مالِ حلال و مَصرفِ مالِ حلال !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{ سُورَةُالرُوم ، اٰیت 37 تا 39 }}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اولم یروا
ان اللہ یبسط الرزق
لمن یشاء ویقدر ان فی ذٰلک
لاٰیٰت لقوم یؤمنون 37 فاٰت ذالقربٰی
حقه والمسکین وابن السبیل ذٰلک خیر للذین
یریدون وجه اللہ واولٰئک ھم المفلحون 38 وما
اٰتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربواعند اللہ
ومااٰتیتم من زکٰوة تریدون وجه اللہ فاولٰئک ھم المضعفون 39
کیا اہلِ زمین اُن ذرائع حیات پر غور ہی نہیں کرتے جو ذرائع حیات اُن کے وسائلِ حیات میں کمی اور اضافے کا باعث ہوتے ہیں اور جن ذرائع حیات کو اختیار کرنے کے بعد اللہ اُن کے وسائل حیات میں ضافہ کرتا ھے اور جن ذرائع حیات کو ترک کرنے کے بعد اللہ اُن کے وسائلِ حیات میں کمی کر دیتا ھے ، حالانکہ یہ تو وہ معروف ذرائع ہیں جن کو اختیار کیۓ بغیر ایک محنت کار اور ایمان دار قوم شاہراہِ حیات پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی لیکن جو قوم محنت کار اور ایمان دار ہوتی ھے تو وہ اِن جائز ذرائع کو اختیار کرکے خود بھی ارتقاۓ حیات کے راستے پر چلتی ھے اور اپنے قرب و جوار کے وسائل سے محروم و نادار ، مسکین و لاچار اور سفرکار انسانوں کو بھی اپنے ساتھ چلا تی ھے اور خیر و فلاح پاتی ھے ، تُم لوگ جو خُدا کے خوف سے بے خوف ہو کر اپنے مالِ حرام کو بڑھانے کے لیۓ اپنے مالِ حرام کی حرام مدّات سے جو مالِ حرام لیتے اور دیتے ہو وه قُدرت کے نظامِ خیر میں کبھی نہیں بڑھتا لیکن تُم لوگ اپنے مالِ حلال کی حلال مدّات سے جو مالِ حلال دیتے یا لیتے ہو وہ قُدرت کے نظامِ خیر میں ہمیشہ ہی بڑھتا رہتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کا مقصدی مضمون حلال و حرام کا وہی مضمون ھے جس مضمون کا سُورَةُالبقرة کی اٰیت 168 سے آغاز ہوا تھا اور جس مضمون کے حوالے سے سُورَةُالبقرة کی اٰیت 173 میں اُن قطعی حرام چیزوں کو بیان کیا گیا تھا جو اِس کتابِ نازلہ کی رُو سے قطعی حرام ہیں اور جن کا انسانی جان بچانے کی ایک وقتی ضروت کے سوا کسی حال میں بھی استعمال حلال نہیں ھے ، اِس کے بعد اِن قطعی حرمتوں کے اسی مضمون کو سُورَةُالمائدہ کی اٰیت ایک سے پانچ تک مزید شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا تھا اور پھر اسی سُورت کی اٰیت 88 میں اُن چیزوں کا الگ سے ذکر کیا گیا تھا جو پہلی چیزوں کی طرح حرام تو نہیں ہیں لیکن اُن کی ظاہری یا طبعی پاکیزگی و عدمِ پاکیزگی کو دیکھنا اور پرکھنا لازم ہوتا ھے ، پھر اِن سُورتوں کی اِن اٰیتوں میں بیان کی گئی اِن اَشیاۓ حرام کے بعد سُورَةُ البقرة کی اٰیت 275 میں اُس مالِ حرام کا ذکر بھی کیا گیا تھا جو مالِ حرام مُختلف انسان جن مُختلف ذرائع سے کماتے اور کھاتے ہیں اُن مُختلف ذرائع میں ایک بدترین ذریعہ وہ مالِ رِبا ھے جس کو عرفِ عام میں سُود کہا جاتا ھے اور وہ ایک لامتناہی سُود Indefinite Interest ہوتا ھے جس کے دینے والے کی کئی نسلیں وہ سُود چکاتی اور لینے والی کی کئی پُشتیں وہ سُود کھاتی رہتی ہیں ، پھر سُورَةُ الاَعراف کی اٰیت 157 میں حلال و حرام کا الگ الگ بیان کر کے اِس