیا تھا اُس کا آغازِ سخن یہ تھا کہ { سب خداؤں سے بڑے خُدا ، تمام رُوے زمین کے مالک خسرو پرویز کی طرف سے اُس کمینے اور بے شعور بندے کے نام جو کہتا ھے کہ مُجھے اپنے رَب پر بھروسہ ھے ، کیوں نہ تیرے رَب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچالیا } خسرو پرویز نے قیصیر کے نام لکھے گۓ اِس خط میں تمام رُوۓ زمین کا مالک ہونے کا جو دعوٰی کیا تھا اُس دعوے کے بین السطور میں عربوں کے لیۓ بھی اُس کا یہ ملفوف پیغام موجُود تھا کہ رُوم کے بعد جلد ہی اُن کی باری بھی آنے والی ھے لیکن فارس کے اِس مجوسی بادشاہ کے اِس خط کی شاید روشنائی بھی ابھی خُشک نہیں ہو پائی تھی کہ 615 ء میں جو سُورَہِ رُوم نازل ہوئی تو یہ دو اَخبارِ غیب لے کر نازل ہوئی کہ رُوم پر فارسی مجوسیوں کا قبضہ عارضی ھے ، کُچھ برس بعد ہی رُوم فارس پر دوبارہ غالب آجاۓ گا اور فارس رُوم کے سامنے پہلے کی طرح سرنگوں ہو جاۓ گا ، یہ وہی زمانہ تھا جب مکے کے مُشرکوں نے مکے کے مُسلمانوں پر عرصہِ حیات تنگ کیا ہوا تھا اور مکے سے بہت سے مُسلمان ہجرت کر کے حبشہ کی طرف جا چکے تھے ، صاحبِ تفہیم القرآن کی تحقیق و تحریر کے مطابق { ابن عباس اور دُوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ھے کہ روم و ایران کی اِس لڑائی میں مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفارِ مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں ، اِس کے کئی وجوہ تھے ، ایک یہ کہ ایرانیوں نے اِس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کر کے اسے مجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رھے تھے ، بیت المقدس کی فتح کے بعد خسروپرویز نے جو خط قیصرِ روم کو لکھا تھا اس میں صاف طور پر وہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتا ھے ، اصولی اعتبار سے مجوسیوں کا مذہب مشرکینِ مکہ کے مذہب سے ملتا جلتا تھا ، کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے ، دو خداؤں کو مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے اِس لیۓ مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں ، ان کے مقابلے میں مسیحی خواہ کتنے ہی مُبتلاۓ شرک ہو گۓ ہوں مگر وہ خدا کی توحید کو اصل دین مانتے تھے ، آخرت کے قائل تھے اور وحی و رسالت کو سرچشمہِ ہدایت تسلیم کرتے تھے ، اِس بنا پر ان کا دین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانو کے دین کے ساتھ مشابہت رکھتا تھا اور اسی لیۓ مسلمان قدرتی طور پر ان سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر مشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا ، دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اصولا مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اِس کا انکار نہ کر دیں ان کا شمار مسلمانوں ہی میں رہتا ھے } ڈاکٹر حمیداللہ متوفی 2002 ء نے اپنی کتاب "رسولِ اکرم کی سیاسی زندگی" میں بعض تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ھے کہ رسولِ اکرم جس روز حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ کے ساتھ اپنے سیاسی معاھدے کے ذریعے اپنی فتحِ مبین کا ایک نیا باب رقم کر رھے تھے ٹھیک اسی روز اسی مقام پر آپ کو ایران کی شکست اور رُوم کی فتح کی یہ خبر ملی تھی اور صلح حدیبیہ کے معاً بعد سُورَہِ فتح کا نزول ہوا تھا ، سُورَہِ فتح کا یہ نزول بذاتِ خود ایک پیش گوئی ھے جو سُورَہِ رُوم کی پہلی غیب گوئی کے بعد دُوسری سب سے بڑی غیب گوئی ھے لیکن مُسلم اربابِ بصیرت کو تو اِس پیش گوئی یا غیب گوئی کے پس منظر میں فتح مکہ کی جھلک ہی نظر آئی تھی جب کہ ایرانی بزرجمہروں کو فتحِ مبین کی اِس پیش گوئی میں پیروانِ مسیح علیہ السلام کے ہاتھوں سے فتحِ رُوم کی اور پیروانِ محمد علیہ السلام کے ہاتھو سے فتحِ ایران کی جھلک بھی نظر آگئی تھی ھے ، اِس لیۓ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ھے کہ سُورَہِ رُوم و سُورَہِ فتح کی صورت میں نازل ہونے والی یہی وہ دو اَخبارِ غیب ہیں جن کے بعد ایرانی مجوسیوں نے اپنے ایک دُور رس منصوبے کے تحت نبوت کے اُسی پانچویں سال سے قُرآن کے خلاف اپنی اُن اَخبارِ عیب کے بنانے ، سنانے اور پھیلانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جن کے بارے میں اَصحابِ محمد علیہ السلام نہیں جانتے تھے کہ حدیثِ رسُول کے نام پر یہ اَخبارِ عیب کہاں سے آرہی ہیں جو ھم نے سیدنا محمد علیہ السلام کے کسی صحابی سے کبھی نہیں سنی ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557922 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More