قُرآن اور اَقوامِ مُسلم و مُشرک اور مُنافق !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالرُوم ، اٰیت 30 تا 32 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فاقم
وجھک للدین
حنیفا فطرت اللہ
التی فطرالناس علیھا
لاتبدیل لخلق اللہ ذٰلک الدین
القیم ولٰکن اکثرالناس لایعلمون 30
منیبین الیه واتقواولا تکونوامن الشرکین 31
من الذین فرقوادینھم وکانواشیعا کل حزب بمالدیھم
فرحون 32
اے ھمارے رسُول ! آپ اپنی تمام جسمانی و رُوحانی قُوت کے ساتھ قُرآن کے پیش کیۓ ہوۓ اُس دینِ فطرت کی تعلیم و تربیت میں مُنہمک ہو جائیں جس کے بارے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ھم نے اِس کی تدوین انسانی تخلیق کے مطابق کی ھے اور ھمارا یہی دینِ فطرت ھے جس کا فطری نظام انسانی حیات میں ایمان و استحکام پیدا کرتا ھے اور ھمارا یہی نظام ھے جو جہان اور اہلِ جہان کی رُوح و جان کو درکار ھے اور ھمارا یہی وہ مُستحکم و مُتوازن نظام ھے جس کے فطری و فکری ضابطوں میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ھے اِس لیۓ آپ اپنے شہر کے اُن مُشرکین کی مُشرکانہ سازشوں کو خاطر میں نہ لائیں جو شرک کے شر میں ڈُوبے ہوۓ ہیں اور اہلِ کتاب کے اُن اَحبار و رُہبان کی بھی ہرگز پروا نہ کریں جنہوں نے اپنے ٹُکڑوں کے لیۓ اللہ کے دین کو بھی ٹُکڑے ٹُکڑے کیا ہوا ھے اور خود کو بھی ٹُکڑوں میں تقسیم کرکے جی جان سے اپنے اپنے خیالی دین کے ساتھ چمٹے ہوۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیات بالا کی پہلی اٰیت میں وارد ہونے والا جو چوتھا لفظ "حنیفا" وارد ہوا ھے اُس کا حرفِ اختصار حنیف بروزنِ فعیل ھے جو اپنی ذات میں ایک ایسی صفتِ مُشبہ ھے جو اپنے موصوف کے ساتھ مُشابہ ہوتی ھے اور جس کا موصوف بھی اپنی اُس صفت کے ساتھ اتنا ہی مُشابہ ہوتا ھے جتنی وہ صفت اپنے اُس موصوف کے ساتھ مُشابہ ہوتی ھے ، اُس صفتِ مُشبہ کا مصدری مادہ "ح ن ف" ھے جو اپنی صرفی تصریف کے دوران باب "ضرب یضرب" سے آۓ تو اُس کا معنٰی پاؤں کو ٹیڑھا کرنا ہوتا ھے اور اگر یہ صفتِ مُشبہ اپنی صرفی تصریف کے درمیان باب "سمع یسمع" سے آجاۓ تو اُس کا معنٰی کسی جان دار کا ٹیڑھے پیروں والا ہونا ہوتا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ اِس صفت کا اپنے ایک ٹیڑھے میڑھے موصوف پر ہی اطلاق نہیں ہوتا بلکہ ہر آڑھی ترچھی چیز پر اطلاق ہوتا ھے اور قُرآنِ کریم نے بھی اِس اصطلاح کو سُورَةُلبقرة کی اٰیت 135 ، سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 67 و 95 ، سُورَةُالنساء کی اٰیت 125 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 79 و 161 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 105 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 120 و 123 اور سُورَةُالرُوم کی اٰیت 30 میں انسان کی علمی و عملی ، عقلی و فکری ، قلبی و نظری اور ذہنی و نفسانی کَج روی کے وسیع معنوں میں استعمال کیا ھے اور اِس مقام پر شاید یہ جاننا بھی خالی اَز دل چسپی نہیں ہو گا کہ کسی ٹیڑھی چیز کو جب اُس کے ٹیڑھے پَن کی مخالف سمت سے دباؤ ڈال کر سیدھا کرنے کی کوشش کی جاتی ھے تو وہ بالکل سیدھی ہو جاتی ھے لیکن اُس چیز کے اُس ٹیڑھے پَن کو اُس کی مُخالف سے دباؤ ڈال کر سیدھا کرنے کی جو کوشش کی جاتی ھے وہ کوشش بذات خود بھی ایسا ہی ایک مُثبت ٹیڑھا پن ہوتی ھے جو علاج بالمثل کے اصول پر اُس چیز کے مَنفی ٹیڑھے پن کو سیدھا کر دیتی ھے اور ابراھیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے فکری و نظری اور ذہنی و قلبی ٹیڑھے پن کو اپنی بُت شکنی کے اسی مُخالف و مُثبت دباؤ سے سیدھا کیا