مُجمل مضمون کو ایک مُفصل بیانیہ بنا کر پیش کیا گیا تھا تا کہ حلال و حرام کا کوئی زاویہ تشنہِ تفصیل نہ رہ جاۓ اور پھر حلال و حرام کے اِس مُفصل بیانیۓ کے بعد سُورَةُالنحل کی اٰیت 114 میں حلال و حرام کا ایک آخری و حتمی بیان جاری کرنے کے بعد سُورَةُالنحل کی اٰیت 116 میں یہ حتمی حُکم بھی جاری کیا گیا تھا کہ حلال و حرام کے اِن حتمی اَحکام کے بعد کسی انسان کو اپنی خواہشِ دل سے یہ بات کہنے کا اور یہ فتوٰی دینے کا حق نہیں ھے کہ اُس کے خیال میں فلاں فلاں چیز حلال ھے اور فلاں فلاں چیز حرام ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کے اِن اَحکام کے بعد کسی انسان کا کوئی خیال کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، حلال و حرام کے بارے میں قُرآنِ کریم کی اِن اٰیات کے اِن حوالہ جات سے ھمارا مقصد حلال و حرام کے بارے میں نازل ہونے والی اُن تمام اٰیات کا احاطہ کرنا نہیں ھے جو اِس بارے میں وارد ہوئی ہیں بلکہ ھمارا مقصد صرف اِس بات کو واضح کرنا ھے کہ قُرآنِ کریم نے اِس سے قبل حلال و حرام کے اِس مسئلے کو اُس کے ہر ایک پہلو اور ہر ایک زاویۓ سے واضح کر دیا ھے ، جہاں تک سُورَةُالرُوم کی اٰیات بالا کا تعلق ھے تو اِن اٰیات میں حلال و حرام کے حوالے سے لاۓ گۓ اِس مضمون کا مقصد بھی اُن اَشیاۓ حلال و حرام کا اعادہ کرنا نہیں ھے جن کا پہلے ہی پُوری شرح و بسط کے ساتھ ذکر ہو چکا ھے بلکہ اِس سُورت کی اِن اٰیات میں مالِ حلال کے اُن جائز ذرائع کی طرف توجہ دلانا ھے جن کو تلاش کرنے اور اختیار کر نے کے بعد مالِ حرام و ذرائع مالِ حرام کے وہ تمام راستے بند ہو سکتے ہیں جن کا ذکر سُورَةُالبقرَة کی اٰیت میں 275 میں ہوا ھے اور مالِ حرام کے اِن حرام ذرائع میں سب سے بدترین حرام ذریعہ"رِبا" کا وہ کار و بار ھے جس کا ھم نے ذکر کیا ھے اور اٰیاتِ بالا کی اَوّلیں اٰیت کا اَوّلیں مقصد مالِ حلال کے حلال ذرائع تلاش کرنا اور اُن حلال ذرائع کو اختیار کرنا ھے ، اٰیت ہٰذا کا یہ حرفِ اَوّل { اولم یروا } استفہام انکاری ھے جس میں یہ استفسار کیا گیا ھے کہ { کیا اہلِ زمین اُن ذرائع پر غور نہیں کرتے } مطلب یہ ھے کہ کرتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ حصولِ رزق کے جائز و حلال ذرائع کیا ہیں اور ناجائز و حرام ذرائع کیا ہیں لیکن اِن مُنکرینِ قُرآن کو حرام کھانے کا ایک چسکا لگ چکا ھے جس کی وجہ سے اِن کو رزقِ حلال کا ذائقہ ہی بُھول چکا ھے لیکن اگر یہ لوگ رزقِ حلال کھائیں گے تو اِس کے بھی ضرور عادی ہو جائیں گے ، قُرآنِ کریم نے اِس مقام پر مالِ رِبا کا مالِ زکٰوة کے ساتھ موازنہ کرکے یہ بتایا ھے کہ مالِ رِبا چونکہ اپنی اَصل کے اعتبار سے ناپاک اور حرام ھے اِس لیۓ اِس کا لین دین بھی حرام ھے جبکہ مالِ زکٰوة اپنی اَصل کے اعتبار سے پاک و حلال ھے اِس لیۓ اِس کا لین دین بھی حلال ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس مضمون کا آغاز انسانی رزق کی تنگی اور انسانی رزق کی کشادگی سے کیا ھے جس میں تنگی کا سبب رِبا ھے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے جبر ھے اور اسی بنا پر حرام و بے برکت ھے اور مالِ زکٰوة اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک