#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالرُوم ، اٰیت 33 تا 36
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذامس
الناس ضر
دعوربھم منیبین
الیه ثم اذآ اذاقھم منه
رحمة اذافریق منھم یشرکون
33 لیکفروابمااٰتینٰھم فتمتعوا فسوف
تعلمون 34 ام انزلنا علیھم سلطٰنا فھو یتکلم
بماکانوابه یشرکون 35 واذآ اذقناالناس رحمة فرحوا
بھا وان تصبہم سیئة بماقدمت ایدیہم اذاھم یقنطون 36
اے ھمارے رسُول ! انسانی حیات کا اَحوال یہ ھے کہ انسانی زندگی کو جب کوئی
رَنج و غم چُھو کر گزرتا ھے تو انسان فورا ہی خُدا سے عاجزی کے ساتھ اُس
رَنج و غم سے نجات کی پانے کی التجا کرتا ھے لیکن جب ھم اُس کو اِس رَنج کے
بعد راحت کی مٹھاس چکھاتے ہیں تو اُس کا ایک رحمت فراموش گروہ ھمارے مقابلے
میں ھمارے شریک کھڑے کر کے ھمارے ساتھ کفر و شرک شروع کر دیتا ھے تاکہ وہ
ھمارے عطا کردہ وسائل حیات سے بھی فائدہ اُٹھاتا رھے اور ھمارے خلاف بغاوت
کا علَم بھی اُٹھاۓ رکھے لیکن وہ باغی انسانی گروہ یہ نہیں جانتا کہ جلد ہی
اُس کے اِس باغیانہ عمل کا وہ رَدِ عمل بھی ظاہر ہونے والا ھے جو اُس کو
دوبارہ اسی طرح پچھاڑ دے گا جس طرح اِس سے پہلے اُس کے پہلے عمل کے رَدِ
عمل نے اُس کو پچھاڑ دیا تھا ، آپ ھماری اِس باغی جماعت سے یہ تو پُوچھیں
کہ کیا ھم نے اُس پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہوئی ھے کہ وہ ھماری ہر راحت
کے بعد دوبارہ اپنے اُسی مُشرکانہ عمل کا اعادہ کرتی ھے اور دوبارہ اُسی
رَنج میں مُبتلا ہو کر ھمارے سامنے وہی آہ و زاری کرتی ھے جو ہر مُشکل گھڑی
میں وہ کرتی رہتی ھے جب کہ اَمرِ واقعہ تو یہ ھے کہ ھم جب بھی اُس ناشکری
جماعت کو دوبارہ راحت آشنا کرتے ہیں وہ اُس راحت سے خوش تو ہوجاتی ھے لیکن
اِس اثنا میں اگر اُس کی کسی نئی حماقت کے باعث اُس پر کوئی نئی اُفتاد آتی
ھے تو وہ بالکُل ہی مایُوس ہو کر بیٹھ جاتی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسانی زندگی میں راحت و رَنج خزاں کے خار دار اور بہار کے گُل بہار موسموں
کی طرح آتے رہتے ہیں ، اِن میں جو فرق ہوتا ھے وہ صرف یہ ہوتا ھے کہ جہان
پر آنے والے بہار و خزاں کے موسم خالقِ جہان کے ایک فطری نظام کے تحت آتے
ہیں اور انسان پر آنے والے راحت و جراحت کے موسم انسان کی اُس عملی خوش
انتظامی یا اُس عملی بَد انتظامی سے آتے ہیں جس کا تعلق انسان کی اُن ذاتی
و نفسیاتی اور معاشرتی و معاشیاتی ترجیحات و عدمِ ترجیحات کے ساتھ جُڑا ہوا
ہوتا ھے جن نفسیاتی و معاشیاتی ترجیحات کے حصول و عدمِ حصول سے اُس کی
زندگی میں وہ اُلجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کو علمِ نفسیات کا ایک بڑا عالم
سکمنڈ فرائڈ بُنیادی یا صدری اُلجھاؤ Nuclear Complexes کا نام دیتا ھے اور
پھر وہ بہت سی واقعاتی تمثیل و اَمثال سے انسان کی اِس اُلجھی نفسیات کا وہ
نفسیاتی حل بھی پیش کرتا ھے جس کا معروف نام تحلیل نفسی ھے لیکن تحلیل نفسی
کا وہ مجوزہ نفسیاتی علاج جب عملی آزمائش میں لایا جاتا ھے تو چند اتفاقات
کے سوا بیشتر مواقع پر وہ بھی تحلیل ہو کر رہ جاتا ھے ، قُرآنِ کریم نے
اٰیاتِ بالا میں جس معاملے کو انسان کے اِن سارے مسائل کی بُنیاد قرار دیا
ھے وہ انسان کا زمین پر محنت کے بغیر جینا اور محنت کے بغیر کھانا اور پینا
ھے جو مُحوّلہ بالا اٰیات کی دُوسری اٰیت { لیکفروابمااٰتینٰھم فتمتعوا
فسوف تعلمون } میں بیان ہوا ھے اور جس کا ماحصل یہ ھے کہ انسان اللہ تعالٰی