تھا اور اُن کے اسی طریقہِ علاج کی بنا پر اللہ تعالٰی نے اُن کو حنیف کا لقب دیا تھا اور اسی علاج کی بنا پر اُن کے دین کو ایک سیدھا دین قرار دیا تھا ، ابراھیم علیہ السلام کا یہ سیدھا دین سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے تک آیا تو مَکّے میں سیدنا محمد علیہ السلام کے سامنے آپ کی مُخاطب ایک ہی مُشرک قوم تھی لیکن جس وقت آپ مَکے سے ہجرت کرکے مدینے پُہنچے تو مدینے میں آپ کے سامنے ایک طرف تو مَکّے کے خالص مُشرکوں کی طرح کی ایک خالص منافق قوم تھی جس قوم میں کوئی غیر منافق فرقہ نہیں تھا اور دُوسری طرف اہلِ کتاب کے وہ کتابی فرقہ بند اہلِ کتاب تھے جو بظاہر تو مُوسٰی علیہ السلام سے منسوب کی گئی کتاب تورات پر ایمان رکھتے تھے مگر اُن میں سے ہر فرقے کے پاس اپنے اپنے کسی امام ، اپنے اپنے کسی فقیہ اور اپنے اپنے کسی محدث کی وہ روایات حدیث تھیں جن کو اہلِ کتاب کے اُن اَئمہ و محدثین نے اپنی اپنی دینی دوکان داری چلانے کے لیۓ وضع کر کے اُس قوم میں رائج کیا ہوا تھا اور وہ فرقہ بند قوم کتابِ مُوسٰی کے اَحکام پر عمل کرنے کے بجاۓ اپنے اُن جُھوٹے اماموں کی جُھوٹی روایات پر عمل کرتی تھی ، قُرآنِ کریم کے اِس بیان سے معلوم ہوتا ھے کہ مُشرک انسان دُنیا کے جس مُلک اور دُنیا کی جس قوم میں بھی ہوتا ھے اُس کا اُس ملک اور اُس قوم میں واحد کام اپنے شرک کے شر کو فروغ دینا ہوتا ھے اور مُنافق انسان بھی دُنیا کے جس مُلک اور دُنیا کی جس قوم میں ہوتا ھے اُس کا کام بھی اُس ملک اور اُس قوم میں اپنی منافقت کی لعنت کو وسیع کرنا ہوتا ھے لیکن اللہ تعالٰی کی کتاب کے ماننے والے جس زمانے کی جس زمین پر بھی ہوتے ہیں اُن کا شیطان بھی اُس زمین اور اُس زمانے میں اُن کے درمیان کسی عالم و فقیہ انسان کی صورت میں ہمہ وقت موجُود ہوتا ھے اور وہ اپنے ماننے والوں سے وہ مُختلف فرقے قائم کراتا ھے جو فرقے اپنے زمانے میں دین کے نام پر ایسے ہی نۓ نئے دینی فرقے بنا تے ہیں اور انسانوں کو اُن فرقوں کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے اُن فرقہ وارانہ نظریات پر چلا کر انسانوں کو اُس جہنم میں پُہنچاتے ہیں جس میں پُہنچنے سے پہلے کسی فرقہ پرست کو اِس اَمر کا کوئی موہُوم سا گمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ جنت کے نام پر جہنم کی طرف جا رہا ہھے ، یہی وجہ ھے کہ اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو حُکم دیا ھے کہ آپ اپنی تمام جسمانی و رُوحانی قُوت کے ساتھ قُرآن کے پیش کیۓ ہوۓ اُس دینِ فطرت کی تعلیم و تربیت میں مُنہمک رہیں جس کے بارے میں اکثر لوگ یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ ھم نے اِس دین کی تدوین انسانی فطرت و تخلیق کے مطابق کی ھے اِس لیۓ شیطان کے شر ، شرک کے فتنے اور منافقت کے نفاق سے وہی انسان بچ سکے گا جو قُرآن کو حرزِ جان بناۓ گا اور جو انسان مُسلم ہونے کے بعد بھی شرک و منافقت کے اِسی گھاٹ کا پانی پیۓ گا وہ سب سے پہلے ہلاک کیا جاۓ گا کیونکہ مُشرک کا شرک سب کے سامنے ہوتا ھے اور منافق کی منافقت بھی سب کے سامنے ہوتی ھے لیکن اِس مُسلم نما کافر مارِ آستیں کے زہریلے ڈنک کا کسی کو علم نہیں ہوتا اِس لیۓ اللہ کی زمین پر یہ مُسلم نما مُشرک اور مُسلم نما مُنافق ہر سانپ سے زیادہ زہریلا سانپ ہوتا ھے اور قُدرت کسی قوم کو ذلت و عذاب سے صرف اِس بنا پر نہیں بچاتی کہ اُس کا نام مُسلم ھے بلکہ اِس مُسلم کو زمین سے مٹانے کا معروف مُشرکوں اور معروف منافقوں سے پہلے اہتمام کیا جاتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457832 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More