لُطف و کرم ھے اور اسی بنا پر حلال و با برکت ھے ، سُود کی بناۓ حُرمت زور زبردستی کا وہ لین دین ھے جس نے زمین پر ظلم کا دروازہ کھولا ہوا ھے اور زکٰوة کی بناۓ حلّت اِس کا وہ رضاکارانہ لین دین ھے جس نے اہلِ زمین کو محبت و مہربانی کا گُم شدہ راستہ دکھایا ھے ، اِس سے قبل انسانی رزق کی تنگی و کشادگی کا یہی مضمون سُورَةُالرعد کی اٰیت 26 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 30 ، سُورَةُالقصص کی اٰیت 72 ، سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 62 میں بھی آچکا ھے اور اِس کے بعد رزق کی تنگی و کشادگی کا یہی مضمون سُورَہِ سبا کی اٰیت 36 و 39 ، سُورَةُالزُمر کی اٰیت 52 اور سُورَةُالشُورٰی کی اٰیت 12 میں بھی آۓ گا ، قُرآنِ کریم نے اِن نو مقامات پر آنے والی اِن نو اٰیات میں انسانی رزق کی تنگی اور انسانی رزق کی کشادگی کی نسبت چونکہ اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی قدر کی طرف کی ھے اِس لیۓ عُلماۓ روایت نے حسبِ روایت قُرآنِ کریم کے اِن سارے مقامات پر انسان کی غُربت و امارت کا خالق و عامل بھی اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی کو قرار دیا ھے تاہم یہ بات تو یقیناً درست ھے کہ عالَم و اَشیاۓ عالَم کا خالق بھی اللہ تعالٰی ھے اور عالَم و اَشیاۓ عالَم کا مالک بھی اللہ تعالٰی ہی ھے لیکن انسانی اعمال کا عامل اللہ تعالٰی نہیں ھے بلکہ خود انسان ھے جو اپنے آزاد اختیار اور اپنے آزاد ارادے سے اپنے اعمالِ حیات اَنجام دیتا ھے لیکن عُلماۓ روایت اِن تمام مقامات پر انسانی رزق کی کشادگی اور تنگی کی یہ تشریح و تفسیر کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنی حکمت و مصلحت سے کسی کو مال و دولت زیادہ دیتا ھے اور کسی کو کم دیتا ھے ، اگر عُلماۓ روایت کے اِس روایتی خیال کے مطابق انسان کے ارادی و اختیاری اعمال کا ذمہ دار اللہ تعالٰی کو قرار دیا جاۓ تو اللہ تعالٰی اپنے مرتبے سے اُتر کر کے مخلوق کی سطح پر آجاۓ گا اور مخلوق اپنی سطح سے اُبھر کر خالق کے منصب پر جا پُہنچے گی اور اِس صورت میں کوئی انسان اپنے عمل کے بارے میں اللہ تعالٰی کے سامنے اِس اَمر کا جواب دہ نہیں ہو گا کہ اُس نے فلاں بُراں کام کیوں کیا ھے بلکہ خود اللہ تعالٰی انسان کے سامنے انسان کے اِس سوال کا جواب دہ بن جاۓ گا کہ اُس نے انسان سے فلاں بُرا کام کیوں کرایا ھے ، اسی طرح زکٰوة کے بارے میں عُلماۓ روایت کی یہ تشریح بھی ایک باطل تشریح ھے کہ زکٰوة صاحبِ مال کے ناپاک مال کو پاک بناتی ھے کیونکہ زکٰوة کی اِس تعریف کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے تو ایک مُسلمان سال بھر کُھلے دل سے حرام مال کماۓ اور سال کے بعد اُس حرام مال کا اڑھائی فیصد مولوی صاحب کے مُنہ میں ڈال کر اپنے سارے مالِ حرام کو مالِ حلال بنا لے ، سوال یہ ھے کہ ایک مسلمان وہ حرام کماۓ ہی کیوں کہ جس کو حلال بنانے کے لیۓ ایک سال کے بعد دُوسری مرتبہ اُس کو اپنا وہ ناپاک مال ایک دُوسرے پاک مُنہ میں ڈالنے کی ضرورت پیش آۓ !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462743 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More