کے عطا کیۓ ہوۓ وسائلِ حیات سے فائدہ اُٹھانے کے لیۓ تو ہر وقت تیار رہتا
ھے لیکن وہ اِن وسائلِ حیات کے وہ عملی تقاضے پورے کرنے کے لیۓ تیار نہیں
ہوتا ھے جن عملی تقاضوں کو پورا کیۓ بغیر زندگی میں زندگی کا کوئی سا کام
کرنا بھی مُمکن نہیں ہوتا ، اِس سُورت کی اِس اٰیت کا یہی مضمون اِس سے قبل
سُورَةُالنحل کی اٰیت 55 اور سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 66 میں بھی گزر چکا
ھے اور قُرآنِ کریم نے اِس مضمون کے اِس نتیجہِ کلام کا { سوف تعلمون } کی
صورت میں قُرآنِ کریم کے 42 مقامات پر جو ذکر کیا ھے اور اُس ذکر میں انسان
کے اِس عمل کا قریب سے قریب تر زمانے میں رَدِ عمل ظاہر ہونے کا جو اعلان
کیا ھے اُس سے بھی انسانی عمل کا وہ حتمی نتیجہ مُراد نہیں ھے جو قیامت کے
روز ظاہر ہونا ھے بلکہ اِس سے بھی انسانی عمل کا وہ نتیجہ مُراد ھے جو
انسان کے ہر اُس عمل کا رَدِ عمل ہوتا ھے جو عمل جو انسان جس وقت کرتا ھے
اور اِس مقام پر بھی اِس سے یہی مُراد ھے کہ جو انسانی جماعت محنت کے بغیر
ناجائز طور پر دُوسرے انسانوں کے جن وسائل حیات پر قبضہ کرتی ھے تو اُس کے
اِس ناجائز قبضے کا جلد ہی نتیجہ ظاہر ہو جاتا ھے اور جلد ہی وہ انسانی
جماعت اپنے بُرے عمل کے بُرے اَنجام کو بھی پُہنچ جاتی ھے ، اٰیت ھٰذا میں
جن وسائلِ حیات کو اللہ تعالٰی کی طرف منسوب کیا گیا ھے وہ ایک انسان کے
دُوسرے انسان سے ہتھاۓ ہوۓ وہی وسائلِ حیات ہی جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی
ملکیت ہیں اور جو انسان اِن وسائلِ حیات کو دُوسرے انسانوں سے زور زبردستی
کے ساتھ چھیننے کا ارتکاب کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالٰی کے ساتھ براہِ
راست ایک جنگی جُرم کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے اِن وسائلِ
حیات کا حصول انسان کی محنت کے ساتھ مُنسلک کیا ھے چھینا جھپٹی کے ساتھ
مُنسلک نہیں کیا ھے لیکن انسان کی سہل پسندی اور آرامی طلبی انسان کو اِس
اَمر کی ترغیب دیتی رہتی ھے کہ وہ کُچھ کیۓ بغیر ہی قُدرت کے اِن تمام
قُدرتی وسائل پر قبضہ کرکے بلا شرکتِ غیرے اِن کا مالک و مُختار بن جاۓ اور
یہی وہ خرابی ھے جو پہلے انسان کو وہ حرام مال کھانے کا خُوگر بناتی ھے اور
پھر وہ حرام مال کھانے کے لیۓ اُس شارٹ کٹ Short cut کو حاصل کرنے کی ترغیب
دیتی ھے جو شارٹ کٹ انسان کو اُن غیر اللہ کے آستانوں پر لے جاکر اُس شرک
کا مُرتکب بناتا ھے جس شرک کا اٰیاتِ بالا کی پہلی اور تیسری اٰیت میں ذکر
کیا گیا ھے ، اٰیاتِ بالا سے جو دُوسری بات مُتبادر ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ
اللہ تعالٰی انسان کی اِس نافرمانی کے بعد اور باوجُود بھی انسان پر اپنی
اُس رحمت و مہربانی کو جاری رکھتا ھے جو انسان کو زندہ رکھتی ھے لیکن جب
انسان کی کسی اَچانک غلطی کے باعث انسان پر کوئی اَچانک اُفتاد آتی ھے تو
وہ اللہ تعالٰی کی رحمت و مہربانی کی آس سے بے آس ہو کر زمین سے لگ جاتا ھے
حالانکہ اللہ تعالٰی کی آس اُس سے بار بار گرنے کے بعد بار بار اُٹھنے اور
بار بار آگے بڑھنے کا مطالبہ کرتی رہتی ھے اور زندگی میں کامیاب و کامران
بھی صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو بار بار گرنے کے بعد بار بار اُٹھتے ہیں اور
ہر بار ایک نۓ عزم کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی منزلِ مطلوب
اُن کی طلب کے مطابق اُن کو مل جاتی ھے !!
|