گو کہ فلسفہ اور مذہب دو مختلف چیزیں ہیں مگر کچھ لوگ ان
دونوں کو گڈ مڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو غلط ہے۔ ایسا کوئی بھی فلاسفر
نہیں ہے جو مزہب کی پیروی کرتے ہوئے یہ کہے کہ یہ مجھے کسی غیر مرئی طاقت
یا پھر غیبی طاقت کی طرف سے نازل ہوا ہیجو میں تم تک پہنچا رہا ہوں اور
تمہارے لئے اسکا ماننا بہت ضروری ہے۔ ہیگل، کانت، رسل جب بھی فلسلفے پر
گفتگو کرتے ہیں تو وہ کسی غائبی یا پھر غیر مرئی طاقت کو درمیان میں نہیں
لاتے۔ فلاسفر کسی بھی مزہب کے ملاؤں کی طرح نہیں ہوتے(جب ہم ملا کا لفظ
استعمال کرتے ہیں تو یہ سارے مذاہب کیلئے ہوا کرتا ہے) جو بغیر بحث ومباحثے
یا پھر عقلی دلائل دئے بغر اپنے فلسفلے کو دوسروں پر ذبردستی لادتے پھریں۔
مزہب اپنے ماننے والوں کو انکی تقدیس پر زور دیتا ہے جبکہ فسلفے میں ایسی
کوئی بات نہیں سقراط، ابن رشد، ڈیوڈہیوم یہ کہتے ہیں کہ فلسفے کی ان کتابوں
کو پڑھنے کیلئے پاک صاف ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے فلسفے کو عقلی
دلائل اور بحث و مباحثے کے نتیجے پر منتج کرتے ہیں۔ فلسفے کی کتابوں میں
آسمانی کتابوں کی طرح معجزات کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ یہ تو سائینسی بنیادوں
پر ہوتا ہے جو عقل، دلائل اور بحث و مباحث کی خصوصیت سے معمور ہوتے ہیں۔
تمام مذاہب میں معجزات اہتنائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بغیر عقلی
دلائل کے ایمان لانا بہت ضروری ہوتا ہے جبکہ فلسفہ سائینس کی روشنی میں عقل
کو ترجیح دیتا ہے اور تنقیدی بحث و مباحثے کو جلا بخشتا ہے۔ جبکہ مذہب
معجزات پر یقین رکھنے کا زور دیتا ہے جس میں سوالات، بحث و مباحثے کی کوئی
گنجائش نہیں ہوتی یہ عقل سے ماورا ہوتے ہیں۔ فلسفے اور مذاہب کی اخلاقیات
ایک جیسی ہوتی ہیں، جیسے جھوٹ، سچ، برائی، اچھائی، چوری، دکیٹی، زناہ، حقوق
زنی، ایکدوسرے کی مدد کرنا، انسانوں کیساتھ اچھا سلوک کرنا، کمزور، غریب،
ناتواں، وغیرہ وغیرہ نہ ہی کوئی فلسفی یا پھر نہ یہ کوئی مذہب ان سے اختلاف
رکھتا ہے مذاہب اور فلسفہ کبھی بھی کسی برائی کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی
انکی اجازت دیتے ہیںَ۔ فلسلفے کے طالبعلم کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ مذاہب
میں پائے جاے والے رسم و رواج اور تہواروں کو منائے یہ سب کی اپنی اپنی
مرضی ہے۔ فلسفہ کسی غیر مرئی طاقت یا غیبی طاقت کی طرف سے نازل نہیں ہوتا
جو دعوے کئے جاتے ہیں انکی بنیاد سائینسی اورعقلی دلائال پر منتج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آگ کبھی پھولوں کی سیج نہیں بنا کرتی اسکا کام جلانا ہے،
گرم کھولتے ہوئے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جایا کرتا ہے، اگر ہم کسی
کے سر پر ہٹھوڑا مارینگے تو وہ پھٹ جائیگا اور خون بہنا شروع ہو جائیگا۔
فلسفے اور سائینس میں چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، مثال کے طور پر ایک زمانہ
تھا جب بہن بھائیوں میں شادیاں ہوا کرتی تھیں، ایک عورت کے کئی کء شوہر ہوا
کرتیتھے۔ انسان اپنے ہی جیسے انسان کو کھا یا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ بہت سی
اخلاقیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ایک دور میں سائینس کہتی تھی کہ مادے کو دو
حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا مگر اب تھیوری تبدیل ہو چکی ہے اور مادے
کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
|